نقطہ نظر

اقبال اور ایدھی کا سانجھا مسئلہ

کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ایدھی کے نام پر سڑکیں اور عمارتیں بنانے کے بجائے ان کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے؟

نہرِ فرات کا پانی عراق میں بہت مشہور تھا۔ گرمی اور پیاس کے مارے قافلوں کو زندگی فراہم کرنے والی اس نہر کا فیض سب کے لیے تھا۔

مگر جس کو اس نہر کا پانی نصیب نہ ہوا، وہ ایک حسین۔

ایک حسین کیا پیاسا رہ گیا، اب دریا لاکھ کناروں سے سر پٹخے، اس کی آشفتہ سری نہیں جاتی۔ اس کی بے چینی نہیں جاتی کہ یہ سب کو سیراب کر گیا، مگر حسین کو گلے سے نہ لگا سکا۔

نوبیل انعام آج دنیا کا سب سے بڑا انعام ہے۔ جس کو مل جائے، اس کا سربلند ہونا لازمی ہو جاتا ہے، لیکن نوبیل انعام کی بد قسمتی رہے گی کہ اسے ایدھی صاحب نہ مل سکے۔

اب کچھ بھی ہو، یہ انعام چاہے کسی کے بھی گلے کی زینت بنے، کچھ کھوٹ سا رہ جائے گا، جیسے سونے میں ایک تار تانبے کی مل جائے۔ کچھ چیزیں اپنی نسبت سے پہچانی جاتی ہیں۔ ایدھی صاحب کو تو نوبیل کی ضرورت نہ تھی، لیکن اگر نوبیل کے نصیب میں ایدھی صاحب لکھ دیے جاتے، تو اس انعام کی قدر و منزلت میں ہی اضافہ ہوتا، اور ہم جیسوں کا بھی مان رہ جاتا۔

یہ انعام بھی کیا ظالم چیز ہے۔ ہم لوگوں کی ٹوٹم پرستی نہ گئی۔ طلسمِ سامری تو ختم ہو گیا لیکن سنہری مجسمے آج بھی ہمارے نظریے کامیابی سے نگل رہے ہیں۔

بچپن سے ایدھی صاحب کو دیکھتے آئے ہیں۔ ایدھی صاحب اپنی لمبی داڑھی کی وجہ سے مذہبی سے لگتے تھے۔ ان دنوں داڑھی والوں کو مولوی کہا جاتا تھا، آج بھی کہا جاتا ہے۔ ہم بھی ایدھی صاحب اور مسجد کے امام صاحب، دونوں کو مولوی کہتے اور سمجھتے تھے، مگر ایک دن محلے کے مولوی صاحب سے ایدھی صاحب کے بارے میں کچھ جملے سنے، ان کے ایمان کے بارے میں، ان کی صفائی کے بارے میں، اور جنت میں جانے نہ جانے کے بارے میں۔

حیرانی سی ہوئی کہ کیسے لمبی داڑھی والوں میں بھی اتنا فرق؟ بہت دیر بعد سمجھ آیا کہ دین کی دو تعریفیں ہیں۔

ایک تعریف اشرافیہ کی تعریف ہے۔ اس میں اگر بتی اور عود الحرم ہے، عبا اور قبا ہے، خضاب اور حنا ہے، جمعے کا غسل اور پاک و نجس کے احکام ہیں۔

دین کی دوسری تعریف انبیا کی ہے۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کا چٹائی کا بستر ہے، فاطمہ کے ہاتھ پر نشان ڈالتی چکی ہے، اصحابِ صفہ کی بے سر و سامانی ہے، ابوذر کے جسم پر لگی دھول اور پسینے کی تہہ ہے۔ یہ ہاتھ بڑھانے اور درد بانٹنے والی تعریف ہے، راہ چلتے کتے کے لیے اپنی پگڑی سے پانی لانے اور اس پر جنت کی بشارت والی دنیا ہے۔

پھر سمجھ آیا کہ ایدھی صاحب مذہبی آدمی تو تھے، مگر اشرافیت کی تعریف پر نہیں، بلکہ انبیا کی تعریف پر تھے۔ وہ اس نبی ﷺ کے سچے پیروکار تھے جس نے مزدور کو اس کا حق اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا، جو خود پر کچرا پھینکنے والی غیر مسلم عورت کے گھر کھانا لے کر گیا، اور جس نے اپنے سے لڑنے آئے پرانے دشمنوں کے کراہنے کی آوازیں سن کر ان کی رسیاں کھلوا دیں۔

جب معاشرے ان چاہے بچوں کو کچرے کے ڈھیر میں پھینکتا رہا، تو ایدھی صاحب اپنے جھولوں میں پڑے لاوارث بچوں کی ولدیت کو نکاح کے صیغوں سمجھنے سے انکار کرتے رہے۔ لاوارث پڑی لاش سے کبھی نہ پوچھتے کہ اسے دفن کرنا ہے یا چتا جلانی ہے اور اگر دفن کرنا ہے تو صلیب بنانی ہے یا قرآنی آیات والی تختی۔

عیسیٰ نگری سے آئی کسی کیتھرین کو کلمہ پڑھنے پر مجبور نہ کیا، نہ کبھی ہندوستان جاتی گیتا کو مجبور کیا کہ وہ گائتری منتر نہ سیکھے۔ ہر بدبودار لاش کو یوں گلے لگایا جیسے اپنا عزیز ہو اور ہر یتیم کی شادی پر یوں آئے جیسے اپنے جگر کا ٹکڑا بچھڑ رہا ہو۔

یہ کیسا سینہ تھا جو پرائے درد یوں سنبھال لیتا جیسے اپنے خون کی گردش ہو؟ کیسا دامن تھا کہ جس کہ وسعت میں صدیوں کے غم سمو جائیں؟

ایدھی صاحب اپنے ادارے میں موجود سینکڑوں مجبوروں کے لیے وارث تو چھوڑ گئے، لیکن ساتھ ساتھ یتیم بھی کر گئے۔ وہ یتیمی جو خون کے رشتے سے نہیں بلکہ روٹی کے نوالے سے بنتی ہے۔

ایدھی کے اندر ایک انقلابی چھپا تھا۔ وہ اناج اگانے والوں اور اناج کھانے والوں کے دستر خوانوں کے فرق کو نہ ہی کارپوریٹ دنیا کی طرح محنت اور ذہانت کی کمی کا نتیجہ قرار دیتے، اور نہ ہی مذہبی طبقے کی طرح ہر ناانصافی کو مشیتِ الہٰی کہہ کر خاموش ہوجاتے۔

ایدھی صاحب کے اندر وہ انقلابی تھا جو دولت کی تقسیم اور رشتوں کی تذلیل اور اقدار کی تبدیلی پر جلتا تھا، اور نہ صرف جلتا تھا، بلکہ وہ اس خلش کو اس آگ میں تبدیل کر دینا چاہتا تھا، جو ہر ناانصافی و ناہمواری کو جلا کر راکھ کر دے۔

جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

اقبال بھی لینن سے کچھ ایسا ہی شکوہ کرواتے تھے۔

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں،

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔

لیکن اقبال اور اب شاید ایدھی صاحب دونوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے چاہنے والوں کو ان کے نظریے سے کوئی غرض نہیں۔ ایک اچھا ایوارڈ، ایک دو پرانی عمارتوں پر ان کا نام اور سال میں ایک یادگاری دن، جسے عام تعطیل قرار دے کر تفریح کا وقت پیدا کیا جائے، معاشرے کی چپ قائم رکھنے کا سستا اور ضمیرشکن انتظام ہے۔

اس سے زیادہ ہم کچھ کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اس میں محنت لگتی ہے اور تعصبات و نظریات کے بت ٹوٹتے ہیں۔ ہم اس کے لیے تیار نہ تھے نہ ہیں۔

اس کے بجائے ہماری ہر بحث کی تان آخر نوبیل پرائز پر ہی ٹوٹتی ہے۔ ہر سال ہم منت کرتے ہیں کہ ایدھی کے ایثار اور قربانی پر مغرب کی قبولیت کی ایک مہر لگ جائے تاکہ ہم بھی اپنی گہری جیبوں سے کچھ سکے کھنکھنائیں، کہ اس وقت منڈی میں سب سے اچھے دام ولایتی میڈل کے ہیں۔

مگر ایدھی کے ایثار و قربانی میں اپنا حصہ ڈال کر اس کام کو آگے بڑھانے کی بات ہم سے نہ کی جائے، اور اگر کریں بھی تو صرف فلاحی کاموں کی حد تک۔ ان کے افکار کی تاب لانا کس کے بس کی بات ہے؟

شاید اپنے ضمیر کی تنگ آماجگاہوں میں ہم جانتے ہیں کہ ایدھی کے پیغام میں وہی خطرہ چھپا ہے جو اقبال کے پیغام میں تھا۔ ملوکیت اور اشرافیت کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ یہ اگر ایک شخص سے ہار بھی جائے تو اس کے پیغام کو فلسفے اور رسوم و رواج کی اتنی تہوں میں دبا دیتی ہے کہ ایک کھوکھا باقی رہ جاتا ہے۔

مجسمے بنانے کا فائدہ یہ ہے کہ شخصیت مٹ جاتی ہے۔ لفظوں کے انبار میں نظریہ دب جاتا ہے۔ ویسے بھی نظریے سمجھنا اور ان پر عمل کرنا مشکل کام ہے۔ اس میں تکلیف بڑی ہوتی ہے۔

ایدھی صاحب خوش نصیب ہوں گے اگر ان کے نظریے کو کسی نے سمجھا۔ اگر کسی نے ان کے وجدان کو ایمبولینسوں کی تعداد، ہسپتالوں اور قربانی کی کھالوں کی شماریات سے آگے جانا۔

اگر ان کی جلن سے ایک اور شمع جل گئی تو غنیمت ہے، ورنہ ہماری قسمت میں وہی اندھیری رات رہے گی جو ایک زمانے سے ہمارا مقدر ہے۔

اختر عباس

اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔