مودی کی مجبوری
بھارت کو جنگی جنون نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جو لوگ امن کے خواہاں ہیں انہیں اس طرح خاموش کروا دیا گیا ہو۔
سیاستدانوں، ماہرین اور صحافیوں کی جانب سے اشتعال انگیز بیان بازی ہندو دائیں بازو کے بڑھتے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے جو خطے میں امن تباہ کرنے کے لیے کمربستہ ہے، بیان بازی کی حد تک ہی سہی۔
جو اڑی میں ہوا، جہاں ایک مبینہ عسکریت پسند حملے میں 19 فوجی ہلاک ہوئے، وہ قابل مذمت ہے مگر بھارتی حکومت اور بالخصوص بھارتی میڈیا کا ردِ عمل سراسر غیرذمہ دارانہ رہا ہے۔
دہلی کی سیاست نے خطرناک طرزِ عمل اختیار کر لیا ہے اور اس میں بھارتی میڈیا نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ کشمیری شہریوں کے خلاف فوج کی بربریت کو اپنا مرکزی موضوع بنانے کے بجائے ہر کوئی پاکستان سے جنگ کے خد وخال پر تبصرہ کرنے میں مصروف ہے۔
شاید مودی حکومت کا جارحانہ رویہ صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک کے عوام کو دکھانے کے لیے ہے۔
بھارت جانتا ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی معاملات میں مکمل طور پر تنہا نہیں کر سکتا کیونکہ پاکستان جغرافیائی طور پر ایک نہایت اہم جگہ پر واقع ہے لہٰذا ایسے ملک کو دنیا ترک نہیں کرے گی۔
چین اور روس پاکستان کی کھلی حمایت کر چکے ہیں جبکہ بھارت کے اپنے ساتھی ایران نے پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
پاکستان کو دیوار سے لگانے کے بھارتی مؤقف پر امریکا کی جانب سے بھی سرد ردِ عمل ظاہر کیا گیا ہے۔
"پاکستان کو تنہا کرنے" کے اس سارے تماشے کی وجہ یہ ہے کہ مودی حکومت قوم پرست جذبات کی مدد سے اقتدار میں آئی تھی۔
اڑی جیسے حملوں کے بعد اسے اپنے ووٹرز کو یقین دلانا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کانگریس کی اس سابقہ حکومت کے مقابلے میں سخت اقدامات اٹھائیں گے جو بی جے پی کے مطابق اسلام آباد کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی۔
چوں کہ اگلے سال انتہائی اہم علاقائی انتخابات بھی منعقد ہونے والے ہیں اس لیے حکمران جماعت کشمیر میں مبینہ "پاکستانی مداخلت" پر خاموش نہیں رہ سکتی۔
اس طرح مودی خود اپنی شخصیت کے قائم تاثر کے غلام بن چکے ہیں۔
چونکہ جغرافیائی اسٹریٹجک حقائق یہی ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں دیوار سے نہیں لگا سکتا، اس لیے نئی دہلی، حقائق چھپانے اور اپنے ووٹرز میں موجود سخت گیر عناصر کو مطمئن کرنے کی خاطر، اس سے بھی زیادہ سنگین بیان بازی پر اتر آیا ہے۔
سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کا وعدہ بھی پورا ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارت ورلڈ بینک کی ثالثی میں ہونے والے اس معاہدے کو توڑ نہیں سکتا کیونکہ اس کا ایسا اقدام پوری بین الاقوامی برادری بشمول بھارتی اتحادیوں کو اپنے اوپر شدید تنقید کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔
بھارت اپنے پڑوسی ممالک سے سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کروانے میں کامیاب ہوا ہے تاہم اس صورتحال کی نوعیت پر روشنی ڈالی جانی چاہیے۔ ہمیں یہ پوچھنا چاہیے کہ کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کتنے ملکوں نے از خود کیا اور کتنے ملکوں سے بھارت نے یہ فیصلہ زبردستی کروایا۔
اسلام آباد کو بیان بازی، دھمکیوں اور الزامات کا نشانہ بنا کر نئی دہلی کشمیر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مگر بھارت آخر اور کتنا عرصہ کشمیر کو نظر انداز کر سکتا ہے؟
کشمیریوں کی بھارتی ریاست کے خلاف بے چینی کو پوشیدہ رکھ کر ہمیشہ کے لیے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر میں پاکستانی مداخلت کے باوجود بھارت مسئلہ کشمیر کو صرف دہشتگردی کا مسئلہ قرار دے کر ایک طرف نہیں رکھ سکتا۔
مگر مودی حکومت اس مسئلے کو ہینڈل کرنے کی اہل نہیں دکھائی دیتی۔ جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے تب سے کشمیر کی صورتحال بگڑتی ہی جا رہی ہے۔ حکمران جماعت کشمیر کو ہندو قوم پرست عدسے سے دیکھتی ہے، جس کا رویہ مسلم اکثریت رکھنے والی ریاست سے بہتر نہیں رہا ہے۔
کشمیر پر حکومت کرنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جو مودی حکومت کی اتحادی بھی ہے، بھی حکومتی اتحاد میں ہونے کی وجہ سے قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ چوں کہ کشمیر کے لوگ مقامی اور مرکزی دونوں حکومتوں پر اعتماد نہیں رکھتے، لہٰذا علاقے میں افراتفری مزید بڑھتی جا رہی ہے۔
بلاشبہ پاکستان کو بھی اپنے طور طریقے تبدیل کرنے ہوں گے۔ پاکستان کے لوگوں نے بھی اپنی حکومتوں کی اسٹریٹجک غلطیوں کے باعث بڑے پیمانے پر تکلیف کا سامنا کیا ہے۔
تالی دو ہاتھوں سے ہی بجتی ہے۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ سنجیدہ تعاون کرنا چاہیے، مگر بھارت کو پہلے سے بھی زیادہ سمجھداری اور بلوغت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ پاکستان کو ایسے اشتعال انگیز جذباتی بیانات سے ڈرا دھمکا نہیں سکتا۔
اگر بیانات اقدامات تک پہنچ گئے تو ہمارا کمزور خطہ جنگ کے دہانے پر ہوگا۔
لکھاری نئی دہلی میں مقیم براڈکاسٹ صحافی ہیں اور دی ڈپلومیٹ میگزین کے لیے لکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: destinydefier@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔