نقطہ نظر

اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود​

اقبال خوش نصیب تھے کہ انہیں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، کیونکہ اب اس پر سخت پابندی عائد ہے۔

مسجدِ قرطبہ، عشق، اور فکرِ اقبال

عثمان حیات

اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود​

عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود​

علامہ محمد اقبال نے اپنی وفات سے 5 سال قبل 1933 میں اپنی مشہور نظم مسجدِ قرطبہ میں مسجدِ قرطبہ کو مندرجہ بالا انداز میں بیان کیا تھا۔

نظم کے عنوان کے نیچے عبارت میں لکھا ہے کہ یہ نظم اسپین کے شہر قرطبہ میں تحریر کی گئی تھی۔ میں نے اپنے اسکول کے سالوں کے دوران جب سے یہ نظم پڑھی تھی، تب سے اُس مسجد کی سیر کرنا میری دیرینہ خواہش تھی جس نے اقبال کو متاثر کیا تھا۔

علامہ اقبال مسجدِ قرطبہ میں نماز ادا کرتے ہوئے.

فروری 2016 میں مجھے اسپین جانے کا موقع ملا اور آخرکار میری خواہش پوری ہوگئی۔ مسجد دیکھنے کے لیے میڈرڈ سے قرطبہ 400 کلومیٹر ڈرائیونگ کے دوران میرے ذہن میں مسلسل نظم مسجدِ قرطبہ کے اشعار گونج رہے تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب یہ مسجد کیسی دکھتی ہوگی۔

فنِ تعمیر کا ایک شاہکار

اقبال کے وہاں آنے سے گیارہ سو سال سے بھی زائد عرصہ پہلے عبدالرحمان اول نے 785 کے قریب اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد کافی سالوں تک اس کی تعمیر جاری رہی تھی۔

سیاہ ادوار میں یورپ کا زمانہ بہت مختلف تھا اور مسلمانوں کی تہذیب عروج پر تھی۔ ورلڈ ہیریٹیج سینٹر کے مطابق یہ مسجد ''اپنے سائز اور اپنی اونچی چھتوں کی وجہ سے ایک انوکھے فنی کارنامہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ خلافتِ قرطبہ کا ایک بے بدل ثبوت ہے اور اسلامی طرزِ تعمیر کی ایک زبردست علامتی یادگار ہے۔''

آگے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ''ایک غیر معمولی قسم کی مسجد ہے جو مغرب میں اسلام کی موجودگی کا ثبوت ہے۔''

مسجد کی مشہور محرابیں.— تصویر بشکریہ لکھاری

مسجد کے بارے میں دوسری جگہوں پر بھی اسی طرح سے اس کی خوبصورتی، اس کے مشہور ستونوں، محرابوں اور گنبدوں کی تعریف کرتے ہوئے لکھا گیا ہے۔ جیسے اقبال نے فرمایا:

تیری بناء پائیدار، تیرے ستون بے شمار​

شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل

مسجد میں استعمال ہونے والی اصل لکڑی نمائش کے لیے رکھی گئی ہے.— تصویر بشکریہ لکھاری

اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد 1246 کے قریب مسجد کو گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا اور اس کے اوپر ایک دیو قامت نافِ کلیسا تعمیر کی گئی تھی، مگر گرجا گھر دیکھنے والوں سے مسجد جیسی تعریفیں نہیں سمیٹ پاتا۔

گرجا گھر میں تبدیل ہونے کے کئی زمانے بعد اقبال نے مسجد کا دورہ کیا تھا۔ اقبال خوش نصیب تھے کہ انہیں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، کیونکہ خلافِ توقع مجھے معلوم ہوا کہ اب ہسپانوی حکام نے سختی سے منع کر رکھا ہے۔

گھنٹا ٹاور سے مسجد کا نظارہ.— تصویر بشکریہ لکھاری

ایک مسجد یا گرجا گھر؟

میں نے جیسے ہی اس جگہ کو دیکھنا شروع کیا تو مسجد کے بارے میں میرے جو بھی رومانوی خیالات یا تصورات تھے، سب جلد ہی غائب ہو گئے۔

شروع میں دیکھنے پر یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ایک مسجد ہے بھی یا نہیں۔ ایسا گرجا گھر کی نافِ کلیسا کی وجہ سے ہے جو مسجد کی دیواروں سے اوپر بہت اونچا ہے۔

واقعی یہ قرطبہ کی مشہور مسجد ہے، یہ کہنے کے لیے آپ کو اپنے سامنے موجود عمارت کے بجائے عمارت کے بارے میں تاریخی حقائق پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

گرجا گھر کا اندرونی منظر.— تصویر بشکریہ لکھاری

گھنٹا ٹاور، جو کبھی مسجد کا مینار ہوا کرتا تھا.— تصویر بشکریہ لکھاری

انٹرنیٹ پر دستیاب مسجد کی مقبول تصاویر اور پوسٹ کارڈز بھی گمراہ کن ہوسکتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ تصاویر مسجد کے بعض حصوں کی احتیاط سے کٹی ہوئی تصاویر ہوتی ہیں، اور جب آپ خود وہاں جاتے ہیں تو یہ ویسی نہیں دکھائی دیتی۔

سالوں سے یہ جگہ، جسے اکثر گرجا گھر مسجد بھی پکارا جاتا ہے، سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ یہ جگہ ہوٹلوں اور دکانوں سے گھری ہوئی ہے جو سیاحوں کو سستے ترین سے لے کر مہنگے ترین کمرے اور کھانے بیچنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔

جب میں گھنٹا ٹاور، جو کہ کبھی مسجد کا مینار ہوا کرتا تھا، کی چھت کے اوپر چڑھا تو گرد و پیش کا وہ نظارہ کرنے کو ملا جس کی میں تلاش کر رہا تھا۔

گھنٹا ٹاور پر کھڑے ہو کر میں تصور کی دنیا میں ایک ہزار سال پیچھے چلا گیا جب یہ پوری طرح سے ایک شاندار مسجد ہوا کرتی تھی۔ اس وقت مجھے یہ بات سمجھنے میں مدد ملی کہ اقبال نے نظم کا آغاز سنہرا دور گزر جانے اور استحکام کی کمی کے اداس حوالوں سے کیوں کیا ہے۔

علامہ اقبال مسجدِ قرطبہ کی محراب میں.

مسجد کی محراب.— تصویر بشکریہ لکھاری

اقبال کے لیے مسجد کیا معنی رکھتی تھی؟

میں نے مسجد کے بارے میں جتنا پڑھا، اتنا زیادہ اس کی طرزِ تعمیر اور تاریخ جاننے کو ملی — معلومات اس قدر حاصل ہونے لگیں کہ مجھے لگا کہ میں اقبال کے لیے اس مسجد کی معنی پر نظر ڈالنے سے ہی چوک رہا تھا۔

میں جانتا ہوں کہ تنہا فنِ تعمیر اقبال کے لیے زیادہ معنیٰ نہیں رکھتا تھا۔ آخر ہندوستان میں بھی تو تاج محل تھا، جو کئی شعراء کو مسحور کرنے کے باوجود بھی اقبال کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

مسجد کا دروازہ.— تصویر بشکریہ لکھاری

تو پھر کیوں ان کی نظم ہزاروں میل دور اسپین میں موجود ایک ایسی مسجد کی خستہ حالی کی کہانی بیان کرتی ہے، جو مسجد سے زیادہ گرجا گھر محسوس ہوتی ہے؟

اسپین سے لوٹنے کے بعد بھی یہ سوال مجھے مسلسل پریشان کر رہا تھا۔ اس کا واضح جواب حاصل کرنے کے لیے میں نامی گرامی ماہرِ اقبالیات پروفیسر فتح محمد ملک سے ملنے گیا۔

پروفیسر ملک نے بتایا کہ عرب مسلمان 711 کے قریب تقریباً ایک ہی وقت میں ہندوستان اور اسپین پہنچے۔ 1933 میں اقبال اس بنیادی سوال کی کشمکش میں مبتلا تھے کہ کہیں برصغیر میں موجود مسلمانوں کی قسمت بھی ویسا ہی مٹ جانا نہ لکھا ہو، جیسا اسپین میں موجود مسلمانوں کی قسمت میں لکھا تھا۔

یہ وہ دور تھا جب یورپ دوسری جنگ عظیم کی جانب بڑھ رہا تھا اور برصغیرِ ہندوستان برطانوی راج کے خاتمے کی جدوجہد کر رہا تھا۔

اقبال بہت پہلے 1930 میں ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کا تصور پیش کر چکے تھے۔ یہ نظم اسلامی اخلاقی اقدار پر عمل کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان حیات نو پیدا کرنے کی اقبال کی خواہش کا اظہار کر رہی ہے، اور یہی اقبال کی شاعری کا مرکزی خیال بھی ہے۔

مسجد کی باقیات میں اقبال نے اسے تعمیر کرنے والوں کے عشق کے آثار دیکھے۔ نظم ایک اداس عبارت پر ختم ہوتی ہے مگر عشق کو متعارف کروانا نظم کا مزاج اداسی سے پرامیدی میں بدل دیتا ہے۔

پروفیسر ملک کے مطابق یہی وہ عشق ہے، جو کسی کو شدت سے اسلامی تعلیمات کے ساتھ رہنے پر راغب کر دیتا ہے۔ اس بات نے اقبال کو متاثر کیا تھا، نہ کہ صرف ایک عمارت نے، اور نہ ہی خلافت نے۔

تیرا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل

مسجد کے باغ سے ایک منظر.— تصویر بشکریہ لکھاری

مسجدِ قرطبہ: ایک شاندار تخلیق

مسجد قرطبہ کو اقبال کی سب سے بہترین تخلیقات میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ نظم بھی اس مسجد کی طرح عشق کا کمال ہے۔

مگر آج اس تخلیق کو ایک چیلنج درپیش ہے۔ وہ ہے اس کی اردو کا انتہائی بلند معیار، جو نظم کو سمجھنا مشکل بنا دیتا ہے۔

مسجد کا دروازہ.— تصویر بشکریہ لکھاری

خوش قسمتی سے مختلف فنکاروں نے اس نظم کو پڑھنے سے لے کر موسیقی کے ساتھ گا کر پیش کرنے تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے، ان میں ٹینا ثانی اور دوسرے کئی فنکار شامل ہیں۔

میں اس دن کی امید کرتا ہوں جب پاکستانی فنکار آج کے پاکستان کو سمجھنے اور اس کی پذیرائی کرنے کے لیے مسجد قرطبہ کو دوبارہ ترتیب دیں گے۔

تب تک کے لیے میں طاہرہ سید اور ان کی مرحومہ والدہ ملکہ پکھراج کی میری پسندیدہ پرفارمنس کے ساتھ اجازت لوں گا:


عثمان حیات لندن میں رہتے ہیں، اور فنانشل سروسز ایجوکیشن سے وابستہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: usman_hayat@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

عثمان حیات

عثمان حیات لندن میں رہتے ہیں، اور فنانشل سروسز ایجوکیشن سے وابستہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: usman_hayat@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔