نقطہ نظر

!قناعت کرنا سیکھو

ہمارا خیال تھا کہ نئی حکومت آتے ہی سارا ملک روشنیوں میں نہا جائے گا اور چاروں طرف دودھ کی ندیاں بہنے لگیں گی

ہمارا خیال تھا کہ نئی حکومت آتے ہی سارا ملک روشنیوں میں نہا جائے گا، چاروں طرف دودھ کی ندیاں بہنے لگیں گی، ہمیں روزانہ بڑھے ہوئے داموں دودھ سبزی اور گوشت بیچنے والے سر جھکائے حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر اپنا مال بیچنے پر مجبور ہوں گے۔ حتّیٰ کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پہ پانی پیئں گے، مختصر بڑے بڑے اسٹوروں سے شاپنگ کرنے والے اور بچت بازاروں کے چکر لگانے والے محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں گے۔

لیکن بیچ میں آگیا بجٹ، ہماری سمجھ میں نہیں آتا یہ بجٹ جب اتنا خوفناک عفریت ہے تو اسے ہر سال عوام کا خون چوسنے کیلئے کیوں پیش کردیا جاتا ہے، زنجیروں میں جکڑ کر کنویں میں کیوں نہیں پھینک دیا جاتا جہاں سے یہ کبھی نکل ہی نا سکے اور عوام ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کرسکیں۔

اس عفریت مطلب بجٹ کا اثر تو دیکھئے، جی ایس ٹی میں اضافہ ایک فیصد ہوا اور مہنگائی میں سو فیصد۔ ذخیرہ اندوزوں، آڑھتیوں اور تھوک فروشوں کے تو وارے نیارے ہوگئے، انہوں نے تو بھنگڑے ڈالتے ہوئے ہر چیز۔۔۔۔ مطلب کوئی چیز نا چھوڑی جس کی قیمت میں اضافہ نہ کردیا ہو۔ اور آخر کار وہی ہوا جو ہمارے ملک میں ہر فلم کا انجام ہوتا ہے یعنی سپریم کورٹ کو اس مسئلہ پر سوموٹو ایکشن لینا پڑا۔

آج سے پانچ سال قبل جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا تھا تو ہم نے بجٹ پر ایک ڈرامہ لکھا تھا بعنوان "شہید بجٹ" جس میں ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر "شیخ صاحب" کے گھر پانی بجلی اور گیس کٹ چکی ہے لیکن شیخ صاحب مہنگائی کے عفریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور ہر مسئلے کا کوئی نا کوئی توڑ نکال لیتے ہیں، ان کا کہنا تھا ہم مہنگائی کے باوجود زندہ رہیں گے اور خوش رہیں گے۔

لگتا ہے ہمیں بھی شیخ صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گھر میں سبزیاں اگا لینی چاہیئں، دودھ کیلئے بکری پال لینی چاہیئے اور چکن کیلئے مرغی کے چوزے پال لینے چاہیئں۔

گھر بیٹھے دودھ سبزی اور گوشت ملتا رہے گا وہ بھی کوڑیوں کے مول۔ بجلی نا ہو تو چھت سے لٹکنے والا کپڑے کا پنکھا اور چراغوں کا استعمال سیکھنا پڑے گا اور گیس بھی نا رہے تو لکڑیاں اور کوئلے جلا کر کھانا پکایا جاسکتا ہے۔

شیخ صاحب وہ آدمی ہیں جو ہماری اور آپ کی طرح کبھی حکومت اور ملک کو گالیاں نہیں دیتے اور اپنے مسلے خود حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں جب دنیا کی سب سے بڑی اکانومی چائنا میں رہنے والے آفس اور تعلیمی اداروں میں آنے جانے کیلئے پیٹرول اور گیس سے چلنے والی گاڑیاں چھوڑ کر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں تو ہمیں کیسی شرم!

بات تو شیخ صاحب کی دل کو لگتی ہے مگر آپ کو کراچی شہر میں سائیکل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ ہمیں گاڑی اور موٹر سائیکل کی ایسی عادت پڑی ہے کہ قوم شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض کا شکار ہورہی ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ دوسری قومیں کام کرتی ہیں اور ہماری قوم عیاشی۔ ہمارے یہاں تو غریب سے غریب آدمی کے ہاں بھی ائیر کنڈیشنر لگا ہوتا ہے جو وہ بجلی چوری کرکے چلا رہا ہوتا ہے، اچھی جاب کرنے والوں کو چھوڑئیے ہمارے یہاں تو اسکولوں اور کالجوں کے طالب علموں کے پاس بھی لیٹسٹ ماڈل کا موبائل فون ہوتا ہے۔

دراصل ہمارے یہاں شیخ صاحب جیسے کرداروں کی کمی ہوگئی ہے جنہوں نے ساری زندگی ایمانداری سے گزاردی اور بجلی کٹ جانے کے باوجود کنڈہ نہیں لگایا۔

پانی نل کے ذریعے نہیں آتا لیکن کبھی پانی کھینچنے والی موٹر نہیں لگاتے کہ غصب کئے ہوئے پانی سے وضو حرام ہوتا ہے۔

نا ساری زندگی رشوت لی نا دی اور تمام عمر مشکلات کا سامنا کرتے رہے لیکن مجال ہے کبھی منہ بسور کر اپنے وطن کو گالی دی ہو۔

وہ کہتے ہیں جب تک ہم مشکلوں کا سامنا کرنا نہیں سیکھیں گے تو اچھے دن کیسے آئیں گے۔ اگر ہم سب شیخ صاحب کی طرح سوچنے لگیں تو پھر کیا چین اور کیا جاپان۔۔۔!


خرم عباس
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔