سندھ کی دلت تحریک پر اعتراضات کیوں؟
"میرا نام میرے والدین نے 'ڈامرو مل' رکھا، جس کا مطلب نفیس اور دلکش ہونے کے بجائے میل، کچیل اور گند ہے۔"
ڈامرو مل گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ کمیونسٹ پارٹی کی ہاری کمیٹی سے جڑے ایسے کارکن ہیں جنہوں نے سوویت یونین کے انہدام کے باوجود طبقاتی سیاست کا قبلہ تبدیل نہیں کیا۔
اپنی پارٹی سے وفاداری کے باوجود جب سندھ کے اندر گزشتہ چند ماہ میں دلت سوال پر ایک غیر رسمی فورم کا قیام کا عمل میں آیا تو ڈامرو مل اس کا بھی ایک سرگرم حصہ بن گئے۔
سنسکرت سے نکلے لفظ دلت کی معنیٰ "ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا، ریزہ ریزہ" کے ہیں۔ نسلی طور پر دراوڑ اور دھرتی کے وارثوں کو ہندو مذہب میں ورن جاتی کی چاروں ذاتوں کے شمار سے باہر یعنی سب سے کم درجے پر رکھا گیا۔
ان کا مقدر صرف اپنے سے اوپر والوں کی خدمت کرنا ہی ٹھہرا، مگر اب سماجی اعتبار سے صدیوں سے اچھوت سمجھے جانے والے یہ دھتکارے ہوئے لوگ سماجی پہچان، سیاسی شناخت اور معاشی برابری کے لیے ایک صبر آمیز جدوجہد کا آغاز کر چکے ہیں۔
اپنی تمام عمر بائیں بازو کی سیاست میں گذارنے والے ڈامرو مل سندھ میں ابھرنے والی اس نئی دلت تحریک سے اپنی وابستگی پر کہتے ہیں کہ، ’’میرے لیے یہ کوئی نئی نہیں بلکہ وہی طبقاتی جنگ ہے، جو صدیوں سے جاری و ساری ہے۔
"جن لوگوں نے بھی ہمیں ذات پات کے اس جہنم سے نکالنے کی کوشش کی ان کو اپرادھی، پاکھنڈی، اچھوت، شودر، نافرمان، اور راون جیسے نام دے کر ذلیل و رسوا کیا جاتا رہا۔ منوسمرتی؛ جنہیں بابا بھیم راؤ امبیدکر نے سرِعام جلایا تھا، اس کتابِ مقدس نے ہمیں انسانیت کے دائرے سے خارج کردیا تھا۔
''آج تک اونچی ذات کے راجاؤں پرجاؤں کے علاوہ کبھی بھی ہماری ذاتوں سے کوئی پیر، بھگوان، اوتار، دیوی یا دیوتا نہیں بنا مگر آج بھی ہم ان کی پوجا کرتے ہیں جنہوں نے ہم زندہ لوگوں کی ہڈیاں تک پیس ڈالیں۔
"یہ اونچ نیچ جاتی (ذات) اور چھوت چھات کا نظام مسلط کر کے اکثریتی ہندو جاتی کو کمتر درجہ دے کر ان کی محنت کا استحصال کرتے رہے ہیں۔‘‘
لفظ دلت کی معنیٰ "ٹوٹا ہوا، بکھرا ہوا، ریزہ ریزہ" کے ہیں۔ یہ لوگ برِصغیر کے اصل رہنے والے ہیں مگر انہیں ہندو مذہب کی چاروں ذاتوں کے شمار سے باہر یعنی سب سے کم درجے پر رکھا گیا ہے۔
ہندو دھرم کی کتاب منو سمرتی کی تشریح تھی کہ کمتر ذات والوں کے نام ایسے ہونے چاہیئں جس سے نفرت اور کراہت کا احساس ہو۔ منو شاستر میں درج ہے کہ اپنے نومولود کے نام ایسے رکھو جن کو پکارنے سے ان کی ذات کی پہچان ہو مثلاً کہ سب سے اونچی ذات برہمن کے نام سے ودیا (علم)، کھتری سے طاقت، ویش سے دولت اور شودر کے ناموں سے خدمت، غلامی اور کراہت کا اظہار ہو۔
پس جن کے نام بھی کراہت زدہ ٹھہرے، ان کی زندگیاں بھلا کراہت زدہ سماجی رویوں سے کیسے آزاد ہو سکتی تھیں؟ لہٰذا اپنے ناموں سے ہی نیچ قرار دیے جانے والے یہ لوگ صدیوں تک اس سماجی ذلت کو کراہت کی طرح اپنے وجود میں برداشت کرنے پر مجبور تھے۔
یہ صرف عمرکوٹ سامارو کے ڈامرو مل ہی نہیں ہیں بلکہ جنوبی سندھ میں محنت کشوں کی بائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے لاتعداد سیاسی و سماجی کارکن اپنی اپنی سیاسی اور سماجی وابستگیوں کو خیرآباد کہے بغیر اس دلت تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔
دلت تحریک کا آغاز چند ماہ قبل میرپور خاص میں منعقدہ ڈاکٹر امبیدکر کی سالگرہ کی تقریب میں ’’دلت سیاست کی ضرورت اور ممکنات‘‘ کے حوالے سے ایک مباحثے کے نتیجے میں غیر رسمی اعلان سے ہوا۔
اپنے آغاز سے ہی یہ تحریک متوقع طور پہ سندھ میں سوشل و پرنٹ میڈیا میں تعریف و تنقید کا ایک متحرک موضوع بنی ہوئی ہے۔
پڑھیے: کچرا صاف کرنے کے لیے صرف ہندو ہی کیوں؟
یہ بھی درست ہے کہ ذات پات کی اونچ نیچ کا تصور صرف ہندو مذہب تک محدود نہیں، دیکھا جائے تو سماجی ڈھانچے میں ذات پات کی اونچ نیچ سندھ میں ہمیشہ سے موجود ہے مگر اس میں بھی دلچسپ عنصر یہ ہے کہ ہندو دھرم کی طرح، جس میں باہر سے حملہ آور آریوں کو ہندوستان کے اصلی باشندوں پر برتری حاصل ہے، سندھی سماج میں بھی دھرتی کے قدیم باشندوں کی ذاتوں کو کمتر ذات میں شمار کیا جاتا ہے، جبکہ باہر سے حملہ آور یا ہجرت کر کے آنے والی ذاتوں کو اعلیٰ سماجی رتبہ حاصل ہے۔
جیسا کہ سید برادری کو سندھ میں بسنے والی چند ذاتوں مثلاً خاصخیلی، ماچھی، سولنگی، ملاح سے برتر سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ سماجی طور پر کمتر سمجھی جانے والی مسلمان ذاتوں کو بھی برابری کا رتبہ نہیں مل سکا ہے، لہٰذا ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والی مسلمان برادریوں میں ذات کی تبدیلی یا پھر خاندانی نام سے پہچان کا ایک اور سلسلہ بھی چلتا ہے۔
مذہبی پہچان سے ہٹ کر بھی گر سماجی طور پر دیکھا جائے تو ذات پات کی اونچ نیچ کا متوازی نظام صرف سندھ تک محدود نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں ملتا ہے جہاں ہندو مذہب کی جڑیں پیوست رہی ہیں۔
ذات پات کی تفریق کے خلاف سماجی تحریکیں
ایسا نہیں کہ تاریخ میں ذات پات کی اونچ نیچ کے خاتمے کی کوئی سیاسی و سماجی تحاریک نہ چلی ہوں اور سماج پر ان تحاریک کا مثبت اثر نہ پڑا ہو، مگر یہ بھی سچ ہے کہ جونہی یہ سیاسی، سماجی و ادبی تحاریک ماند پڑتیں، اونچ نیچ پر مبنی ذات پات کا نظام پہلے سے زیادہ شدت سے ابھر آتا۔
سندھ میں موجود دلت کے سوال کو دیکھا جائے تو ڈاکٹر امبیدکر کی سیاسی فکر و تحریک سے ہٹ کر بھی ذات پات کی اونچ نیچ کا سوال سندھ کی ترقی پسند ادبی تحریک کا حصہ رہا ہے۔
سندھ میں ذات پات کی تفریق صرف ہندوؤں کے درمیان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان بھی پائی جاتی ہے۔
سندھی ادب کا وہ دور جو ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر سماجی حقیقت نگاری سے جڑا ہوا تھا، اس دور میں نہ صرف اس موضوع پر اظہارِ خیال ملتا ہے بلکہ سندھی ادب کے تمام نامور افسانہ نگاروں نے ذات پات کی اونچ نیچ کے خلاف زبردست تحریک بھی چلائی۔
جمال ابڑو کے مشہور افسانے ’شاہ جو پھر‘ سن میں بسنے والے مسلماںوں پہ سید ذات کی برتری پر ایک زبردست چوٹ تھی، جبکہ نسیم احمد کھرل کی کہانی ’کافر‘ اس کمتر ذات کے دلت سیتل اوڈ کی کہانی ہے جو اسلام میں برابری کے تصور سے متاثر ہو کر مسلمان ہوتا ہے کہ سارے مسلمان ذات پات کی اونچ نیچ کے برعکس ایک ہی برتن میں کھانا کھاتے ہیں اور ان میں کسی اچھوت پن کا کوئی تصور نہیں، جبکہ ہندو مذہب میں کوئی برہمن ہے تو کوئی کھتری ہے۔
وہ اسلام میں موجود اس برابری کے تصور سے متاثر ہو کر اپنی بیوی کے ہمراہ اسلام قبول کر لیتا ہے۔ پانچ وقتی نمازی بننے کے علاو وہ اپنی برادری سے کٹ کر، خون کے رشتوں کو چھوڑ کر، جوئے، شراب سے بھی توبہ تائب ہو کر کانوں سے سونے کی بالیاں اتار کر، لمبی داڑھی رکھ کر پکا مسلمان نظر آنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
جب مولوی جمعے کے خطبے میں فضائلِ رسول بیان کرتا تو فرطِ جذبات سے اس کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگ بھیگ جاتی۔ مگر ایک دن مولوی اور اوڈ ذات کے مکھیا کا مکالمہ اس کی آنکھیں کھول دیتا ہے، کہ جس برابری سے وہ متاثر ہو کر اس نے اپنا دھرم چھوڑا، وہاں بھی برادری اور ذات پات کا فرق دین پر بھاری ہے۔
پڑھیے: سنہری ہندو اور ملائی والی چائے
کیونکہ جب مولوی اور مکھیا کے مکالمے کے دوران مکھیا مولوی سے پوچھتا ہے کہ ’’اگر اس (سیتل) کی بیوی مر جائے تو کیا اس کا بیاہ مسلمانوں سے کرواؤ گے‘‘ جس پر مولوی غصے میں اسے مارنے کو دوڑتا ہے کیونکہ سندھی سماج میں لڑکی کی اپنی برادری یا ذات سے باہر شادی کو ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔
مولوی کو برادری کے رسم و رواج میں پھنسا دیکھ کر سیتل اوڈ اپنی داڑھی منڈوا کر اور سونے کی بالیاں پہنے دوبارہ اپنے قبیلے سے جا ملتا ہے۔
نسیم کھرل کی کئی دہائیوں پہلے لکھی گئی کہانی ’کافر‘ کو حیدرآباد میں واقع ہوشو شیدی برج کے نیچے بسنے والی بھیل شیخ کے نام سے مشہور نو مسلم کمیونٹی کی حالتِ زار دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ سال پہلے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ان کی سماجی حیثیت میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی تو نہیں آئی، البتہ اپنی برادری سے کٹ جانے کی صورت میں وہ کمیونٹی سطح پر اور بھی زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہوئے ہیں۔
خورشید قائم خانی، البتہ وہ جپسی لکھاری تھے جنہوں نے مذہبی شناخت کو چھوڑ کر ان تمام کمتر سمجھی جانے والی ذاتوں کے لیے، جنہیں قانونی و آئینی طور پر شیڈول کاسٹ کہا جاتا ہے، پہلی بار دلت کی اصطلاح استعمال کی۔
ایک اندازے کے مطابق زرعی شعبے میں مشقت کرنے والے 70 فیصد افراد کا تعلق دلت برادریوں سے ہے۔
مگر ان کی تحریروں میں ہندو ذاتوں کے علاوہ مسلمانوں کی وہ ذاتیں بھی شامل تھیں جو سماجی اعتبار سے اب بھی دیوار سے لگی ایک طرح سے سماجی تنہائی کا شکار ہیں۔ ان میں شیدی، منگنہار، موچی، ماچھی، میربحر اور دیگر شامل ہیں۔
دلت کمیونٹی کا طبقاتی پس منظر
پاک و ہند میں شیڈول کاسٹ کے نام سے جانے والے دلت کسی بھی سماج میں دوہرے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک طرف کمتر ذات ہونے کی وجہ سے سماجی ناہمواری کو سہنے پر مجبور ہیں تو دوسری جانب محنت کش طبقہ ہونے کی وجہ سے نیم غلامانہ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق زرعی شعبے میں مشقت کرنے والے 70 فیصد افراد کا تعلق دلت برادریوں سے ہے۔ میرپور خاص ڈویژن میں واقع صحرائے تھر کے اضلاع میں آباد ہندوؤں میں 80 فیصد آبادی کا تعلق شیڈول کاسٹ یا دلت کمیونٹی سے ہے جو طبقے کے لحاظ سے محنت کش اور کھیتی باڑی کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ طبقاتی لحاظ سے یہ مارکس کا وہی انقلابی طبقہ ہیں جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔
اس بات پر مارکسی مفکر بھی متفق ہیں کہ جنوبی ہندوستان میں طبقات کی تشکیل بھی ذات برادری کی بنیاد پر ہے، لہٰذا نہ صرف ہندوستان بلکہ سندھ میں بھی دلت سمجھی جانے والی ہندو و مسلم ذاتوں کی اکثریت کا تعلق محنت کش طبقے سے ہی ہے۔
دلت تحریک کے قیام کی وجوہات
رواں سال اپریل کے مہینے میں بابا بھیم راؤ ڈاکٹر امبیدکر کی سالگرہ کے موقع پر جب اس تحریک کا آغاز ہوا تب شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے دلت کمیونٹی کے لوگوں کے علاوہ ان ہندو و مسلم کارکنان نے بھی شرکت کی جو کسی نہ کسی حوالے سے اس ذات پات کے نظام کو رد کرتے رہے ہیں۔
اجلاس کے اختتام پر کسی تنظیمی ڈھانچے یا کمیٹی کا اعلان تو نہیں ہوا تھا، بس کچھ ہندو و مسلم کارکنان نے کئی دنوں کی محنت سے تیار کردہ بارہ صفحوں پر مشتمل ایک منشور کی کچھہ کاپیاں حاظرین میں ضرور بانٹیں۔ یہ منشور دلت تحریک کے باقاعدہ قیام کی جانب ایک سنجیدہ کوشش تھی جو چند لوگوں کی مشترکہ محنت کے نتیجہ میں عمل پذیر ہوئی۔
مزید پڑھیے: ڈاکٹر اور فرشتہ
دلت سیاست کی ضرورت اور امکانات کے بینر تلے اس جلاس میں دلت شرکاء نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ صدیوں سے برتے جانے والے تحقیر زدہ رویوں، ذلت و حقارت کی اذیت ان کی تقریروں سے صاف عیاں تھی۔
بولنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو پہلے ہی نظریاتی طور پر سیاسی و سماجی تحریکوں اور تنظیموں سے وابستہ رہے تھے۔ یہ ایک طرح سے دھتکارے ہوئے شیڈول کاسٹ کی جانب سے عام قومی دھارے کی سیاست سے مایوسی بھی تھی کہ ان کے خیال میں دلت کے سوال کو طبقاتی پس منظر سے جس طرح سیاسی جماعتوں کو دیکھنا چاہیے وہ اس میں ناکام ہوئی ہیں۔
مثلاً جبری مشقت کے حوالے سے لاتعداد بیگار کیمپوں اور وڈیروں کی نجی جیلوں کے حوالے سے آج تک کسی سیاسی جماعت نے سنجیدگی سے کام کرنے کی کوشش کی تھی نہ ہی کسی نے شیڈول کاسٹ کی بالغ اور نابالغ لڑکیوں کے جبری مذہب کی تبدیلی اور جبری زنا کے واقعات پر سنجیدگی سے آواز اٹھائی تھی۔
دیہی علاقوں میں اچھوت پن صرف اَپر کاسٹ یا مسلمانوں کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ خود شیڈول کاسٹ بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھانے پینے اور برتنوں کو ہاتھ لگانے سے کتراتے ہیں.
خود پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے معاون خاص سندر ولاسائی نے ایک بیان میں کہا، ’’تقریباً 1200 دلت لڑکیاں ہر سال جبری طور پر اغوا کر کے مسلمان کی جاتی ہیں‘‘ مگر ان کے لیے نہ کوئی اسمبلی میں آواز اٹھتی ہے اور نہ ہی کوئی اور سیاسی جماعت اس پر شور مچاتی ہے۔
دلتوں کے مسائل کو اس وجہ سے بھی کم اہمیت ملتی ہے کیونکہ اسمبلیوں میں اقلیتی نمائندوں میں اونچی ذات کے ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ نوجوان لڑکوں کے اغوا و قتل، جبری شادیاں، جبری مشقت اور دیگر مظالم سے تنگ آ کر زیریں سندھ کے بھیل، کولہی اور دیگر دلت برادریوں میں اسلام کے علاوہ مسیحی، احمدی، اسماعیلی فرقے اور مذاہب اختیار کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے دلت جدوجہد ناگزیر ہے۔
دلت تحریک پر خدشات اور اعتراضات
سماجی عدم برابری اور معاشی استحصال کی شکار شیڈول کاسٹ کمیونٹی نے جب ’’سیاسی، سماجی اور معاشی برابری‘‘ کی بنیاد پر آگہی کا سلسلہ شروع کیا تب اعتراضات اور خدشات بھی رد عمل کے طور پر سامنے آئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر اعتراضات اسی شیڈول کاسٹ برادری کی جانب سے آئے۔
سب سے پہلا اعتراض ’’دلت‘‘ اصطلاح کے استعمال پر تھا۔ تنقید کا لبِ لباب یہ تھا کہ دلت لفظ ایک طرح سے اس ذلت کا احساس دلاتا ہے جو صدیوں سے کمتر سمجھی جانے والی شیڈول کاسٹ برادری اچھوت پن کے سماجی رویے کی صورت میں برداشت کرنے پر مجبور تھی، اور یہ سماجی رویہ چونکہ معاشی عدم برابری کا نتیجہ ہے لہٰذا تعلیم کے فروغ سے اس معاشی عدم برابری کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
یہ تنقید زیادہ تر شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے اس گروہ کی جانب سے ہوئی جو اب پڑھ لکھ کر ایک حد تک معاشی طور پر مستحکم ہو چکا ہے مگر وہ اب بھی اونچی ذات کے ہندوؤں سے سماجی طور پر برابری کا دعوٰی نہیں کر سکتے۔
اب بھی ان کی عبادت گاہیں ایک دوسرے سے جدا ہیں اور ان میں دلتوں کا جانا ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ نہ صرف دیہی علاقوں میں بلکہ شہروں میں مندروں کے ساتھ مسان و سمادھی یا قبرستان بھی الگ ہیں جن میں کسی شیڈول کاسٹ کی تدفین ممکن نہیں ہوپاتی۔
دیہی علاقوں میں اچھوت پن صرف اَپر کاسٹ یا مسلمانوں کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ خود شیڈول کاسٹ بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھانے پینے اور برتنوں کو ہاتھ لگانے سے کتراتے ہیں کہ ان کے اندر بھی کولہی، بھیل، میگھواڑ، کبوترے اور گرگلے ایک دوسرے کے لیے نیچ اور اچھوت تصور کیے جاتے ہیں۔ کئی شہروں میں اب بھی شیڈول کاسٹ کے لیے ہوٹلوں اور دکانوں پر چائے کے کپ اور پانی کا گلاس علیحدہ رکھے جاتے ہیں۔
تمام ذاتیں جو ہندو مت کے چار ذاتوں والے ورن نظام سے نکالی گئی ہیں، وہ ہندوانہ سماج میں اچھوت مانی جاتی تھیں۔ تقسیم سے پہلے ہندوستان میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکر نے ہندو دھرم کی طرف سے ذاتوں کو دی گئی مذہبی اور نسلی پہچان کو رد کرتے ہوئے اور ان کو سماجی و سیاسی دائرے کا حصہ بنانے کے لیے ’دلت‘ کو سیاسی و سماجی شناخت کے طور پر اپنایا۔
دلت لفظ کا اپناؤ اور اسے سیاسی طور پر استعمال کرنا دراصل اس ذلت کے خلاف ایک احتجاج کا نام تھا جو یہ محکوم برادریاں صدیوں سے سہتی رہی تھیں۔
گو کہ ڈاکٹر امبیدکر اپنی تمام تر سیاسی جدوجہد میں دلت لفظ کو ہندوستانی آئین کا حصہ تو نہ بنا پائے البتہ گاندھی جی کی مداخلت سے پونا ایکٹ کے مطابق برٹش حکومت نے ان کے علیحدہ انتخابی مطالبے کے بجائے 24 ذاتوں کو ’شیڈول کاسٹ‘ کی علیحدہ کیٹیگری میں رکھ کر ان کو کچھ خصوصی مراعات ضرور دیں جس میں ان کے لیے منتخب ایوانوں میں مخصوص نشستوں کے علاوہ سرکاری ملازمتوں وغیرہ میں مخصوص حصہ بھی شامل تھا۔
برٹش حکومت نے دلتوں کے علیحدہ انتخابات کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے بجائے 24 ذاتوں کو ’شیڈول کاسٹ‘ کی علیحدہ کیٹیگری میں رکھ کر ان کو منتخب ایوانوں میں مخصوص نشستوں کے علاوہ سرکاری ملازمتوں وغیرہ میں کوٹہ دیا۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے آئین میں بھی ان 24 ذاتوں کے لیے شیڈول کاسٹ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ڈاکٹر امبیدکر کے برعکس گاندھی جی ان برادریوں کے لیے ’ہریجن‘ کی اصطلاح لائے تھے جس کی معنی ’بھگوان کے بچے‘ ہیں۔
علاوہ ازیں پنجاب، آندھرا پردیش اور تامل ناڈو میں ’آدی دراون‘، ’آدیواسی‘، ’آدی دھرمی‘ اور ’آدی اندھرا‘ بھی استعمال کیے گئے ہیں مگر ڈاکٹر امبیدکر کی وجہ سے ’دلت‘ کو عالمی شہرت ہندوستان میں ہی حاصل نہیں ہوئی بلکہ جنوبی ایشیا میں نیپال، سری لنکا، پاکستان، بنگلادیش میں بھی دلت اصطلاح کو سیاسی و سماجی تحریکوں نے یکساں طور پر اپنایا، یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں بھی ان برادریوں کو دلت کے نام سے شناخت دی گئی۔
سندھ میں بھی ان برادریوں کی شناخت کے لیے پہلے سے ہی مقبول اصطلاح مستعار لی گئی۔ اول، تو کسی نئے نام سے یا کسی مخصوص ذات کے حوالے سے جدوجہد یوں بھی ممکن نہ تھی کہ شیڈول کاسٹ ایک آئینی کیٹیگری تو ضرور تھی مگر یہ کوئی سیاسی یا سماجی شناخت نہ تھی۔
دوئم، شیڈول کاسٹ کے ساتھہ یہ بھی مجبوری تھی کہ ابھی ان میں شامل جماعتوں کے اندر بھی سماجی برابری عملاً موجود نہ تھی لہٰذا کوئی اور نسلی شناخت آگے چل کر اسی برتری کے احساس میں نہ مبتلا ہو جائے، اس لیے ڈاکٹر امبیدکر کی ہی اختیار کردہ شناخت کو سندھ کی تحریک کے لیے زیادہ موزوں اور مؤثر سمجھا گیا۔
دلت تحریک کے مخالفین کی جانب سے اس تحریک کو فنڈز بٹورنے کی بڑی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے ہٹ کر کہ موجودہ تحریک میں شامل چند ناموں کو دیکھ کر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ دلت تحریک کے اس اچانک ابھار کے پیچھے ضرور کوئی بڑا ڈونر ایجنڈا ہے۔
مگر دیکھا جائے تو ماسوائے تحریک سے وابستہ مرکزی رہنما ڈاکٹر سونو کھنگارانی کی این جی اوز سے وابستگی کے، باقی تمام لوگ مختلف پس منظر رکھنے والے ہیں۔ دلت تحریک سے وابستہ لوگ اس تنقید کو حقیقی ماننے کے بجائے اسے شخصی تنقید کا ہی حصہ سمجھتے ہیں ورنہ ان کا کہنا ہے کہ "اس سے پہلے این جی او اور ڈونر والا اعتراض اس شدت سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف تھر کے اندر بلکہ پورے سندھ میں جبری مشقت سے لے کر اقلیتوں، عورتوں، کسانوں، مزدوروں کی تحریکوں میں ڈونر اور اس کا ایجنڈا بہت واضح شکل میں نظر آتا ہے، مگر ان پر یہ تنقید صرف دائیں بازو کے سیاسی گروہوں کی جانب سے آتی ہے، جبکہ دلت تحریک پر ڈونر والا تنقیدی نکتہ اٹھانے والوں کی اکثریت خود این جی اوز میں ملازمتیں کرتی نظر آتی ہے۔"
نفرت کی تحریک؟
اونچی ذات کے ہندوؤں اور قوم پرستوں کی جانب سے بھی دلت تحریک کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ دلت تحریک کو سندھ اور ہندوؤں کے خلاف بڑی گہری سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ ان ناقدین کا کہنا ہے کہ دلت سوال سیاسی طور پر سندھ میں مستحکم ہندو اقلیت کو تقسیم کرے گا۔
جبکہ جوابی طور پر یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ پاکستان میں بنگلہ دیش کے بننے کے بعد شیڈول کاسٹ آبادی کے اعتبار سے رائے شماری میں محض اعشاریہ پچیس فیصد ہے جو کہ ان کی پچھلی تعداد سے کہیں کم ہے۔
لہٰذا منتخب ایوانوں میں آبادی کے لحاظ سے ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔ موجودہ اسمبلی میں بیس اقلیتی نمائندوں میں صرف تین کا تعلق دلت یا شیڈول کاسٹ سے ہے۔ آبادی کے اعتبار سے چونکہ دلت زیادہ ہیں اس لیے اسمبلیوں میں مناسب نمائندگی نہ دینا ایک طرح سے انہیں آئینی حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔
میرپور خاص ڈویژن میں واقع صحرائے تھر کے اضلاع میں آباد ہندوؤں میں 80 فیصد آبادی کا تعلق شیڈول کاسٹ یا دلت کمیونٹی سے ہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اقلیتوں کے نام پر ملنے والی تمام مراعات اونچی ذات کو ملتی ہیں اور شیڈول کاسٹ تک نہیں پہنچ پاتیں۔ تیسرا، پاکستان کے آئین کے مطابق سرکاری ملازمت میں چھ فیصد شیڈول کاسٹ کوٹہ مقرر ہے مگر آگاہی اور معلومات کی کمی کی وجہ سے رائے شماری میں ہندو مذہب میں اندراج کرنے سے وہ اس کوٹا سے محروم رہ جاتے ہیں۔
شیڈول کاسٹ کے ملازمتوں اور تعلیم میں کوٹے کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ 1998 میں نواز شریف کی حکومت میں قومی اسمبلی میں پنجاب سے اقلیتوں کے منتخب نمائندے شہباز بھٹی کی طرف سے ایک تحریک پر وفاقی حکومت نے شیڈول کاسٹ کوٹہ کو اقلیتی کوٹہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا جس کی حمایت سندھ سے رانا چندر سنگھ اور کشن چند پارواںی نے بھی کی تھی۔
اس بل کے مطابق شیڈول کاسٹ کوٹہ چھہ فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کر دیا گیا تھا۔ بعد میں چمن لال اوڈ کی سپریم کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن پر رانا بھگوان داس کی سربراہی میں عدالت نے شیڈول کاسٹ کوٹہ کے حق میں فیصلہ دیا، مگر اس کے بعد ابھی تک شیڈول کاسٹ کوٹہ کی بحالی کے لیے احکامات جاری نہیں ہوئے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل، جو کہ خود بھی دلت تھے، نے اس وقت کی قومی اسمبلی میں چار مخصوص نشستوں کے علاوہ یہ مطالبہ بھی اس دور میں وزیراعظم سہروردی کے سامنے رکھا کہ چونکہ پاکستاں میں شیڈول کاسٹ پندرہ فیصد ہے لہٰذا ان کی الگ عدالتوں کا قیام بھی ممکن بنایا جائے۔
یاد رہے کہ یہ پاکستان کے پہلے وزیرِ قانون جوگندر ناتھ منڈل کا مطالبہ تھا جس پر 1957 میں شیڈول کاسٹ ایکٹ میں 24 قبائل کو شیڈول کاسٹ کا درجہ دینے کے علاوہ سرکاری ملازمتوں میں عمر کی مد میں تین سال کی رعایت بھی دی گئی تھی اور سرکاری ملازمتوں میں شیڈول کاسٹ کوٹہ چھ فیصد مقرر کیا گیا تھا۔
پڑھیے: جوگندر ناتھ منڈل: اچھوت اچھوت ہی رہا
موجودہ دلت تحریک کا مقصد مردم شماری میں شیڈول کاسٹ کا درست اندراج اور پھر آبادی کے اعتبار سے آئینی حقوق کے تحت ملنے والی مراعات یعنی منتخب ایوانوں، سرکاری ملازمتوں، تعلیمی اداروں و دیگر سرکاری محکموں میں شیڈول کاسٹ کوٹہ کے علاوہ سماجی، سیاسی و معاشی برابری کی جدوجہد ہے۔
دلت جدوجہد کو کسی بھی حساب سے نفرت پھلانے والی تحریک کہنا زیادتی ہوگی البتہ اپر کاسٹ ہندوؤں کے یہ خدشات بجا ہیں کہ اگر دلت یا شیڈول کاسٹ کو آبادی کے لحاظ سے ایوانوں میں کوٹہ دیا گیا تو ان کی نمائندگی کا تناسب بڑھ جائے گا۔ پر اس میں ڈرنے کی بات کیا ہے، اگر کوئی تعداد میں زیادہ ہے تو اس کی نمائندگی بھی زیادہ ہونی چاہیے۔
دلت تحریک کی سیاسی مخالفت
دلت تحریک بظاہر تو کسی بھی سیاسی تحریک کے لیے چیلنج نہیں ہے مگر قوم پرست سیاسی جماعتوں کی طرف سے کھل کر ہونے والی تنقید سے یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ آگے چل کر اگر یہ سیاسی تحریک کی شکل لیتی ہے تو قوم پرست تنظیمیں اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوں گی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سندھ میں دیہی اور شہری کوٹہ کی شدید حامی رہنے والی قوم پرست تنظیمیں دلتوں کی جانب سے شیڈول کوٹہ اور دیگر مراعات کے لیے آئینی اصلاحات کے مطالبے کو سندھ کی تقسیم کے مترادف سمجھ کر نہ صرف اس کی مخالفت کر رہی ہیں بلکہ سندھ سے غداری قرار دینے سے بھی گریز نہیں کر رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ سماجی پسماندگی اور کم علمیت نے قوم پرست سیاست کا دائرہ بہت محدود کردیا ہے۔ جدید عالمی سیاسی مکالمے میں کوئی دلچسپی نہ ہونے اور عالمی سطح پر ہونے والی معروضی تبدیلیوں پر سیاسی تجزیوں کی عدم موجودگی نے کسی حد تک قوم پرست سیاست کو داخلی و خارجی خوف کا شکار بنا دیا ہے۔
دوسری جانب قومپرست سیاست محنت کش طبقے کو اپنی طرف راغب کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوئی ہے لہٰذا پچھلے بیس برسوں میں قوم پرست سیاست اپنی غیر فعالیت کی وجہ سے کسی بھی ایسی امکانی تحریک کو قبول کرنے میں گھبراہٹ کا شکار ہے جو حقیقت میں لوگوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی برابری کی بات کر کے اسے اپنی طرف رجوع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
دلت تحریک ہندو دھرم کی مخالف؟
جنوبی ایشیا میں مذہب وہ آخری حربہ ثابت ہوا ہے جس کے ذریعے مذہبی گروہ کو اشتعال میں لا کر ان سے سیاسی مفاد حاصل کیے جا سکیں۔ تمام انتہا پسندوں کی طرح دلت سوال کی مخالفت میں بھی مذہب کا استعمال کیا گیا، مذہب کے نام پر لوگوں کو جذباتی طور پر مشتعل کیا گیا کہ یہ تحریک ہندو دھرم کے خلاف ہے۔
یہ عامیانہ تنقید تھی کہ ذات پات کا فرق سندھ کے اندر مسلمانوں کے اندر بھی موجود ہے لہٰذا ان کو براہِ راست مخاطب کرنے کے بجائے صرف ہندو شیڈیول کاسٹ کی بات کی جا رہی ہے اور اس میں ہندو دھرم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس تنقید کا جواب کچھ اس طرح ہے کہ بے شک کمتر ذاتوں کا تصور صرف ہندو دھرم تک محدود نہیں ہے مگر چونکہ آئینی طور پر شیڈول کاسٹ میں شامل 24 ذاتوں میں مسلمان ذاتوں کا ذکر نہیں ہے، اس لیے فی الوقت یہ ان شیڈول کاسٹ کے آئینی حقوق کی بات کر رہی ہے جو کہ پہلے سے آئین کا حصہ ہیں۔
اس تحریک کا مقصد صرف مخصوص ذاتوں کے سماجی و معاشی استحصال کو ختم کرنا ہی نہیں بلکہ ان تمام عناصر کے خلاف پسے ہوئے طبقات کے لیے قائم عالمی اور مقامی تحریکوں کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا ہے جو کہ معاشرے میں عدم برابری اور کمزور طبقات پر اپنی اجارہ داری چلاتے ہیں، اور پہلے مرحلے کے طور پر تحریک مردم شماری میں دلتوں کے درست اور حقیقی اندراج پر زور دے رہی ہے۔
امرسندھو ایک لکھاری، سماجی کارکن اور کالم نگار ہیں۔ ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔