غیرت کے نام پر قتل: 'زبردستی معافی' کا باب بند
قندیل بلوچ کے والدین کے پاس اب رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق مالک مکان نے انہیں چند دن پہلے گھر سے نکال دیا ہے۔
مگر ان کے لیے مسائل پیدا کرنے والا صرف وہ ایک شخص نہیں ہے؛ ملتان میں ان کے علاقے بستی مڑھا کے زیادہ تر لوگ ان کے خلاف ہیں۔
وہ قندیل بلوچ کے بہنوئی جاوید اقبال رند کے ساتھ مل کر قندیل کے والدین عظیم خان اور انور بی بی پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ قندیل کے قاتل اپنے بیٹے وسیم کو معاف کر دیں۔
انصاف کا تقاضہ کرنے پر جاوید کی جانب سے قتل کی دھمکیوں اور تمام سات بیٹوں کی جانب سے بے یار و مددگار چھوڑ دیے جانے کے باوجود انہوں نے قاتل کو معاف کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پڑھیے: مرکزی ملزم سے جان کا خطرہ ہے، والد قندیل بلوچ
بھلے ہی قندیل بلوچ کا قتل ایک افسوسناک باب تھا، مگر اس کے قتل کے بعد سینکڑوں میل دور اسلام آباد میں ایک سنگِ میل عبور کیا گیا۔ جمعرات 6 اکتوبر 2016 کو قومی اسمبلی نے زنا بالجبر اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف کافی عرصے سے التواء کے شکار دونوں قوانین منظور کر لیے ہیں۔
نئے قانون کے مطابق مقتول کے ورثاء قاتل کو صرف اس صورت میں معاف کر سکیں گے کہ جب اسے سزائے موت سنائی گئی ہو۔
جیسا کہ توقع تھی، مذہبی جماعتوں نے اس شق کی مخالفت کی اور اصرار کیا کہ پہلے علماء کا ایک پینل یہ بل منظور کرے، اس کے بعد اسے رائے شماری اور منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔
اس کے علاوہ نئے قانون کے مطابق زنا بالجبر کے مقدمات کا فیصلہ تین ماہ کے اندر اندر کرنا ہوگا، جبکہ ڈی این اے کے نمونے بھی اکٹھے کر کے فارینسک تحقیقات کے لیے بھجوانے ہوں گے۔
زنا بالجبر کے خلاف قانون بچوں اور معذوروں سے جنسی زیادتی کو بھی جرم قرار دیتا ہے، اور اس کی شقیں 25 سال کی قید یقینی بناتی ہیں۔
یہ قوانین اس ملک میں ایک خوش آئند پیش رفت ہیں، جس میں قندیل بلوچ کے والدین جیسے حالات اکثر و بیشتر مقتولین کے ورثاء کو پیش آتے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو معاف کرنے (یا زبردستی معاف کروانے) کی اجازت دینے والی قانونی موشگافی ملک بھر کی خواتین کے لیے سزائے موت سے کم نہیں تھی۔
مزید پڑھیے: غیرت کے نام پر قتل اور انسداد ریپ بل امید کی نئی کرن
اس صورتحال میں قانون سازوں کا مشکلات کو عبور کرنے کا عہد، اور وزیرِ اعظم کا بیان کہ وہ قانون پر سختی سے عملدرآمد کروانے کے لیے پرعزم ہیں، امید کی ایک ایسی کرن ہے جسے اس ملک میں تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔
مگر غیرت کے نام پر قتل صرف ان قوانین سے ختم نہیں ہوں گے۔
اس طرح قتل ہونے والی لڑکیاں بہت بہادر اور حالات کا سختی سے مقابلہ کرنے والی ہوتی ہیں، کیوں کہ ان سے بھی زیادہ لڑکیاں، اس سے پہلے کہ کوئی مرد انہیں قتل کر دے، امید کا دامن چھوڑ کر خود کو ختم کر لیتی ہیں۔
ایسی لڑکیوں کو غیرت کے نام پر ہونے والے قتال کی تعداد میں شمار نہیں کیا جاتا۔ اور جنہیں گنا جاتا ہے، ان کے قاتلوں پر مقدمہ چلانے، سزا دلوانے، اور زیادہ سے زیادہ صرف سزائے موت معاف کرنے کا یہ نیا عزم کچھ نہ ہونے سے زیادہ ہے۔
یہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ گذشتہ 70 سالوں سے، کچھ بھی نہیں تھا۔
غیرت کے نام پر قتل کی فطرت ایسی ہے کہ اس میں صرف قاتل نہیں بلکہ کئی افراد شامل ہوتے ہیں۔
قندیل بلوچ کا معاملہ، اور جو باتیں اس کے والدین انٹرویو کرنے والوں کو بتا رہے ہیں، اس نظریے کو تقویت بخشتی ہیں۔
پڑھیے: میرے دیس کی خانزادیاں
ان کے رشتے دار، پڑوسی، قندیل کا بہنوئی جس کے ساتھ قاتل وسیم ٹھہرا ہوا تھا، ان کے تمام بیٹے، یہ سب لوگ معافی کے حق میں ہے۔
باغی سمجھی جانے والی خواتین کے قتل میں جب اتنے لوگ بالواسطہ اور بلاواسطہ شامل ہوں، تو صرف ایک قاتل کو سزا دینا کافی نہیں ہوگا۔
ایک ایسا نظام بنایا جانا چاہیے، جس میں ایسی برادریاں اور گروہ، جو غیرت کے نام پر قتل کا جواز پیش کرتے ہیں، انہیں اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہونے کی وجہ سے اجتماعی سزا دی جانی چاہیے۔
قاتل کے لیے ایک ممکنہ عمر قید اہم قدم ہے، مگر یہ ان اقدامات میں سے صرف ایک قدم ہے جو کہ اٹھائے جانے چاہیئں۔
جب ایک گاؤں، ایک برادری، ایک قبیلے اور ایک گھرانے کو معلوم ہوگا کہ غیرت کے نام پر قتل کی حمایت کرنے اور جرم میں سہولت کار بننے سے انہیں اجتماعی طور پر سزا ملے گی، تو کچھ امید ہے کہ ایسے واقعات میں کمی آئے گی۔
اس دوران قندیل کے والدین ناامید ہیں اور اپنی زندگیوں کے لیے پریشان ہیں۔ انور بی بی 70 کے پیٹے میں ہیں، اور ان کے شوہر ایک ٹانگ سے معذور ہیں۔
اس قانون کی منظوری پر خوشی منانے کے ساتھ ساتھ کچھ توجہ ان پر بھی دی جانی چاہیے، تاکہ وہ غموں سے بھرپور اپنی باقی ماندہ زندگی خوف اور فاقوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے نہ گزاریں۔
ان کی بیٹی کو اب بچایا نہیں جا سکتا، مگر شاید انہیں اس ریاست سے کچھ امداد ضرور مل سکتی ہے جو ان کی بیٹی کو بچانے میں ناکام رہی۔
وہ بچی جس کی قبر اس کے والد کے مطابق اس کی خواہش پر پاکستان کے پرچم سے ڈھکی ہے۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔