لائف اسٹائل

'بھارتی فلموں پر پابندی مجبوری تھی'

ہم پابندی عائد نہیں کرنا چاہتے تھے مگر وہاں ہونے والے اقدام نے ہمیں مجبور کردیا، ندیم مانڈوی والا

پاکستانی سینماﺅں کے مالکان اور دیگر فریق آئندہ چند روز میں ملاقات کرکے بھارتی فلموں پر پابندی کے حوالے سے نئے لائحہ عمل پر غور کریں گے اور اس میں نرمی بھی کی جاسکتی ہے۔

یہ بات مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے چیف ایگزیکٹو اور ایٹریم سینما کے مالک ندیم مانڈوی والا نے ڈان نیوز کے پروگرام نیوز وائز سے بات کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا 'اس پابندی سے دونوں فریقین کو نقصان ہوگا، 40 سال تک یہاں بھارتی فلموں کو ریلیز کرنے کی اجازت نہیں، جبکہ پاکستانی فنکاروں نے وہاں کام نہیں کیا تھا، اگر دروازے ہم نے کھولے تو دروازے ان کی جانب سے بھی کھولے گئے ہیں، پاکستانی اسٹارز، گلوکار وہاں جا رہے ہیں اور کام کررہے ہیں، تو اس سے انہیں بھی اتنا ہی نقصان ہوگا جتنا ہمارا ہے، ہم تو ایسا نہیں چاہتے تھے، مگر وہاں پابندی عائد کرکے ہمیں مجبور کردیا گیا'۔

انہوں نے مزید کہا 'اگلے دو سے تین روز میں ایک اجلاس ہوگا جس میں آئندہ لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا کہ آگے کرنا ہے، جس میں نرمی اور حالات معمول کی جانب لے جایا جاسکے، ہمارا مقصد فلمیں بند کرنا نہیں ، مگر اس وقت جواب دینا بہت ضروری تھا"۔

ندیم مانڈوی والا نے کہا اس وقت دونوں ممالک کے درمیان کافی تناﺅ ہے اور سیاسی قیادت معاملات حل کرنے کی کوشش کررہی ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت میں ایک گروپ نے شور مچا کر پاکستانی فنکاروں پر پابندی کا مطالبہ کیا، جس پر ہمارا ردعمل ظاہر کرنے کا ارادہ نہیں تھا، تاہم جب پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے اس دباﺅ کی توثیق کرتے ہوئے پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کردی، تو ہمیں جواب دینا پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ اب اصل جھگڑا رواں ماہ کے آخر میں ریلیز ہونے والی فلم 'اے دل ہے مشکل' کی ریلیز پر ہے، اگر ہم بھی اسے یہاں بھی ریلیز نہ کریں تو یہ تو ہم اس بھارتی گروپ کی بات مان رہے ہوں گے کہ اسے ریلیز نہیں ہونا چاہئے ، تو ہمارے لیے تو اسے پاکستان میں ریلیز کرنا ضروری ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس اقدام سے پاکستانی فلموں کو فائدہ ہوگا تو ان کا جواب تھا کہ جب پاکستانی فلمیں آتی ہیں تو ہم انڈین فلموں کو سائیڈ لائن کردیتے ہیں، مگر پاکستانی فلم کی طلب نہ ہو تو پھر انڈین اور انگلش فلموں کو بھی جگہ ملے گی، اس عید پر تین پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں، اس سے تین دن پہلے ایک بھارتی فلم ریلیز ہوئی تھی، مگر عید پر پاکستانی فلموں کو وقت دینے کے لیے اس کے شوز بہت کم کردیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستانی سینماﺅں میں لگنے والی 50 سے 70 فیصد فلمیں درآمد کی جارہی ہیں، کیونکہ چار سے پانچ برسوں سے ہی پاکستانی انڈسٹری نے کام شروع کیا ہے۔

اس سے پہلے بھارتی سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن کے سربراہ پہلاج نہلوانی نے کہا تھا کہ ہندوستان میں پاکستانی فنکاروں پر پابندی بلاجواز ہے۔

مزید پڑھیں : 'اے دل ہے مشکل پر پابندی سے بولی وڈ کو نقصان'

پہلاج نہلوانی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’کسی بھی پاکستانی کو ہندوستان کا ویزا دینے کا فیصلہ حکومت کرتی ہے، ہم پروڈیوسرز اور ہدایت کار یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فنکار دہشت گرد نہیں اور ثقافت کو کبھی ان معاملات میں نہیں لانا چاہیے‘۔

قبل ازیں اس سے قبل انڈین موشن پکچرز پروڈیوسرز ایسوسی ایشن (آئی ایم پی پی اے) کے رکن راہول اگروال نے پاکستانی فنکاروں پر پابندی لگانے کے باعث مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی فنکاروں پر پابندی، انڈین فلم ایسوسی ایشن کے رکن مستعفی

اپنے ایک خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ’فن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور آرٹ کے نگہبان ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو ایک ساتھ جوڑیں نہ کہ انہیں الگ کریں‘۔