کچھ بیت الخلائی لکھاریوں کے بارے میں
منٹو نے اپنے خاکوں میں اس واقعے کا کہیں تذکرہ کیا ہے کہ وہ ایک فلم پروڈیوسر سے ملنے کے لیے گئے۔ جب اسٹوڈیو پہنچے تو ملاقات سے قبل انہیں بیت الخلا جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
فراغت کے لیے جب وہ اسٹوڈیو کے بیت الخلا میں گئے تو انہوں نے اس کی دیوار پر ملازمین کی جانب سے تنخواہوں میں تاخیر کی شکایات درج دیکھیں۔ یہ دیکھتے ہی منٹو ان صاحب سے ملے بغیر ہی لوٹ آئے کہ جو آدمی اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتا، وہ انہیں بروقت معاوضہ کیا دے گا۔
نوشتہءِ دیوار تو ہم سرِعام پڑھ سکتے ہیں۔ نعرے، اعلانات، اشتہار، سیاسی رہنماؤں کے قصیدے یا ہجو، مطالبات، حتیٰ کہ فتوے اور فیصلے بھی دیواروں کی زینت بن جاتے ہیں۔ لیکن کچھ تحریریں پس دیوار بھی ہوتی ہیں۔
پبلک ٹوائلٹس کی سہولت ہمارے ہاں عام طور پر میسر نہیں لیکن جن جگہوں پر بنائے گئے بیت الخلا اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہاں اس نقش گری کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
پڑھیے: دیوار گریہ
عوامی بیت الخلا کی دیواریں عام طور پر وہاں پائے جانے والے ماحول کی طرح بدبودار عبارتوں سے آلودہ ہوتی ہیں، لیکن بیت الخلا کی دیواروں پر لکھنا یا نقش نگاری کا یہ چلن صرف ہمارے ہاں ہی نہیں پایا جاتا۔
انگریزی میں دیوار پر لکھی عبارتوں کو Graffiti کہا جاتا ہے۔ برطانیہ میں پرانی طرز کے بیت الخلا کو ”بوگ ہاؤس“ کہا جاتا تھا اور انہیں پبلک ٹوائلٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
اٹھارہویں صدی میں ”ہرلوتھرمبو“ کے قلمی نام سے کسی انگریز نے ان پبلک ٹوائلٹس میں لکھی گئی عبارتوں کو The Glass Window and the Bog-House کے نام سے کتابی شکل میں جمع کیا۔
بیت الخلا کی دیوار پر لکھنے کے بارے میں ایک اور قدیم حوالہ پہلی صدی عیسیوی سے بھی ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی صدی عیسوی میں مارشل نامی رومن شاعر نے اپنے کسی مخالف کو سیخ پا کرنے کے لیے اسے تجویز دی تھی کہ اگر وہ اپنی شاعری کو منظر عام پر لانا چاہتا ہے تو انہیں غسل خانوں کی دیواروں پر لکھ ڈالے۔
1983 میں دیواروں پر لکھی گئی تحریروں پر ہونے والی ایک تحقیق میں اس کی تین اقسام بتائی گئیں، جس میں پہلی Tourist Graffiti ، یعنی وہ عبارتیں جو کوئی سیاح کسی جگہ اپنے آنے کے اعلان کے لیے لکھتا ہے۔
تاریخی عمارتوں کی دیواروں اور تفریح گاہوں یا جنگلوں میں درختوں وغیرہ پر آپ نے ایسی عبارتیں پڑھی ہوں گی جہاں آنے والے نے اپنا نام لکھ کر اس بات کا اعلان کیا ہوتا ہے کہ ”مابدولت“ یہاں تشریف لائے تھے۔
دوسری قسم کو محققین نے Inner-city کا عنوان دیا۔ ہمارے ہاں ہونے والی وال چاکنگ اس کی مثال ہے، جبکہ دنیا کے مختلف خطوں میں دیواروں پر نقش نگاری، جسے اسٹریٹ آرٹ کہتے ہیں، اس زمرے میں آتی ہے۔
مزید پڑھیے: وقت پر ٹوائلٹ نہ جانے کے نقصانات
تیسری قسم "Latrinalia" بتائی گئی ہے۔ محققین کے مطابق یہ تیسری قسم سب سے منفرد ہے۔ اس کی وجہ ایک ایسی جگہ پر لکھا جانا ہے جہاں ہر کوئی صرف ایک فطری ضرورت کو پورا کرنے جاتا ہے، اور اس دوران دیواروں پر لکھنا ایک عجیب و غریب بات ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر پبلک ٹوائلٹ میں پرائیویسی کا خوف سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں وہاں بیٹھ کر لوگ کس طرح اپنے خیالات کو دیواروں پر منتقل کردیتے ہیں، یہ ایک معنی خیز سوال ہے؟ اس کی وجوہ تلاش کرنے والوں نے اسے کئی زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
بیت الخلا میں خواتین اور مردوں کے لیے علیحدہ علیحدہ انتظام کیا جاتا ہے اور شاید یہ دنیا کا ایک ہی ایسا مقام بچا ہے جہاں مرد و زن اپنے لیے مختص کردہ حصے میں جاتے ہیں۔
امریکا کے معروف نفسیاں داں اور ماہرِ جنسیات الفریڈ کنسے نے 1950 میں اس حوالے سے ایک تحقیق کی۔ اس تحقیق میں انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر مردانہ اور زنانہ بیت الخلا میں لکھی ہوئی عبارتوں کو جمع کیا اور اس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مرد عورتوں کے مقابلے میں بیت الخلا کی دیواروں پر زیادہ فحش عبارتیں لکھتے ہیں۔
خواتین چوں کہ اخلاقی و سماجی قدروں سے متعلق زیادہ حساس ہوتی ہیں، اس لیے ان کی جانب سے لکھی جانے والی عبارتوں یا نقش نگاری میں فحاشی کا تناسب انتہائی کم ہوتا ہے۔
میلبرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات پروفیسر نک ہیسلیم نے ”سائیکولوجی ان باتھ روم“ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ 1960، 70 اور 80 کی دہائیوں میں اس موضوع پر ہونے والی تحقیق سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ ٹوائلٹ کی دیوار پر لکھتے ہوئے مرد جارحانہ انداز اپناتے ہیں اور ان کی تحریروں میں جنس کا عنصر غالب ہوتا ہے جبکہ خواتین محبت اور ایسے جذبات کے بارے میں قدرے ”شائستہ“ انداز سے اظہار خیال کرتی ہیں۔
انڈیانا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے امیدوار نکولس میتھیوز نے اس موضوع پر 2012 میں ایک تحقیقی رپورٹ پر کام کیا۔ اس کے مطابق انہیں جو زیادہ تر عبارتیں نظر آئیں انہیں وہ "Presence-Identifying" کا نام دیتے ہیں، جس سے مراد موجودگی کا احساس دلانا ہے۔
یعنی ان عبارتوں میں اس کے لکھنے والے نے اپنے وہاں موجود ہونے کا اعلان کرنے کے لیے ہی دیوار پر اپنا یا اپنے شہر کا نام، یا کوئی اور ایسی علامت اور نشان دہی کی ہوتی ہے۔
پڑھیے: ٹوائلٹس کی کمی بھی کوئی مسئلہ ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ بیت الخلا کی دیواروں پر لکھی تحریروں کے تجزیے میں زیادہ تر ماہرین نے اسے مرد و عورت کے مختلف رویوں کے تناظر میں دیکھا ہے اور ایسے ایسے اسباب پر روشنی ڈالی ہے جو پہلی نظر میں تو چونکا دیتے ہیں۔
لیکن یہ تفصیلات عبارتوں کے متن اور انداز بیان سے متعلق ہیں، اس لیے ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس بات پر توجہ مرکوز رکھنا بہتر ہے کہ آیا کوئی اس خاص مقام میں ایک خاص حالت میں دیواروں پر تحریر کے ذریعے اظہار خیال کیوں کرتا ہے؟
اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے میتھیوز کہتے ہیں ”یہ ایسی جگہ ہیں جہاں پر متنوع قارئیں دستیاب ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق مختلف طبقات، رنگ و نسل اور شعبہ ہائے زندگی سے ہوسکتا ہے اس لیے یہاں اظہار خیال کو مؤثر تصور کیا جاتا ہوگا۔
ساتھ ہی بیت الخلا ایک ایسی جگہ ہے جہاں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے وقت گزارنے والے کی نظر لامحالہ ان دیواروں پر پڑتی ہے اور اس کی نظریں ان عبارتوں سے بچ نہیں پاتیں اس لیے لوگ اظہار کے لیے ان دیواروں کا سہارا لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ چوں کہ ٹوائلٹ میں لکھنے والے کو کوئی دوسرا دیکھ نہیں سکتا اس لیے وہ وہاں اپنے ”جذبات“ کا برملا اظہار کرنے میں جھجکتا نہیں۔
ماہرینِ نفسیات نے اس کے علاوہ بھی کئی اسباب بیان کیے ہیں لیکن اس کے اسباب کے حوالے سے کوئی کامل نظریہ، جو اس کی بنیادی وجہ کو بیان کرتا ہو، تلاش کرنا ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
بعض لوگ تو اس کی سائنسی طور پر ناقابل قبول وجہ کے بھی قائل ہیں یعنی یہ محض وقت گزاری کے لیے کیا جاتا ہے۔ لیکن مختلف ماہرین کچھ نکات پر متفق ہیں۔ مثلاً کیوں کہ یہ عبارتیں لکھنا والا گم نام رہتے ہوئے اپنی نفرت، ناپسندیدگی اور تعصب سمیت کسی بھی قسم کے جذبے کا بہ آسانی اظہار کرلیتا ہے اس لیے اس ذریعے کو اپناتا ہے۔
تصاویر: کراچی کی بولتی دیواریں
میتھیوز مغربی ممالک کے حوالے سے ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں، کہ ”لوگ ایسا اس لیے بھی کرتے ہیں کہ یہ تاحال ایک غیر قانونی فعل ہے۔ تو اس طرح بیت الخلا کی دیوار پر لکھنا اس قانون سے انحراف اور ایک جرم ہے۔
مجرم کو بھی یہ جرم مہنگا نہیں پڑتا۔ اس میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے امکانات بہت کم ہیں، اور دیوار کو دھو کر یا سفیدی کرکے اسے جرم کو مٹایا جاسکتا ہے۔“
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ فراغت کے لیے بیت الخلا میں گزارے جانے والے وقت میں انسان تنہا ہوتا ہے، اس تنہائی کے سبب اس کا دماغ میں خیالات کی آمدورفت تیز ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ خیالات کی اس تیز رو سے فرار اختیار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سرگرمی تلاش کرلیتے ہیں۔
بعض ماہرین اظہار پر پابندیوں کو بھی اس کا سبب گرادنتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے جذبات، جن کے بارے میں سرعام بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے یا اس سے کوئی خطرہ لاحق ہو، تو ایسے جذبات کے اظہار کے لیے بھی بیت الخلا کی دیواروں پر لکھ کر تسکین حاصل کی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جہاں بیت الخلا کی دیواروں پر فحش نقش اور عبارتیں لکھی نظر آتی ہیں وہیں نسلی و مذہبی تعصب کا اظہار کرنے کے لیے بھی اسی مقام کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ سیاسی یا نظریاتی اختلاف کے اظہار کے لیے بیت الخلا میں پسِ دیوار لکھی جانے والی عبارتوں اور عام دیوار پر لکھی تحریروں میں فرق رفتہ رفتہ مٹتا جارہا ہے۔
جس قبیل کا گھٹیا بیانیہ بیت الخلا کی دیواروں پر دیکھنے کو ملتا تھا، اب تو رفتہ رفتہ عمومی طرز اظہار بھی یہی لہجہ اختیار کرتا جارہا ہے۔
بات تو تشویش ناک ہے!
صاحبِ تحریر گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ انٹرویو، ترجمہ نگاری کے ساتھ ساتھ عالمی سیاسی و معاشی حالات ان کی دلچسپی کا موضوع ہے۔ ادبی و سماجی موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔