نقطہ نظر

شکوہ کیسا؟

کیا ہم عام لوگ بھی پولیس کے روکنے پر اپنا اثر و رسوخ ایسے ہی استعمال نہں کرتے؟

ہم سب لوگ وہی پتے کھیلتے ہیں جو ہمارے حصے میں آتے ہیں۔ قسمت کی بات ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس دوسروں کے مقابلے میں بہتر پتے ہوتے ہیں۔

تصور کریں کہ آپ اپنی سوک یا کرولا میں ہائی وے پر جا رہے ہیں اور ایک پولیس اہلکار آپ کو رکنے کا اشارہ کرتا ہے۔ آپ گاڑی سڑک کے کنارے روکتے ہیں، کھڑکی کا شیشہ نیچے کرتے ہیں، اور حیرت سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو کیوں روکا گیا ہے۔

مگر آپ کو ایسا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

آپ جانتے ہیں کہ آپ کی رفتار حد سے زیادہ تیز تھی، اور آپ جانتے ہیں کہ اس کیس میں پولیس اہلکار آپ کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔

مگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ پر انہی ضوابط کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے جو دیگر لوگوں پر ہوتے ہیں۔ آپ خود کو پولیس اہلکار کو اپنے طبقاتی اثر و رسوخ کی بناء پر رام کرنے یا ڈرانے دھمکانے سے باز نہیں رکھ پاتے۔

جب آپ سے لائسنس اور کاغذات مانگے جائیں، تو آپ اہلکار کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ وکیل ہیں، انجینیئر ہیں، یا کسی قریبی بڑے ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔

آپ شاید یہ بھی بتائیں کہ آپ کے ابو یا آپ کے چچا فوج میں اعلیٰ افسر ہیں۔

اور یوں بہت حد تک امکان ہے کہ آپ بغیر چالان کے نکل جائیں گے۔

کرپشن یہی تو ہوتی ہے۔

حال ہی میں لاہور اسلام آباد موٹروے پر فوجی اہلکاروں نے خراب ڈرائیونگ کرنے پر چالان کاٹنے کی کوشش کرنے والے موٹروے پولیس کے چار اہلکاروں کو زد و کوب کیا اور غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا۔

اس واقعے پر عوامی غم و غصہ محسوس کیا جا سکتا ہے، مگر سوشل میڈیا اور ڈرائنگ روم بحث مباحثوں میں ملوث فوجی افسروں کی حمایت بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

کچھ لوگوں کے خیال میں فوجی افسران ایک اہم کام سے کسی اہم جگہ جا رہے تھے، اس لیے خراب ڈرائیونگ پر ان سے بازپرس نہیں کی جانی چاہیے۔

ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ اپنا فرض ایمانداری سے ادا کرنا پولیس کی غلطی ہے؛ پولیس کی غلطی یہ ہے کہ اس نے غیر اہم ٹریفک قوانین کو انتہائی اہم شخصیات پر لاگو کرنے کی ہمت کی۔

پاکستانی سڑکوں پر عام گاڑیاں چلانے والے عام لوگ ان غیر اعلانیہ وی آئی پی قافلوں سے اچھی طرح واقف ہیں جو حدِ رفتار سے واضح طور پر تیز چل رہے ہوتے ہیں۔

پک اپ گاڑیوں میں پیچھے بیٹھے ہوئے مسلح گارڈز قریب چلنے والی ہر عام گاڑی کو ہاتھ کا اشارہ کرتے ہیں کہ خاص گاڑیوں کے قریب بھی نہ آیا جائے۔

اسکول وین، ایمبولینس، اور دیہاڑی دار مزدوروں سے بھری ہوئی سوزوکی، ان سب میں وہ اہم لوگ موجود ہوتے ہیں جن کے بغیر یہ ملک نہیں چل سکتا۔

مگر ان سب کو بند سڑک پر کھڑے ہو کر تب تک انتظار کرنا پڑتا ہے جب تک کہ 'صاحب' کا قافلہ گزر نہ جائے۔

لیکن پھر بھی، اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا 'جینٹل مین'، جو ایئرپورٹ جاتے ہوئے ٹریفک چالان سے بچنے کے لیے اپنے پیشے، اپنے گھرانے، اپنے پیسے، ہر چیز کا رعب چلانے کی کوشش کرتا ہے، اس وقت آپے سے باہر ہوجاتا ہے جب وی آئی پی کی وجہ سے فلائٹ تاخیر کا شکار ہوجائے۔

کیوں؟

کیا ہم اس نظام کا حصہ نہیں جہاں ہر شخص وہ چیز ہتھیا سکنے کے لیے آزاد ہے جسے وہ ہتھیا سکنے کی طاقت رکھتا ہے، عوامی مفاد جہنم میں جائے؟

یہ وی آئی پی کلچر اس سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کا نتیجہ ہے جو ہر سطح پر صرف ناہمواری و ناانصافی کو جنم دیتا ہے۔

جب تک تمام سطحوں پر موجود ناانصافیوں اور ناہمواریوں کا حل نہیں نکالا جائے گا، تب تک موٹروے پر ہونے والی زیادتی کی طرح معاشرے میں زیادتیاں جاری رہیں گی۔

انگلش میں پڑھیں۔

فراز طلعت

فراز طلعت پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ سائنس اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ FarazTalat@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔