بھگت سنگھ ہیرو تو برہان وانی کیوں نہیں؟
انگریزی زبان کے ایک سوال "?Is One Man’s Terrorist Another Man’s Freedom Fighter" کو اگر اردو میں سمجھا جائے تو سوال کچھ یوں ہوگا۔
"کیا کسی کا دہشتگرد، کسی کا حریت پسند ہوتا ہے؟"
اس سوال کی گہرائی کو ناپنے کی کوشش کریں تو پتا لگتا ہے کہ اگر کسی گروہ کے چند افراد اس گروہ کو قابض حکمرانوں سے آزادی حاصل کروانے کے لیے جدوجہد کریں، تو جدوجہد کرنے والے وہ افراد محکوم گروہ کے لیے حریت پسند اور قابض حکمرانوں کے لیے دہشتگرد قرار پائیں گے۔
اس تناظر میں اب وزیرِ اعظم نواز شریف کی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کو دیکھتے ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنے تیسرے دور میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں چوتھی تقریر کے دوران ہندوستانی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیری نوجوان برہان وانی کو نوجوان رہنما کہا، جس پر ہندوستانی میڈیا سمیت ہندوستانی حکومت بھی چیخ اٹھی۔
وزیرِ اعظم کا برہان وانی کو نوجوان لیڈر کہنا اسے حریت پسند کا درجہ دیتا ہے جبکہ ہندوستانی حکومت کا اس جملے پر اعتراض اور برہان وانی کو ہندوستانی فوج کے ہاتھوں شہید کروانا اسے دہشتگرد قرار دیتا ہے۔
اب اگر دہشتگردوں اور حریت پسندوں کے درمیان فرق کو مزید سمجھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حریت پسند صرف ان اہداف کو نشانہ بناتے ہیں جو کہ ظلم و ستم میں ملوث ہوتے ہیں جبکہ دہشتگرد خصوصاً اور ارادتاً نہتے شہریوں کو ریستوران، اسٹورز، اسکولز اور ہسپتالوں میں نشانہ بناتے ہیں تاکہ عام شہریوں میں ان کا خوف بیٹھ جائے۔
پڑھیے: برہان مظفر وانی کون تھا؟
برہان وانی کو ان تفصیلات کی روشنی میں دیکھا جائے تو چوں کہ وہ ہندوستانی فوج کے خلاف عسکری کارروائیوں میں ملوث ہونے کے علاوہ کشمیریوں کو ہندوستانیوں کے غاصبانہ قبضے سے چھٹکارے کے لیے کوشاں تھا، لہٰذا وہ کشمیریوں کے لیے بنا کسی شک و شبہ کے حریت پسند ہے، مگر چوں کہ وہ ہندوستانی فوج سے برسرِ پیکار حزب المجاہدین کا رکن تھا، اس لیے ہندوستان برہان وانی کو دہشتگرد سمجھتا ہے۔
دہشتگرد اور مجاہد کے درمیان فرق کو برِصغیر کی برطانیہ کے خلاف تحریک آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے تو پتا لگتا ہے کہ انگریزوں سے تحریک آزادی کے دوران پھانسی پر لٹکنے والا بھگت سنگھ بھی دو مختلف گروہوں کے لیے دو مختلف حیثیتیں رکھتا تھا۔ بھگت سنگھ نے لالہ لجپت رائے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے برطانوی پولیس افسر جون سانڈرز کو قتل کیا تھا، مگر بھگت سنگھ کو ہندوستان آج جنگِ آزادی کے ہیرو کے طور پر یاد کرتا ہے۔
لالہ لجپت رائے برطانیہ کے خلاف تحریکِ آزادی کے اہم رکن تھے جو سائمن کمیشن کے خلاف ہونے والے پرامن احتجاج کے دوران لاٹھی چارج کی وجہ سے زخمی ہوگئے تھے۔ تاہم ان کی موت کی وجہ دل کا دورہ بنی۔ جس کے بعد بھگت سنگھ نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر لالہ لجپت کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے جیمز اے اسکاٹ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی جس نے لاٹھی چارج کا حکم دیا تھا۔
پڑھیے: بے گناہ کشمیریوں کی ہلاکت پر پاکستان کا ہندوستان سے احتجاج
مگر سازش تیار کرنے والوں کی غلطی کی وجہ سے جیمز اے اسکاٹ قتل ہونے سے بچ گیا اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس جان سانڈرز لاہور کے ڈسٹرکٹ پولیس ہیڈکوارٹر سے نکلتے ہوئے مارے گئے جن کے قتل کے الزام میں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی۔
لہٰذا اگر بھگت سنگھ ہندوستانیوں کے لیے ہیرو ہوسکتا ہے، تو برہان وانی کشمیریوں اور پاکستانیوں کے لیے حریت پسند کیوں نہیں ہوسکتا؟ بھگت سنگھ نے تو ایک فرد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے پولیس افسر کو قتل کیا، جبکہ برہان وانی تو لاکھوں کشمیریوں کو ہندوستانی بربریت سے چھٹکارا دلوانا چاہتا تھا۔
برہان وانی 2010 میں پیش آنے والے ایک سانحے کے نتیجے میں اس وقت عسکری جدوجہد کا حصہ بنا جب سیکیورٹی اہلکاروں نے برہان وانی، ان کے بھائی خالد اور دوستوں کو مارا پیٹا، جس کے بعد 2011 میں برہان وانی نے 16 سال کی عمر میں حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی۔
برہان وانی کو جموں اینڈ کشمیر پولیس اور 19 راشٹریا رائفلز نے مشترکہ آپریشن کے دوران 8 جولائی کو کوکرناگ کے گاؤں بمدورا میں شہید کیا۔
اطلاعات کے مطابق برہان وانی کے جنازے میں 2 لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی اور برہان وانی کی ہلاکت سے تحریکِ آزادیء کشمیر ایک بار پھر سے سرگرم ہو گئی، جو کہ آج تک جاری ہے۔
پڑھیے: 'کئی سالوں بعد قریبی مسجد سے آزادی کے نعرے گونجے'
ہندوستان کو اگر وزیرِ اعظم پاکستان کا برہان وانی کو نوجوان رہنما کہنا اتنا ہی برا لگا تو پھر ہندوستان کو اپنے 'عظیم رہنما' جواہر لال نہرو کی طرف سے بھگت سنگھ سے متعلق کہے الفاظ پر بھی شرمندگی ہونی چاہیے جس میں نہرو کا کہنا تھا کہ:
"بھگت سنگھ اپنی دہشتگردانہ کارروائی کی وجہ سے مشہور نہیں ہوا، بلکہ اس نے اپنے اس فعل کے ذریعے لالہ لجپت رائے اور ان کے ذریعے اس پوری قوم کی آبرو کو بلند کیا ہے۔"
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔