لائف اسٹائل

خواتین کی شرٹس میں بٹن بائیں جانب کیوں ہوتے ہیں؟

خواتین کی شرٹس میں بٹن بائیں جانب جبکہ مردوں کی قیمض میں دائیں جانب لگائے جاتے ہیں، اس کی وجہ انتہائی دلچسپ ہے۔

مردوں اور خواتین کے ملبوسات میں فرق ہوتا ہے، اب لباس چاہے ریشم کا ہو، کاٹن، لینن یا کسی اور میٹریل کا، اسٹائل بدلتے رہتے ہیں مگر ایک دلچسپ روایت صدیوں سے برقرار چلی آرہی ہے۔

ویسے پاکستان میں تو خواتین شرٹس کا استعمال بہت کم کرتی ہیں تاہم کبھی ایسا ہو تو آپ اس کا موازنہ مردانہ شرٹ سے کریں، آپ ایک فرق ضرور محسوس کریں گے۔

جی ہاں خواتین کی شرٹس میں بٹن بائیں جانب جبکہ مردوں کی قیمض میں دائیں جانب لگائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں : کوٹ کا نچلا بٹن نہ لگانے کی دلچسپ وجہ جانتے ہیں؟

اس کی وجہ تاریخ میں چھپی ہے اور ایک کمپنی ایلزبتھ اینڈ کلارک کی بانی میلانی ایم مورے کے مطابق "جب 13 ویں صدی میں بٹنوں کی ایجاد ہوئی تو یہ اس زمانے کی نئی اور بہت مہنگی ٹیکنالوجی تھی"۔

ان کا مزید کہنا تھا، "'اس زمانے میں امیر خواتین اپنے ملبوسات خود نہیں پہنتی تھیں بلکہ یہ کام ان کی ملازمائیں کرتی تھیں، تو سیدھے ہاتھ سے کام کرنے والی ملازماﺅں کے لیے سامنے کھڑے ہو کر بائیں جانب بٹن لگانا آسان تھا"۔

تو اس طرح یہ روایت قائم ہوئی اور آج بھی خواتین کی شرٹس میں بٹن بائیں جانب ہی لگائے جاتے ہیں۔

مگر اس حوالے سے کچھ اور خیالات بھی موجود ہیں جیسے ایک نظریہ یہ ہے کہ اکثر خواتین بچوں کو جب گود میں لیتی تھیں تو وہ ان کے بائیں جانب ہوتا تھا اور اگر انہیں بچے کو دودھ پلانا پڑتا تو دائیں ہاتھ سے بٹن کھولتی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ بٹن بائیں جانب لگنا شروع ہوگئے۔

ایک اور نظریہ یہ ہے کہ ماضی میں جب امیر خواتین گھڑسواری کرتیں تو وہ عام طور پر گھوڑے کے بائیں جانب سے سوار ہوتیں تو بٹن بائیں جانب رکھنا انہیں بیٹھنے میں مدد دیتا اور قمیض میں ہوا جانے کی رفتار کم ہوجاتی۔

اسی طرح ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ 1880 کی دہائی میں بیشتر ممالک میں خواتین پر مردوں کی طرح کا لباس پہننے پر پابندی تھی مگر جب خواتین نے مردوں جیسے ملبوسات کو پہننا شروع کیا تو انہیں تیار کرنے والوں نے خواتین کے ملبوسات میں بٹن بائیں جانب لگانا شروع کردیئے تاکہ مردوں اور خواتین کے ملبوسات میں فرق کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں : جینز کی پتلون پر چھوٹے بٹن کیوں ہوتے ہیں؟

ایک دلچسپ خیال اور بھی موجود ہے جس کے مطابق فرانس کے حکمران نیپولین کی ایک عادت تھی کہ وہ اپنا ہاتھ قمیض کے درمیان پھنسا کر تصاویر بنواتا تھا، خواتین نے مذاق اڑانے کے لیے نپولین کے اس معروف پوز کی نقل شروع کردی، جب فرانسیسی شہنشاہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے حکم جاری کیا کہ خواتین کی قمیضوں میں بٹن مخالف یعنی بائیں جانب ٹانکے جائیں تاکہ اس کا مذاق نہ اڑ سکے۔

جہاں تک مردوں کی شرٹس کی بات ہے تو اس پر دائیں جانب بٹن لگانے کے حوالے سے بھی مختلف خیالات موجود ہیں۔

تاہم ہاورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی کول چیپن کے مطابق زمانہ قدیم میں مردوں کے بیشتر فیشن فوج سے نکل کر سامنے آتے تھے۔

یہاں بھی سیدھے ہاتھ کا اصول ہی نظر آتا ہے یعنی جو افراد رائٹ ہینڈڈ ہوتے ہیں ان کے لیے ہتھیاروں کی آسان رسائی کے لیے بٹن دائیں جانب لگائے جاتے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

مختصر الفاظ میں ایسی متعدد وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں اور خواتین کی قمیضوں میں بٹن دائیں یا بائیں کیوں ہوتے ہیں اور اب یہ روایت سی بن گئی ہے جو ختم نہیں ہوسکی۔