نقطہ نظر

خون کی پیاسی مردانہ غیرت

غیرت کے نام پر قتل ایک تسلیم شدہ روایت بن گیا ہے جس کی مذمت تو کی جاتی ہے مگر قصوروار عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔

ویسے تو ہم لوگ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ کوی نیا سانحہ یا المیہ ہمارے اعصاب پر اثر انداز نہیں ہو سکتا لیکن کبھی کبھی ایسی خبر آ جاتی ہے جو وجود کے سارے تار ہلا کے رکھ دیتی ہے۔

ابھی کچھ دیر پہلے خبر پڑھی کہ ایبٹ آباد میں جرگے کے فیصلے پر 16 سالہ لڑکی کو زندہ جلا دیا گیا۔

جرگے نے اس لڑکی کو یہ عبرت ناک سزا اس لیے سنائی کیونکہ اس نے اپنی ایک سہیلی کو ایک لڑکے کے ساتھ فرار ہونے میں مدد دی تھی۔ لڑکی کو ایک خالی مکان میں لے جایا گیا، نشہ دے کر بے ہوش کیا گیا، گلہ گھونٹ کر مارا گیا اور پھر سوزوکی کے ساتھ باندھ کر آگ لگا دی گئی۔ مبینہ طور پر اس سزا کی تعمیل میں اس کی اپنی ماں بھی شامل تھی۔

آج ایبٹ آباد کی پولیس نے اس لڑکی کے قاتلوں کا پتہ چلا لیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مقدمہ انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں چلے گا اور ملزمان کو ایسی سزا دی جائے گی جسے دنیا یاد رکھے گی۔

کچھ دن پہلے کراچی میں ایک سولہ سال کے لڑکے نے اپنی بہن کو بد چلنی کے شبہ میں قتل کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق لڑکی نے اپنے خریدار کے ساتھ زندگی گزارنے سے انکار کر دیا تھا، اس لیے اسے سزا دی گئی۔

اس سے بھی چند دن پہلے کے اخبارات اٹھائیں، تو پتہ چلتا ہے کہ شادی کی پہلی رات خاوند نے اپنی بیوی کو بدچلنی کے الزام میں قتل کر دیا۔

ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل ایک تسلیم شدہ روایت بن گیا ہے۔ اس سے بھی بڑا رواج غیرت کے نام پر عورتوں کا جنسی، جسمانی اور معاشرتی استحصال ہے۔ مگر ان خبروں کی میڈیا تک رسائی نہیں ہوتی، کیونکہ جہاں غیرت کے جن کی جان عورت کے طوطے میں ہو اور ہر بھائی، باپ اور شوہر کی کوشش ہو کہ اس پرندے کو تہہ در تہہ مقفل پنجروں میں رکھا جائے، وہاں ہڈیوں کے ٹوٹنے، گالوں کے سنسنانے، آنکھوں کے نیچے نیل پڑنے اور ارمانوں کے جلنے کی اکثر کہانیاں ٹی وی ڈراموں تک تو آجاتی ہیں، لیکن سزا اور جزا کے کٹہرے تک نہیں پہنچ پاتیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر سات سال میں تین ہزار قتل

خبروں کو چھوڑیں، ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے۔

کیا ہمارے معاشرے میں گھر سے باہر جانے والی ہر لڑکی کی چال میں لغزش اور نقاب میں تاریں نہیں ڈھونڈی جاتیں؟

کیا دفتر میں کام کرنے والی ہر لڑکی کے درجنوں افیئر مشہور نہیں ہو جاتے اور مزے لے لے کر چائے کے وقفوں اور اسٹاف میٹنگوں میں نہیں سنائے جاتے؟

کیا آپ نے کبھی کسی لڑکی کا رشتہ صرف اس لیے نہیں ٹوٹتے دیکھا کیونکہ اس کی بڑی بہن کی منگنی ٹوٹی تھی؟

کیا کسی بھائی کی جھکی گردن نہیں دیکھی ہے جس کی بہن بھاگ گئی ہو؟ یا کسی ماں کی سہمی آنکھیں نہیں دیکھی جس کی بیٹی کا افیئر مشہور ہو گیا ہو؟

کیا چھ جوان لڑکوں کے باپ کو محلے میں اکڑ کر نہیں چلتے دیکھا یا ایک بچی کے باپ کے بالوں میں سفیدی اترتے نہیں دیکھی ہے؟

کیا آپ نے لڑکے کے گناہ پر دبی دبی مسکراہٹیں اور لڑکی کے گناہ پر خاندان کی ناموس مٹی میں ملنے کا طعنہ نہیں سنا ہے؟

ہمارے گھروں میں لڑکے کے لیے کسی لڑکی کا فون آئے تو کیا پورا خاندان بلائیں نہیں لیتا کہ ماشااللہ ہمارا بچہ جوان ہو گیا ہے، لیکن بیٹی دروازے پر آئے دودھ والے سے لمبی بات کر لے تو سب کو بے چینی نہیں ہو جاتی کہ دودھ میں ملاوٹ کی شکایت کے علاوہ اور کیا موضوع ہو سکتا ہے اتنی دیر گفتگو کے لیے؟

آپ نے وہ فیس بک امیج تو دیکھا ہوگا جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے بغیر پلاسٹک کی مٹھائی پر مکھیاں بیٹھ جاتی ہیں، اور کیسے ریپر والی مٹھائی صاف ستھری رہتی ہے؟

مزید پڑھیے: ہائے ری عورت

کبھی اپنے کسی بزرگ سے یہ قول تو سنا ہوگا کہ "عورت کی عزت ایک ایسا شیشہ ہے جسے ایک دفعہ ٹھیس لگ جائے تو کبھی جڑ نہیں سکتا۔" یا پھر یہ کہ "عورت وہ خزانہ ہے جسے سنبھالا نہ گیا تو چوری ہو جائے گا"، یا پھر وہ جدید مثال کہ "لڑکی وہ آئی فون ہے جس پر حفاظتی کور نہ چڑھایا گیا تو اس کا شیشہ ٹوٹ جائے گا!"

کیا ان ساری مثالوں میں آپ کو عورت مرد کی ملکیت، عیاشی کا ذریعہ، یا ایک مستقل ذمہ داری اور بوجھ کے علاوہ کچھ اور نظر آتی ہے؟ کیا ہم نے عورت کو اپنی کوئی ہستی کوئی جداگانہ حیثیت یا الگ وجود دیا ہے؟

یہ غیرت کیا ہے اور مرد اس کے نام پر قتل کیوں کرتا ہے؟

ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ برِصغیر کے جاگیرداری نظام میں عورت کا اپنا کوئی مقام نہیں تھا۔ معاشرے میں طبقہءِ امرا کا پسندیدہ مشغلہ حرم میں عورتیں جمع کرنا اور ان کی وفاداریاں قائم رکھنا تھا۔ اونچے چوبارے، پالکیاں، خواجہ سرا، زنان خانے اور چوکیدار ایک ایسے سماج کی باقیات ہیں جہاں عورت سونا چاندی، زمین و جاگیر اور شاہی القابات کی طرح مرد کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔

عوام الناس نے ان روایات کو زیادہ تسلیم نہیں کیا کیونکہ زرعی ماحول میں جہاں عورت کو کھیتوں میں کام کرنا پڑتا تھا، چادر اور چار دیواری کی بندشیوں بوجھ بن جاتی تھیں۔ ہیر رانجھا، سسی پنہوں، سوہنی مہیوال کی کہانیاں اسی لیے غیرت کی کہانیاں نہیں کیونکہ وہ جس معاشرے کی نمائندگی کرتی تھیں وہ مشقت کرنے والی عورتوں کا معاشرہ تھا۔

برصغیر کی وہ اشرافیہ روایات جن میں غیرت، ناموس، شرافت اور خاندان کے تصورات شامل ہیں، مغلوں، نوابوں، ملکوں اور راجاؤں کی سرپرستی میں پروان چڑھیں۔ ونی ‪, کاروکاری، غیرت اور ناموس، یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے مرد نے اپنی ملکیت کی حفاظت کی۔

مزید پڑھیے: میرے دیس کی خانزادیاں

ان روایات کو نقصان پہنچانے والی عورتوں پر کبھی مذہبی تاولیوں سے، کبھی سماجی دلیلوں سے اور کبھی انفرادی تدبیروں سے تشدد کا جواز پیدا کیا گیا۔ مغربی افکار کی آمد اور انگریزی نظام نے ان 'مشرقی' اقدار کو نقصان پہنچانا شروع کیا تو ایک مزاحمتی تحریک شروع ہوئی جس میں مختلف الخیال اشرافیہ متحد تھے۔

اپنے سر سید احمد خان صاحب بھی جہاں لڑکوں کے لیے اتنا کچھ بنا گیے، وہاں لڑکیوں کے باب میں یہی کہہ گئے کہ وہ جدید دور کی 'نامناسب کتابیں' نہ پڑھیں تو بہتر ہے۔ ہمارے اشرافیائی نظریہ سازوں نے مغربی تعلیم کو اپنے لیے اور دوسرے مردوں کے لیے تو پسند کیا ہے، لیکن عورت کو مغربی تعلیم اور سماجی آزادی سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

یہ مزاحمتی تحریک قیامِ پاکستان کے بعد ایک عمومی مذہبی رجحان اور ضیاء دور میں کھل کر ابھرنے والی رجعت پسندی کا حصہ بنی۔ اگر آپ 70 کی دہائی کا 80 کی دہائی سے اور 80 کی دہائی کا 90 کی دہائی سے موازنہ کریں، تو آپ کو کچھ جگہوں کو چھوڑ کر عمومی طور پر معاشرے میں عورتوں کی آزادی اور ان کے بارے میں رویوں میں تنزلی نظر آئے گی۔ غیرت جو اشرافیہ کی نمائندہ تھی، عوامی رویوں میں شامل ہوتی گئی۔

آج کے متوسط طبقے کا مرد ماضی کے مرد کے مقابلے میں اپنی غیرت کے امور میں زیادہ فکر مند ہے۔ انٹرنیٹ، کیبل اور موبائل فون کی صورت میں اسے ایک ایسا سیلاب نظر آتا ہے جہاں عزتوں کی حفاظت چابکدستی سے ہی ممکن ہے، اور جہاں کوئی سانحہ ہو جائے، وہاں بچے کھچے خاندان کی بقا اسی میں نظر آتی ہے کہ وہ اس چیز کو ہی نقصان پہنچا دے جس نے اس کی ساکھ متاثر کی۔

مزید پڑھیے: پنجاب: قتل تنازع حل کرنے کیلئے 9 سالہ بچی ’ونی‘

ہم جتنا چاہیں غیرت اور اس کے نام پر ہونے والے تشدد کو مخبوط الحواسی یا جذباتی پن سے تشبیہ دیں، یہ ہماری ان سماجی الجھنوں کی پیداوار ہے جہاں عورتوں کے لیے آزادیء عمل کے مواقع بڑھنے کے ساتھ ساتھ مردوں کا عدم تحفظ بھی پروان چڑھ رہا ہے۔

اور بات پردہ اور شرم و حیا کی نہیں ہو رہی۔ بات ہو رہی ہے اس مردانہ شاؤینزم کی جو غیرت اور اس سے ملتے جلتے ناموں کے ذریعے عورتوں کا استحصال کر رہی ہے۔ یہ کبھی بھی مرد کو مورد الزام نہیں ٹھراتی، کبھی اسے سزا نہیں سناتی، کبھی اس کا مقاطعہ نہیں کرتی بلکہ اپنے ہر عمل کا ذمہ دار عورت کو ٹھہراتی ہے۔

لڑکی کے ریپ کا ذمہ دار مرد نہیں، خود عورت۔

لڑکی پر تشدد کا ذمہ دار مرد نہیں، خود عورت۔

غیرت کے نام پر لڑکی کے قتل کا ذمہ دار مرد نہیں، خود عورت۔

رہا قانون کا سوال، تو جس نے قتل کیا ہے اس کو تو ضرور سزا ملنی چاہیے۔ مگر کیا ہے کوئی ایسی عدالت جو اس معاشرے کو سزا سنا سکے جس نے قاتل کو اس قتل کے لیے وجہ فراہم کی، اسے ذہنی طور پر تیار کیا اور آخر میں اس قتل پر نیم رضامندی ظاہر کی؟

جس دن ایسی کسی عدالت میں اس معاشرے کا احتساب ہو گیا، اس دن غیرت کے نام پر قاتلوں کے ہاتھوں معصوموں کی دھڑا دھڑ لاشیں گرنی بند ہوجائیں گی۔

اختر عباس

اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔