چکوال میں حالیہ دنوں ہزاروں افراد نے ماسٹرز ڈگری کے ہمراہ محکمہ تعلیم میں چوکیدار اور مالی کی ملازمتوں کے لیے درخواستیں جمع کروائیں۔ پورے ملک میں کالجز اور یونیورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے نوجوان گریجوئیٹس کی ایک کثیر تعداد پیدا کر دی ہے جس کا تعلق ورکنگ کلاس خاندانوں سے ہے۔
تاہم مایوس کن معیشت نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے پاس تعلیم یافتہ بے روزگار افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنا ہماری حکمران اشرافیہ کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔
جہاں ہمارے ملک میں پانامہ گیٹ اور مرد کو اپنی بیوی کو کس شدت سے مارنا چاہیے جیسی باتوں پر بے جا توجہ مرکوز کر کے جو ایک فضا قائم کی گئی ہے وہاں اب معاشی ترقی کسی کے بھی ایجنڈا پر زیادہ دکھائی نہیں دیتی۔
شرح روزگار کے اعداد و شمار مبہم کیوں کر دیے جاتے ہیں؟
پاکستانی نوجوانوں میں بے روزگاری اور عارضی ملازمتوں کی شرح کتنی ہے، اس بارے میں مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سرکاری طور پر موجودہ شرح بے روزگاری کا تناسب 6 فی صد سے بھی کم ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعی آبادی میں افرادی قوت (بے روزگار افراد) کا بہت چھوٹا سا حصہ ملازمت کی تلاش میں مصروف ہے۔
یہ اعداد و شمار مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر گمراہ کن ہو سکتے ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین ورکرز افرادی قوت کی شماریات میں شمار ہی نہیں کی جاتی۔ اگرچہ وہ بالغ خواتین جو ملازمت کی صلاحیت رکھتی ہیں پھر بھی وہ افرادی قوت کی شماریات سے خارج ہو جاتی ہیں۔
اب چونکہ ورلڈ بینک کے نزدیک وہ افراد جن کی عمر 15 سال یا اس سے زیادہ ہے اور وہ ملازمت کی تلاش میں ہیں تو وہ افرادی قوت کا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی افرادی قوت کا تخمینہ 6 کروڑ 50 لگایا جاتا ہے۔
اب پاکستان کی آبادی کا تخمینہ 19 کروڑ 60 لاکھ ہے اس طرح آبادی کا ایک تہائی حصہ افرادی قوت (ملازمت کے لائق آبادی) میں شمار ہو جاتا ہے، اور دیکھا جائے تو یہ تعداد باقی ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں انتہائی کم نظر آتی ہے جہاں افرادی قوت تقریباً 60 فی صد ہے۔
لہٰذا ان اعداد و شمار کے بجائے اگر ہم پاکستان میں دیکھیں تو 60 فی صد سے زائد آبادی کا حصہ 15 سال سے 64 سال کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے مجموعی افرادی قوت (ملازمت کرنے لائق افراد) کے تناسب کی بالائی حد 6 کروڑ 50 لاکھ کے بجائے 11 کروڑ 70 لاکھ ہونی چاہیے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ملازمت تلاش کر رہے ہیں، حکومت اس کا تخمینہ کس طرح لگاتی ہے؟ اعداد شمار اکٹھا کرنے میں ریاستی عدم دلچسپی کی وجہ سے سرکاری شماریات قابل اعتماد نہیں ہیں جب کہ پاکستان میں 1998 کے بعد سے مردم شماری بھی نہیں ہوئی ہے۔
نتیجتاً پاکستان میں نہ صرف افرادی قوت کی شرح درست شمار نہیں ہو پاتی بلکہ ہمیں بے روزگار افراد کی بھی درست تعداد معلوم نہیں۔