معیشت پر بھاری 'چائنہ کا مال'
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور تقریباً بیس کروڑ نفوس پر مشتمل اپنی آبادی کی ضروریاتِ زندگی کی مختلف اشیاء دیگر ممالک سے بڑی تعداد میں درآمد کرنی پڑتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب درآمد شدہ اشیاء کو بہت بہتر خیال کیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ ان اشیاء کی اعلیٰ کوالٹی تھی اور یہ چیزیں کئی سال استعمال کے بعد بھی خراب نہیں ہوتی تھیں۔ مگر اب منظر نامہ کچھ اور ہے۔ پاکستان میں درآمد شدہ اشیاء کے معیار کے جائزے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں اس لیے پاکستانی صارفین کو ان ناقص اشیاء سے کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
اس مضمون میں ہم مختصراً ان امور پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے جو ان ناقص اشیاء کی درآمدگی سے پاکستانی معاشرے اور معیشت پر منفی اثرات کا باعث بن رہے ہیں۔
ہر جگہ چینی ساختہ مصنوعات
چین نے اپنی تیز رفتار ترقی سے دنیا کے کئی ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چین میں خام مال، مزدوری اور بجلی سستی ہونے کی وجہ سے مصنوعات کی تیاری پر کم لاگت آتی ہے، جبکہ معیار پر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اسی لیے دنیا کی صفِ اول کی الیکٹرانکس کمپنیاں مثلاً سیمسنگ، ایپل وغیرہ اپنی چیزیں چین سے تیار کروا کر فروخت کرتی ہیں.
پاکستان میں بھی تقریبآ ہر گھر میں چین سے درآمد شدہ اشیاء موجود ہیں مگر ہم بطور پاکستانی صارف اس مشکل سے دوچار ہیں کہ جو بھی اشیاء چین سے درآمد کی جاتی ہیں، ان کی کوالٹی انتہائی ناقص ہوتی ہے۔
چینی ساختہ ناقص مصنوعات کے مقابلے میں جاپانی مصنوعات خاصی پائیدار اور بہتر کوالٹی کی حامل ہوتی ہیں (لہٰذا جاپانی اشیاء دو تین سال آسانی سے چلتی ہیں جبکہ چینی مصنوعات چار سے چھ ماہ میں خراب ہوجاتی ہیں)۔
کچھ دہائیوں پہلے چین کی مصنوعات کو پاکستان میں سب سے زیادہ پائیدار تصور کیا جاتا تھا مگر اب صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے. جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں چین سے جو مال درآمد کیا جاتا ہے وہ درجہ دوئم، سوئم یا پھر چہارم کا حامل ہوتا ہے۔
ان ناقص برقی اور مشینی آلات سے پاکستانی صارف کو نہ صرف مالی نقصانات کا سامنا ہے، بلکہ یہ حادثات اور ذہنی کوفت کا سبب بھی بنتی ہیں۔ حکومت کی کوالٹی چیک میں کوتاہی یا عدم دلچسپی یا معاشی مصلحتوں کی وجہ سے انسانی جانوں کا زیاں ناقابلِ تلافی ہے۔ سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ ناقص مصنوعات کی درآمدگی سے معیشت پر بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آلودگی میں اضافہ
دو چار ماہ بعد ان ناقص مصنوعات کے خراب ہوجانے کے بعد ان کے پرزے کسی کام کے نہیں رہتے جس وجہ سے وہی چیز ایک بار پھر درآمد کرنی پڑتی ہے، جبکہ پچھلی چیز پھینک دی جاتی ہے، نتیجتآ کچرے میں اضافہ ہوتا ہے. ہمارے ملک میں جہاں کچرا صاف کرنا ویسے ہی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، وہاں ان درآمد شدہ اشیاء کے پرزوں کے ڈھیر اس کام کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔
مگر خطرناک بات یہ ہے کہ کچھ برقی مصنوعات جیسے کمپیوٹرز اور موبائل فون کے پرزوں میں کچھ ایسی دھاتیں شامل ہوتی ہیں جنہیں صرف کچرے کے ڈھیر میں پھینک دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ خصوصی طور پر ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہوتی ہے.
مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکومت کے لیے ایسی چیزوں سے ہونے والی آلودگی اور نقصانات کو شمار کرنا بھی ممکن نہ ہو، وہاں اس کو مؤثر طریقے سے ضائع کرنے کا تصور بھی بہت دور کی بات ہے۔
صنعت کاری کا مقابلہ نہ کر پانا
ڈان نیوز پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق چین سے تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم دس ارب ڈالر سے زائد ہے۔
پاکستان سے چین میں تقریباً دو ارب ڈالر سے کچھ کم مالیت کی اشیاء برآمد کی جاتی ہیں۔ جبکہ چین سے پاکستان میں تقریباً آٹھ ارب ڈالر سے زائد کی اشیاء درآمد کی جاتی ہیں۔
اس طرح چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ چھ ارب ڈالر سے متجاوز ہوچکا ہے۔ خیال رہے کہ یہ اضافہ گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔
ہر نئے سال کے ساتھ چین سے درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین تجارت سمندری، فضائی اور اس کے علاوہ زمینی راستے سے بذریعہ گلگت سے منسلک چینی صوبے سے ہوتی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہر ماہ ایک ہزار ٹرک شاہرہ ریشم سے گزرتے ہیں۔
چین میں اچھی طرزِ حکومت کی وجہ سے پیداواری صنعت کو بہت سی مراعات حاصل ہیں۔ چینی صنعت کو سستی افرادی قوت، کم قیمت توانائی کے علاوہ انتہائی کم شرح سود پر قرضے کے حصول کی آسانیاں بھی میسر ہیں۔
چوں کہ چین کی پیداواری صنعت اشیاء کو بڑی تعداد میں تیار کرتی ہے، اس لیے ان پر لاگت کم ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی صنعت کی صورت حال ہم سب کے سامنے ہے. پاکستانی پیداواری صنعت ڈھیروں مسائل کی زد میں ہے.
کوالٹی کا پیمانہ؟
ایک مشکل یہ بھی ہے کہ پاکستانی تاجر درآمد شدہ درجہ سوئم یا چہارم کی مصنوعات کو درجہ اول کا بتا کر فروخت کر کے صارفین کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں. وہ مصنوعات پاکستانی ساختہ اشیاء سے قیمت میں بھی کم ہوتی ہیں اور تاجروں کے لیے زیادہ منافع بخش ہوتی ہیں۔
بطور ایک عام صارف ہم جب بھی مارکیٹ سے اشیاء خریدنے جاتے ہیں تو ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہوتا کہ ہم صرف اچھی کوالٹی کی اشیاء کا انتخاب کرسکیں، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں حکومت کی جانب سے اشیاء کے اوپر واضح طور پر اس کی کوالٹی کا درجہ درج ہوتا ہے۔
پاکستان میں اکثر دکانوں کے اندر اور خریداری رسید کے اوپر بڑے واضح طور پر تحریر ہوتا ہے: "میڈ ان چائنہ مال کی کوئی گارنٹی نہیں۔" پاکستانی صارفین اکثر فریبی تاجروں یا لاعلمی کے ہاتھوں درجہ اول کی قیمت میں درجہ دوئم یا سوئم کی اشیاء خریدنے پر مجبور ہیں۔
باقی دنیا میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ چین کا مال امریکا اور یورپ سمیت پوری دنیا میں درآمد ہوتا ہے تو پھر وہاں کے صارفین کے حقوق کا تحفظ کون کرتا ہے؟
تو جناب ان ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کے حقوق کا خیال رکھتی ہیں. ان ملکوں میں کسی بھی طرح کے سامان کو داخل ہونے سے پہلے مطلوبہ معیار کا ہونا لازمی شرط ہیں۔
دنیا بھر میں کوالٹی کنٹرول ادارے مؤثر طریقوں سے اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف ان ممالک کے عام صارفین کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، بلکہ ملکی پیداواری شعبے کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
لہٰذا ایسے ملکوں میں ناقص مصنوعات سے آلودگی میں اضافہ بھی نہیں ہوتا اور کوالٹی چیک سے مصنوعات کسی حادثے یا نا گوار حالات کا باعث نہیں بنتی ہیں۔
یوں تو پاکستان میں بھی اس کام کے لیے پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے نام سے ادارہ موجود ہے، مگر اس کے باوجود یہ اشیاء مارکیٹ تک پہنچ جاتی ہیں.
حکومت کی ذمہ داری
ویسے تو ہماری حکومتیں بہت سی جگہوں پر اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے غیر سنجیدہ نظر آتی ہیں اور عوام کے جائز حقوق کو بھی 'نجکاری' کے حوالے کر دیا ہے، چاہے تعلیم کا میدان ہو یا پھر صحت کی سہولیات ہوں۔
ہر خوشحال پاکستانی اپنی جیب کے مطابق اضافی رقم خرچ کر کے یہ 'پرائیوٹ' سہولیات کو حاصل کرتا ہے، مگر درآمد شدہ مصنوعات کی کوالٹی کا مسئلہ حکومتی سطح پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا حکومت کو کہوں گا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اول تو ہمیں اپنی درآمدات کی شرح کو نیچے لانا ہوگا، دوم یہ کہ درآمد شدہ مصنوعات کی کوالٹی چیک کا مؤثر نظام قائم کیا جائے تاکہ صارفین کو بہتر مصنوعات فراہم کی جائیں اور معیشت پر بوجھ کم ڈالا جاسکے۔
حسن اکبر لاہور کی آئی ٹی فرم ہائی راک سم میں مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ شخصیت میں بہتری کا جذبہ پیدا کرنے والی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ حسن اکبر ڈاٹ کام پر پڑھے جا سکتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔