کیا سیونگس اکاؤنٹ آپ کے لیے مفید ہیں؟
سیونگس اکاؤنٹ بینک اکاؤنٹس کی ایک سب سے عام اور مشہور قسم ہے۔ 1 کروڑ 70 لاکھ سے زائد پاکستانی سیونگ اکاؤنٹس رکھتے ہیں۔ مگر سیونگس اکاؤنٹس کو ملک میں دستیاب دیگر اقسام کے اکاؤںٹس کی نسبت ایک غیر مفید اکاؤنٹ کہا جا سکتا ہے۔
آپ خود سوچیئے کہ سیونگس اکاؤنٹ ہے کیا: یہ ایک طرح کا ذریعہ ہے جس کا استعمال ایک شخص اپنی مختصر اور درمیانی مدت کی بچت کو جمع کرنے کے لیے اس امید کے ساتھ استعمال کرتا ہے کہ اس کے بدلے میں ایک صحتمند شرح کے ساتھ منافع بھی ہوگا۔
مگر جب فی سال کے حساب سے مہنگائی کی شرح 8 اعشاریہ 5 فی صد تک ہوتی بے اس وقت سیونگ اکاؤنٹس سے 6 فی صد سے بھی کم نفعے کی شرح حاصل ہو پاتی ہے۔ آخر کیوں کوئی شخص اپنا پیسہ ایک ایسے اکاؤنٹ میں جمع کروائے گا جو آپ کے لیے مہنگائی کے موافق حالات میں غیر منافع بخش ہو؟
میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ بینک کیوں سیونگس اکاؤنٹس پیش کرتے ہیں: یہ ان کے لیے پیسہ بنانے کا ایک سب سے سستا طریقہ ہے، جسے وہ بڑی شرح سود پر قرضے کی صورت میں دوسروں (زیادہ تر حکومت) کو دیتے ہیں۔ سیونگس اکاؤنٹ میں رقم جمع کروانے والے سے 6 فی صد کی شرح کے ساتھ پیسہ لینے کے بعد حکومت کو وہ رقم قرضے کے طور پر دینا، پیسہ بنانے کا کافی آسان طریقہ ہے۔
مگر لاکھوں لوگ جو ہر روز بینک جا کر اپنے سیونگ اکاؤنٹس میں پیسے جمع کرتے ہیں انہیں اب اس سے بھی بہتر آپشنز کے بارے میں سمجھنا چاہیے جو اب آسانی سے دستیاب بھی ہیں۔ ہاں، 1990 کی دہائی کے آخر سے پہلے اپنا سیونگ اکاؤنٹس رکھنا ایک قابل فہم بات تھی لیکن تب ملک میں کوئی مینجمنٹ کمیپنیاں اور فکسڈ انکم اور منی مارکیٹ فنڈز کا وجود ہی نہیں تھا۔
مگر آج وہ موجود ہیں اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ پیسے بچانے کی ضروریات کے حوالے سے دیگر آپشنز پر بھی غور و فکر کریں۔
چلیئے پھر سے بات کرتے ہیں سیونگس اکاؤنٹ کی کہ بنیادی طور پر ان کا استعمال کیوں کرنا چاہیے: سیونگس اکاؤنٹ میں آپ رقم جمع کرتے ہیں جس کی ضرورت آپ کو اگلے مہینے نہیں پڑے گی بلکہ اگلے دو یا تین سالوں میں پڑ سکتی ہے۔ اگر آپ کو مالی ضروریات سے پہلے پیسے نکوالنے کی ضرورت پڑتی ہے تو آپ کو ایک کرنٹ اکاؤنٹ کا انتخاب کرنا چاہیے۔
سرمایہ کاری کے موضوع مزید دلچسپ مضامین
- اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کیوں کرنی چاہیے؟
- میوچوئل فنڈز: منافع بخش سرمایہ کاری کا آسان طریقہ
- مڈل کلاس آمدنی سے پرسکون ریٹائرمنٹ کیسے ممکن؟
اگر آپ کو ایک عرصے کے بعد کچھ پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر آپ کو ایک فکسڈ انکم فنڈ کا انتخاب کرنا چاہیے، جس کے تحت ان پیسوں سے درمیانے اور طویل مدت والے بانڈز میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اگر آپ 10 سالوں سے بھی زائد عرصے تک پیسوں کی بچت کرنا چاہتے ہیں تو اسٹاک مارکیٹ اس سے بھی اچھا آپشن ہے۔
سوینگس اکاؤنٹ درمیانی مدت کی بچت کے لیے قابل جواز ہوگا۔ فرض کیجیے کہ آپ گاڑی خریدنے لائق پیسے جمع کرنے کے لیے بچت کر رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہے کہ گاڑی کے لائق رقم کرنے کے لیے آپ کو دو سے تین سال کا عرصہ لگ جائے گا، یا پھر نئے فلیٹ کے لیے ڈاؤن پیمنٹ اکٹھا کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے پیسوں کو بچانے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ کو سیونگس اکاؤنٹ کا بہتر نعم البدل دستیاب نہ ہوتا تو پھر ان چیزوں کے لیے سیونگس اکاؤںٹ موزوں ہوتے۔
منی مارکیٹ فنڈز بھی میوچوئل فنڈز ہیں، مگر باقاعدہ میوچوئل فنڈز کے برعکس یہ آپ کے پیسے کو آپ تک جلد سے جلد رسائی دلوانے کی وجہ سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اسٹاک فنڈ یا فکسڈ انکم فنڈ سے پیسے نکلوانے کے لیے جب آپ پہلی بار درخواست کرتے ہیں تو اس کی رقم جاری ہونے میں اکثر دو سے تین ورکنگ دن لگ جاتے ہیں، کبھی کبھار تو 6 دن بھی لگ سکتے ہیں۔
جبکہ منی مارکیٹ فنڈز میں اکثر طور پر اگلے ہی ورکنگ دن پر آپ کو رقم جاری ہوجاتی ہے، یہ چیز کم مدتوں پر مشتمل بچتوں کے لیے ان کو مثالی بنا دیتی ہے۔
جو چیز انہیں سیونگس اکاؤنٹس سے بہتر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ آپ کو زیادہ نفعے کی شرح کے ساتھ منافع فراہم کرتے ہیں اور جو لوگ کافی زیادہ مذہبی ہیں ان کے لیے ملک میں ہر اسٹ مینجمنٹ کمپنی میں شریعت سے مطابقات رکھنے والے آپشنز بھی دستیاب ہیں۔ ان فنڈز کے درمیان 9 سے 10 فی صد کی شرح عام ہے۔ یہ عام طور مہنگائی کو زیادہ مات نہیں دے پاتے مگر مہنگائی میں گزارا کرنے لائق بنانے کے لیے بہتر ہیں۔
میں آپ کو یہاں خبردار بھی کرنا چاہوں گا کہ منی مارکیٹ میوچوئل فنڈز ایک حد تک روایتی بینک اکاؤنٹ سے زیادہ خطرناک ہیں۔ 2008 میں مالی بحران کے دوران جب اسٹاک اور بانڈز مارکیٹس گر گئی تھیں، تب یہ دیکھا گیا کہ بہت سے منی مارکیٹ فنڈز نے کافی حد تک رسکی بانڈز میں سرمایہ کاری کی ہوئی تھی جسے وہ بیچنے کی حالت میں نہیں تھے۔
اس کے نتیجے میں کافی ایسے فنڈز نے منافعے کی رقم ادا کرنے کی درخواست کو رد کردیا، کبھی کبھی تو مہینوں تک رد کیے رکھا۔
میں اعترافاً کہتا ہوں کہ اس کے بعد اب اسیٹ مینجمنٹ انڈسٹری اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں اب کافی بہتری آ چکی ہے۔ اب زیادہ رسکی اور کم رسکی فنڈز کے درمیان فرق واضح ہو گیا ہے اور ایس ای سی پی اب تحریری قانون نافذ کروانے میں اور بھی زیادہ سرگرم ہے۔ مگر پھر بھی یہ ایک عام بینک اکاؤنٹ سے زیادہ رسکی ضرور ہے۔
جیسے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کچھ بھی رسک سے خالی نہیں۔ ہم اکثر ایسا سمجھتے ہیں کہ بینک اکاؤنٹس رسک سے عاری ہوتے ہیں۔ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ڈپازٹ انشورنس جیسی کوئی شے نہیں ہے۔ امریکا اور یورپ کے برعکس، بینک اکاؤںٹس حکومت کی جانب سے گارنٹی شدہ نہیں ہیں۔
اگر کسی بڑے بینک میں کچھ بگاڑ آ جائے تو شاید اسٹیٹ بینک آف پاکستان آ گے آئے اور مسئلہ حل کرے۔ مگر موجودہ قانون کے تحت اسے ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔ اگر آپ تھوڑا رسک اٹھائیں گے تو آپ کو اس کا تھوڑا اضافی منافع بھی حاصل ہوسکے گا۔
اس مضمون کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا ہے۔ قارئین کو سرمایہ کاری یا مالیاتی فیصلے لینے سے پہلے خود سے احتیاطاً ریسرچ کر لینی چاہیے۔
فاروق ترمذی نیویارک امریکا میں مقیم ابھرتی ہوئی مارکیٹس میں سرمایہ کاری کے ماہر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: FarooqTirmizi@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔