پھر ہمیں قتل ہو آئیں، یارو چلو
سردار سورن سنگھ کو جب بھی دیکھا مجھے میرے دادا یاد آئے۔
دادا کہا کرتے تھے کہ سکھ بڑی جی دار قوم ہیں۔ دل سے دوستی کرتے ہیں اور دل سے ہی دشمنی۔ دادا دیوسائی کے آخری کونے میں واقع گاؤں چلم میں جوان ہوئے۔ شاہراہِ قراقرم تو بہت دیر بعد کہیں بنی ہے، ان دنوں استور کا دنیا سے رابطہ ڈوگرہ کشمیر کے ذریعے ہی تھا۔
گرمیوں میں گھوڑوں پر گھی اور اون سے بنی چیزیں لاد کر لے جاتے اور جس طرح آج کل امیر لوگ یورپ سے لیپ ٹاپس کا نیا ماڈل لاتے ہیں، اسی طرح واپسی پر چاول، نمک اور شکر لے آتے۔
بڑے ہوئے تو نصاب کی کتابوں میں جہاں تقسیم کے وقت سکھوں کے مظالم کا سنا، وہاں وہاں مجھے اپنے دادا کا وہ قصہ بھی یاد رہا جب اسکردو چھاؤنی کے سکوت کے بعد ڈوگرہ بچوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہیں تو اپنی ماؤں کے ساتھ ہندوستان چلے جائیں، یا چاہیں تو اپنے شکست خوردہ باپوں کے ساتھ کھرپوچو کے نیچے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دیں۔
جب ہم لاہور آئے تو وہاں پر دور درشن چینل آیا کرتا تھا۔ غالباً ہفتے کی رات کو چتر ہار لگتا تھا اور اتوار کی شام ہندی فیچر فلم۔ چوری چوری دیکھتے ایک بات جان لی۔ سکھوں کا تلفظ میرے فیصل آباد اور ساہیوال کے دوستوں کے تلفظ جیسا ہی ہے۔ برسوں بعد اسی بات پر بیگم سے شرط لگی اور نیاگرا فالز کے قریب ایک سکھ کے ساتھ پنجابی بول کے جیت بھی لی۔
اسکول کی لائبریری سے تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو رنجیت سنگھ کے بارے میں وہ کچھ سن لیا جو سوال کرنے کے بعد بھی کبھی کسی ٹیچر نے نہیں بتایا تھا۔ پنجاب کے اس بہترین منتظم کی حکومت پشاور تک تھی اور اس کے مشیروں میں مسلمان بھی شامل تھے۔ مگر مطالعہء پاکستان کے نصاب میں سید احمد خان کی کامیاب اسلامی حکومت کا تذکرہ تھا۔ سبق تو یاد کر لیا کہ نمبر بھی اچھے لانے تھے، مگر دل سکھ ریاست کی تباہی اور انگریز سرکار کی کمائی کا حساب ہی لگاتا رہ گیا۔
کچھ سال جب بیساکھی کے میلے میں ہندوستان سے سکھ یاتریوں کے آنے کا سنا تو گرو نانک کی باتیں کھوجنی شروع کیں۔ مکہ مدینہ گئے تھے، کعبہ کے سامنے بھی بیٹھے تھے، وہاں نعتیں بھی کہی تھی۔ اس کے بعد بلھے شاہ اور بابا فرید کو جب بھی سنا تو یہی سمجھا کہ سکھوں کی گرنتھ صاحب میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں ہوں گی۔ گرونانک چلے گئے اور ان کے جانشینوں کو کبھی کسی مغل حکمران نے بغاوت کے جرم میں مار دیا تو کسی نے دین سے انحراف کے جرم میں۔ گرو ارجن سنگھ، گرو گوبند سنگھ، تیغ سنگھ، بڑے سورما گزرے ہیں اس بہادر قوم میں۔
رنجیت سنگھ کی باقی نشانیوں میں سے ایک نشانی ان سکھوں کی صورت میں ہے جو سینکڑوں سال سے پشاور اور پشتو بولنے والے دیگر علاقوں میں آباد ہیں۔ گردوارے کم زیادہ ہوتے رہے، خطرے بڑھتے گھٹتے رہے, مگر سکھوں نے اپنا علاقہ نہ چھوڑا۔ سردار سورن سنگھ سے میں ملا تو نہیں، مگر ان کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ پی ٹی آئی کے جذباتی کارکن تھے۔ پہلے جماعت اسلامی میں تھے۔ گھوڑے پر بیٹھے سبز جھنڈا اٹھائے بہت اچھے لگتے تھے۔ خالصتان کی حمایت کرنے والی اور دہشت گردی سے لڑنے والی ہماری سرکار کو اچھی تصویروں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ ان دنوں ایک گھوڑے پر بیٹھے سورن سنگھ اور ایک سکھ کپتان فیس بک پر بہت نظر آتے تھے۔۔ اقبال نے ہندوستان کے بارے میں کہا تھا کہ
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
معلوم نہیں کہ سکھ شاعروں کو پاکستان میں سکھ مذہب آزاد نظر آیا کہ نہیں۔ ویسے بھی جہاں نسلی مسلمانوں کی اسلام کی ڈگریاں جعلی قرار دی جانے لگیں، وہاں کس کو یاد رہے کہ کون سا گردوارہ کتنے سال سے بند پڑا ہے۔ جہاں اکثریت کے پردے سلامت نہ ہوں، وہاں اقلیت اپنی بیٹیوں کے مذہب تبدیل کر لینے کو بارش میں ٹپکتی چھت کی طرح تسلیم کر لیتی ہے۔
سورن سنگھ مگر دھن کے پکے نکلے۔ قرآن کے بوسیدہ ورق اکٹھا کرنے کے لیے ڈبے رکھوائے، نعتیں پڑھیں، حسین کے عزاداروں کو پانی پلایا کہ گرو کی تلقین تھی۔ یہ سورن سنگھ کا عزم تھا کہ 70 سال سے بند پشاور کا گردوارہ بھی کھل گیا۔ ہندوستان سے آتے سکھوں کو جتانے کے لیے ہمارے پاس ایک اور موقع، پاکستان میں مذہبی اقلیتیں کتنی آزاد ہیں، اس حوالے سے مقرروں کی دلیلوں میں ایک دلیل کا اضافہ۔
مگر جس سوچ نے گرو گوبند سنگھ اور گرو ارجن سنگھ کو مارا تھا، وہی سوچ سورن سنگھ کو بھی مار گئی۔ ویسے تو خیبر پختونخواہ کی پولیس کا کہنا ہے کہ سورن سنگھ کو پی ٹی آئی کے اپنے ایک ممبر نے مارا ہے، اس فون کال کا مگر کیا جائے جو تحریک طالبان نے کی تھی۔ دست قاتل جو بھی ہو، گھوڑے پر سبز ہلالی پرچم لہراتا سورن سنگھ کل چتا کی آگ میں جل کر امر ہوگیا۔
پڑھیے: سورن سنگھ کے قتل کے الزام میں پی ٹی آئی عہدیدار گرفتار
تعزیتی بیانات تو ٹھیک ہیں مگر جماعتِ اسلامی کو چاہیے تھا کہ اس کی چتا میں ذرا کھل کے شریک ہو جاتے۔ آخر ان کے ممبر رہ چکے تھے۔ اقلیتوں کے بارے میں سوچنا چاہیے چاہے وہ آپ کی پارٹی کے اقلیتی ونگ میں شامل نہ بھی ہوں۔ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ نے شرکت تو کی، یوم تاسیس کے جلسے میں ایک تصویر بھی لگوائی لیکن اگرناچ گانا نہ ہوتا تو اچھا ہوتا۔ سوگ کے ایام میں ناچ گانا اچھا نہیں لگتا۔ اگر اس کے قاتلوں کی طرف ذرا کھل کے اشارہ کر دیتے تو شاید بہت سے سورن سنگھ بچ جاتے۔ دادا سچ کہتے تھے۔ سکھ دل سے محبت کرتا ہے اور دل سے نفرت۔ اچھا ہوتا اگر ہم اس محبت کا مان رکھ لیتے۔
لیکن کیا کیا جائے کہ ہم سورن سنگھ کو بھی بھول جائیں گے، جیسے ہم مولانا حسن جان، مولانا سرفراز نعیمی، شہباز بھٹی اور علامہ حسن ترابی کو بھول گئے۔ جیسے ہم آرمی پبلک اسکول، گلشن اقبال، مون مارکیٹ، نشتر پارک اور سینکڑوں ایسے واقعات کے شہیدوں کو بھول گئے ہیں۔
ہمارے بزدلوں کی عمریں طویل ہیں اور بہادروں کی کم۔ ہم وہ بیوہ ہیں جس کی عدت 24 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ سورن سنگھ چلا گیا تو لازم ہے کہ ہم کوئی نیا بہانہ تلاش لیں زندہ رہنے کا۔ اگلے سانحے تک ہم ناچ گا لیں۔ زندہ نہ صحیح، زندوں کی اچھی اداکاری ہی کر لیں۔
اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔