نقطہ نظر

درخشاں یادیں سمیٹے پاکستان کا واحد کرکٹ میوزیم

قیام پاکستان کی پہلی چند دہائیوں کے دوران پاکستانی کرکٹ کئی لحاظ سے لاہور جم خانہ گراؤنڈ سے جڑی رہی ہے۔

درخشاں یادیں سمیٹے پاکستان کا واحد کرکٹ میوزیم

عون علی

شاندار تاریخی اور ثقافتی ورثے کی وجہ سے لاہور پاکستان کا ثقافتی صدر مقام کہلاتا ہے، مگر یہ تعریف لاہور کے صرف ایک پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔ لاہور کا دوسرا قابل ذکر حوالہ اس شہر میں کھیل کی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ پرانے شہر کی پیچیدہ گلیوں میں تھڑوں اور اکھاڑوں سے لے کر بیرون شہر ہاکی، کرکٹ اور فٹ بال کے جدید گراؤنڈز تک، کھیل کی سرگرمیاں شہر لاہور کی سدا بہار رونق کی متحرک علامتیں ہیں۔

لاہور کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ یہاں برصغیر کا ایک قدیم ترین کرکٹ گراونڈ موجود ہے جو قریب ڈیڑھ سو سال سے آباد چلا آرہا ہے۔ جی ہاں، باغ جناح کے دل کش مقام پر واقع لاہور جم خانہ کرکٹ گراونڈ 1880 میں قائم کیا گیا تھا۔ پورے برصغیر پاک و ہند میں اس سے پرانے صرف ایک کرکٹ گراؤنڈ کا پتہ ملتا ہے، ایڈن گارڈنز کلکتہ، جو کہ 1864 میں قائم کیا گیا۔

آپ مال روڈ کے گیٹ سے باغ جناح میں داخل ہوں، یا ریس کورس روڈ کی طرف سے یا چائنہ چوک سے مڑ کر لارنس روڈ کی طرف سے آ جائیں، شیشم اور جامن کے تناور درختوں کے گھیرے میں یہ گراونڈ آپ کو ضرور متوجہ کرے گا۔ کرکٹ کے اس وسیع میدان میں ایک ہی عمارت ہے مگر ایسی جاذب نظر کہ آپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔

باغِ جناح کے اندر دنیا کی خوبصورت ترین کرکٹ عمارات میں سے ایک ہے۔— فوٹو عون علی

1880 میں قائم ہونے والا لاہور جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ برِصغیر کا دوسرا قدیم ترین کرکٹ گراؤنڈ ہے۔— فوٹو عون علی

صبح سویرے اگر آپ یہاں پہنچیں تو اوس سے بھیگی گھاس کے پس منظر میں اس عمارت کا نظارہ دیدنی ہو گا۔ یہ جم خانہ گراؤنڈ کا پویلین ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ مسٹر جی سٹون نے ڈیزائن کیا اور لاہور کے مایہ ناز ماہر تعمیرات بھائی رام سنگھ کی نگرانی میں 1880 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس عمارت میں اینٹ پتھر سے زیادہ لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے اور لکڑی بھی کوئی ایسی ویسی نہیں، خاص اوک کی لکڑی جسے برطانیہ سے درآمد کیا گیا تھا۔

میں قریب دس سال جناح باغ کے سامنے کے ایک محلے میں مقیم رہا ہوں اور ہر صبح باغ کا ایک چکر میرا معمول تھا۔ لیکن چیزیں معمولات کا حصہ بن جائیں تو اکثر ان کی اہمیت کے نمایاں پہلو اوجھل رہ جاتے ہیں۔ جم خانہ گراؤنڈ کے معاملے میں مجھ سے بھی یہی قصور سر زد ہوا۔

پہلے اس جگہ سے گرم ہوا کے غبارے اڑائے جاتے تھے، مگر پھر اسے کرکٹ گراؤنڈ میں تبدیل کر دیا گیا۔— فوٹو عون علی

پویلین میں لگی تختی یہاں کرکٹ کی 130 سالہ تاریخ کے اہم واقعات بیان کرتی ہے۔ — فوٹو عون علی

صبح کی سنہری روشنی میں چمکتے ہوئے گھاس کے میدان کے کنارے پر منفرد طرز تعمیر کا پویلین میری توجہ جذب کرتا تھا، لیکن باوجود اس کشش کے میرے قدم کبھی اس طرف نہیں اٹھے۔ اس لیے طویل عرصے کی ہمسائیگی کے باوجود میں جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ کی تاریخ اور کردار کو نہیں سمجھ سکا۔ مگر اس سال مارچ کے پہلے ہفتے کی ایک صبح مجھے گراونڈ کے اندر پویلین کی تصویریں بنانے کا اچھا موقع نظرآیا۔ موسم چمکدار تھا لیکن موسم سرما کے آخری دنوں کی ٹھنڈک سے ماحول میں دھند کی پتلی لہریں بھی پھیلی ہوئی تھیں، جس سے میدان میں گھاس پر باریک سا پردہ چھا گیا تھا۔

میں اس عمارت کو سامنے اور پہلو سے مختلف زاویوں سے دیکھتا ہوئے نزدیک چلتا گیا اور دیکھا کہ جیسی یہ باہر سے نظر آتی تھی اصل میں اس سے کہیں زیادہ پرکشش ہے۔ لکڑی کے تختوں کے فریم پر چمنی کی طرح کی اونچی چھتیں۔ میں اس عمارت کی تاریخ اور تعمیراتی تفصیلات کے بارے جاننا چاہتا تھا۔ تاریخ کے بارے تو مجھے کچھ آگاہی یہاں برآمدے میں لگی معلوماتی تختی سے حاصل ہو گئی لیکن مزید جاننے کے لیے یہاں کے کسی عہدیدار سے ملنا ضروری تھا۔

جمخانہ گراؤنڈ کو خطے میں کرکٹ کی نرسری کہا جاتا ہے۔— فوٹو عون علی

1910 تک یہاں صرف گورنر ہاؤس کے عملے کے میچز ہوا کرتے تھے۔— فوٹو عون علی

1923 میں یہاں برطانوی فوج اور ایم سی سی کے درمیان فرسٹ کلاس میچ کھیلا گیا۔ تین سال بعد یہیں ان دونوں ٹیموں نے بین الاقوامی میچ کھیلا۔ — فوٹو عون علی

دلچسپی کی ایک اور چیز یہ ملی کہ پویلین کے وسط میں ایک بڑے سے کمرے کے دروازے پر ”لاہور جم خانہ کرکٹ میوزیم اینڈ آرکائیوز“ کا بورڈ لگا تھا، یعنی یہاں کرکٹ کا کوئی میوزیم بھی بنایا گیا ہے۔ میرے لیے حیران کن تھا۔ اس سے پہلے میں نے کرکٹ میوزیم کے بارے نہیں سنا تھا، اس لیے یہ میرے لیے مزید حیرت کا باعث بنا۔

لیکن ابھی کوئی دروازہ کھلا نہیں تھا، ایک گارڈ سے پوچھ کر میں سامنے پچ پر کام کرنے والے افراد کے پاس چلا گیا جن سے مجھے جم خانہ کرکٹ گراونڈ کے عہدیداروں کے فون نمبر مل گئے۔ اسی روز ان سے رابطہ بھی ہو گیا اور اگلی صبح میں ٹھیک گیارہ بجے وہاں پہنچا تو نجم لطیف اور جاوید زمان خان میری آمد کے منتظر تھے۔

کرکٹ مؤرخ نجم لطیف نے یہاں پر پاکستان کا پہلا کرکٹ میوزیم قائم کیا۔— فوٹو عون علی

نجم لطیف کرکٹ کے شوقین بھی ہیں اور تاریخ دان بھی. جم خانہ کرکٹ میوزیم جسے پاکستان میں اپنی نوعیت کا اولین مجموعہ قرار دیا جاتا ہے، کے بانی اور روح رواں ہیں، جبکہ جاوید زمان خان ایک ریٹائرڈ کرکٹر ہیں جنہوں نے 60 کی دہائی میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ان دنوں جم خانہ کرکٹ کلب کی سربراہی کر رہے ہیں۔

نجم لطیف نے بتایا کہ برصغیر پاک و ہند کی کرکٹ کی تاریخ میں اس گراونڈ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ بقول ان کے یہ گراؤنڈ 19 ویں صدی کےشروع سے اسی طرح قائم ہے۔ پہلے یہاں گرم گیس کے غبارے اُڑانے کا مرکز قائم کیا گیا تھا، مگر 1880 میں اس گراؤنڈ کو کرکٹ کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ پویلین کی عمارت بھی خاص اسی مقصد کے لیے تعمیر کروائی گئی۔ 1882 میں یہاں پہلی ٹرف وکٹ تیار کی گئی جس کے لیے گھاس اور مٹی برطانیہ سے لائی گئی۔

انتھک محنت سے نجم لطیف نے کباڑ خانہ بن چکی اس جگہ کو کرکٹ میوزیم کا روپ دیا۔— فوٹو عون علی

مہاجرین کی مدد کے لیے قائم کردہ قائدِ اعظم ریلیف فنڈ کے لیے کھیلے گئے میچ کا اسکور بورڈ۔— فوٹو عون علی

1910 تک یہاں صرف گورنر ہاؤس کے عملے کے ہفتہ وار میچ ہوتے تھے۔ گورنر ہاؤس یہاں سے بالکل سامنے مال روڈ کی دوسری جانب واقع ہے۔ 1911 میں یہاں برطانوی فوج اور ورلڈ الیون نے پہلے آفیشل میچ کھیلے۔ ورلڈ الیون کی ٹیم لنکاشائر اور گلوسسٹر شائر کے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جبکہ برطانوی آرمی کی ٹیم میں87 پنجاب، 15 سکھ اور کنگ رجمنٹ کے فوجی شامل تھے۔ 1926 میں ایم سی سی (میریلیبون کرکٹ کلب) اور برطانوی فوج کی ٹیم کے درمیان یہاں پہلا بین الاقوامی میچ کھیلا گیا۔

1934 میں پہلی رانجی ٹرافی کے لیے شمالی ہند کی ٹیم نے یہاں برطانوی فوج کی ٹیم کے خلاف کھیلا۔ 1936 میں اسی گراؤنڈ پر ہندوستان کو کسی غیر ملکی ٹیم کے خلاف پہلی فتح نصیب ہوئی۔ یہ میچ آسٹریلیا کے خلاف تھا جس میں سید وزیر علی ہندوستانی ٹیم کے کپتان تھے۔ 1945 میں یہاں رانجی ٹرافی کا آخری میچ شمالی ہند اور جنوبی پنجاب کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا۔ ہندوستان کے اس سب سے پرانے ڈومیسٹک کرکٹ ٹورنامنٹ کا اس جگہ یہ آخری میچ تھا۔

پاکستان ایگلیٹس کا 1959 کا کوٹ۔— فوٹو عون علی

پاکستانی کپتان محمد سعید ویسٹ انڈین کپتان جے ڈی سی گوڈارڈ کے ساتھ نومبر 1948 میں لاہور جمخانہ میں۔— فوٹو عون علی

میوزیم میں موجود پاکستان ایگلیٹس کا کوٹ، ایم سی سی کی نکٹائی، اور گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کی کیپس۔— فوٹو عون علی

قیام پاکستان کی پہلی چند دہائیوں کے دوران پاکستانی کرکٹ کئی لحاظ سے لاہور جم خانہ گراؤنڈ سے جڑی رہی۔ دسمبر 1947 میں یہاں قائد اعظم ریلیف فنڈ کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے پنجاب اور سندھ کی ٹیموں کے میچ ہوئے۔ پاکستان کی سر زمین پر کھیلا جانے والا یہ پہلا فرسٹ کلاس کرکٹ میچ تھا۔

ملک میں کرکٹ کے انتظام کے لیے کرکٹ کنڑول بورڈ آف پاکستان کے نام سے 1948 نگران ادارہ قائم کیا گیا تو اس کا دفتر بھی اسی جگہ قائم ہوا اور 1951 میں بننے والے پاکستان ایگلیٹس کا مقام بھی اسی گراؤنڈ میں تھا۔ پاکستان ایگلیٹس باصلاحیت کھلاڑیوں کو مزید تربیت دلانے اور بین الاقوامی ٹیموں کے خلاف صلاحیتیں آزمانے کا موقع فراہم کرنے کے مقصد سے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بانی جسٹس اے آر کارنیلئس تھے۔ اس اسکواڈ نے ٹیسٹ کرکٹ کے لیے پاکستان کو کئی نامور کھلاڑی دیے۔

1960 سے 1980 کی دہائی تک یہ جگہ غفلت کا شکار رہی، جس کی وجہ سے کئی نوادرات ضائع بھی ہوگئے۔— فوٹو عون علی

نجم لطیف اس کرکٹ میوزیم کے کیوریٹر ہیں جنہوں نے ملکی کرکٹ تاریخ محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔— فوٹو عون علی

یہاں آنے والوں کو معروف کھلاڑیوں کے دستخط شدہ بلے نظر آئیں گے۔ ان میں فضل محمود، امتیاز احمد، حنیف محمد، شجاع الدین، خالد قریشی، سعید احمد، خالد حسن اور ایس ایف رحمان شامل ہیں۔— فوٹو عون علی

1955 میں اس گراؤنڈ کو آفیشل ٹیسٹ گراؤنڈ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اسی سال یہاں پاکستان اور ہندوستان کی ٹیموں کا مقابلہ ہوا۔ اکتوبر 1955 میں یہاں دوسرا ٹیسٹ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا گیا جبکہ تیسرا اور اس گراؤنڈ کا آخری ٹیسٹ میچ مارچ 1959 میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تھا۔ اسی سال لاہور میں نیا کرکٹ اسٹیڈیم مکمل ہونے کے بعد جم خانہ گراؤنڈ کا کردار پس منظر میں چلا گیا۔

بڑے میچ اور کرکٹ بورڈ کے دفاتر نئے اسٹڈیم، جسے بعد میں قذافی سٹڈیم کا نام دیا گیا، منتقل ہوئے تو اس شاندار گراؤنڈ کو تاریخی ورثے کے طور پر محفوظ کرنے کے بجائے وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اگلے کوئی بیس برس تک طرح صورتحال جوں کی توں رہی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاندار پویلین کی چھت، روشن دان، کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ گئے اور اندر جو کرکٹ کا ڈیڑھ سو سالہ ریکارڈ پڑا تھا، اسے بارش کا پانی بہا لے گیا یا دیمک چاٹ گئی یا چوروں کے ہتھے چڑھ گیا۔

نجم لطیف کی کوششوں سے اب میوزیم کی دیواروں پر کھلاڑیوں کی تصاویر اور تاریخی اسکور بورڈز آویزاں ہیں۔— فوٹو عون علی

میوزیم میں موجود پاکستان کے مشہور ترین اسپورٹس میگزین 'اسپورٹس ٹائمز' کے چند سرورق۔— فوٹو عون علی

کرکٹ شائقین کے لیے یہ نوادرات کسی خزانے سے کم نہیں۔— فوٹو عون علی

نجم لطیف بتا رہے تھے کہ پویلین کا مرکزی ہال کھلاڑیوں کے کھانے کا کمرہ تھا جس کی دیواروں کو اس گراؤنڈ میں کھیلنے والی ٹیموں کے گروپ فوٹوز سے سجایا گیا تھا۔ یہ تصویریں محض سجاوٹ ہی نہیں، اہم تاریخی حوالے کا مواد تھا جو ضائع ہو گیا۔ یہی حال اسکور بکس اور دیگر دستاویزات کا ہوا۔ سو سال سے زائد کی کرکٹ کا ریکارڈ بیس، تیس سال کی غفلت کی نظر ہوگیا۔

نجم لطیف نے بتایا کہ 2000 میں انہوں نے دیکھا کہ پویلین کی عمارت تاریخی ریکارڈ کا گودام بنی چکی تھی، دیمک اور نمی سے کوئی کاغذ محفوظ نہ تھا۔ "آپ دیکھتے کہ ایک تصویر ہے یا کوئی کاغذ، لیکن ہاتھ لگانے سے پتہ چلتا کہ وہ سب تحلیل ہو چکا ہے۔" ان حالات نے نجم لطیف کی توجہ کرکٹ میوزیم قائم کرنے کی طرف مبذول کروائی، جہاں نہ صرف خطرے سے دوچار ریکارڈ کو محفوظ کر لیا جائے بلکہ کرکٹ کے حوالے سے نوادرات بھی جمع کیے جائیں۔

یہ کام آسان نہیں تھا۔ نجم لطیف بتاتے ہیں کہ جب پویلین کی انتظامیہ نے کرکٹ میوزیم کے منصوبے کی منظوری دی، تو انہوں نے 2003 میں نوادرات جمع کرنے شروع کیے۔ اس کام کے لیے انہوں نے پرانے کھلاڑیوں اور نامور کرکٹ شائقین کے دروازے کھٹکھٹائے، تاکہ انہیں کہیں سے بھی نادر تصاویر، اخباری تراشے، میگزین، وردیاں، غرض کرکٹ سے متعلق کوئی بھی چیز مل سکے۔

نومبر 1948 میں لاہور جمخانہ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ کے لیے پاکستانی ٹیم۔— فوٹو عون علی

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں گورنر پنجاب فرانسس مڈی کے ساتھ، نومبر 1948۔— فوٹو عون علی

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں لاہور جمخانہ میں مارچ 1959 میں تیسرے ٹیسٹ میچ کے دوران جنرل ایوب خان کے ساتھ۔— فوٹو عون علی

2003 میں اس میوزیم کی داغ بیل ڈالی گئی اور اگلے چھے برس کے دوران نجم لطیف اور ان کے ساتھیوں کی کوشش سے اتنا ریکارڈ جمع کر لیا گیا کہ جم خانہ گراؤنڈ کے پویلین کا یہ سب سے بڑا ہال اب کرکٹ کے نوادرات سے کھچا کھچ بھر چکا ہے۔ میوزیم کا دروازہ کیا کھلتا ہے، جہانِ کرکٹ کا دفتر کھل جاتا ہے۔

1886 میں لاہور بمقابلہ انبالہ، اسی گراونڈ پر کھیلے گئے ایک میچ کی تصویر۔— فوٹو عون علی

قائد اعظم کی پاکستان کے پہلے اوپننگ بیٹس مین نذر محمد (مدثر نذر کے والد) کے ساتھ اسلامیہ کالج لاہور میں لی گئی تصویر۔ کہتے ہیں قائد اعظم کی کسی کرکٹر کے ساتھ یہ واحد تصویر ہے۔— فوٹو عون علی

ایک صدی پرانی سلپ فیلڈنگ کریڈل جس پر کھلاڑیوں کو فیلڈنگ کی تربیت دی جاتی تھی۔— فوٹو عون علی

یہاں تک کہ کیمرے کا وہ لینس جسے پاکستان میں پہلی بار کھلاڑیوں کی ایکشن تصویریں لینے کے لیے استعمال کیا گیا، وہ بھی اس میوزیم میں موجود ہے۔ یہ لینز پاکستان میں تصویری صحافت کے باوا آدم آنجہانی ایف ای چوہدری نے 1951 پاکستان بمقابلہ ایم سی سی میچ میں استعمال کیا تھا۔

نجم لطیف کہتے ہیں کہ کرکٹ کے نوادرات جمع کرنا ناختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ یہ دراصل آنے والی نسلوں کی خدمت ہے۔ اس کوشش سے یقیناً آنے والے دور کے شائقین اور محقق فائدہ اٹھائیں گے۔ میوزیم کے ساتھ وہ ایک لائبریری بھی تشکیل دے رہے ہیں جہاں کرکٹ سے متعلق کتابیں اور حوالے کا سامان جمع کیا جا رہا ہے۔

— فوٹو عون علی


عون علی لاہور کے رہائشی فوٹو جرنلسٹ ہیں، اور خاص طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تعمیرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ ان کا کام یہاں اور فیس بک پر دیکھ سکتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

عون علی

عون علی لاہور کے رہائشی فوٹو جرنلسٹ ہیں، اور خاص طور پر تاریخی اہمیت کی حامل تعمیرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔