سی ایس ایس کا فرسودہ نظام
آج کل مستقبل کے سول سرونٹس کے انتخاب کے لیے سول سپیریئر سروس (سی ایس ایس) کے امتحانات جاری ہیں۔
ذرا سوچیں، کتنی عجیب بات ہوگی اگر اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے سوئمنگ ٹیم کا انتخاب تقریباً ایک سال تک تیرنے کی تربیت حاصل کرنے والے افراد میں سے کرنے کے بجائے اس بنیاد پر کیا جائے کہ کون گلوبل وارمنگ پر بہترین مضمون لکھ سکتا ہے؟
میرٹ یقینی بنانے کا مطلب غلط معیار ترتیب دینا اور اس پر لازماً عمل کروانا نہیں بلکہ یہ معیار بنانے سے لے کر اس پر عمل تک ایسی حکمت عملی ہونی چاہیے جس میں میرٹ برقرار رہے۔ کچھ ایسا ہی پاکستان میں سول سرونٹس کے انتخاب کے دوران ہوتا ہے۔
چاہے آپ ملازمت کے لیے کتنے ہی نااہل کیوں نہ ہوں، اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ ایک ہمہ گیر قسم کے امتحان میں آپ اچھے نمبر حاصل کرلیں جو کہ آپ کو جاب کی وضاحت سے پہلے پاس کرنا پڑتا ہے۔ نفسیاتی جانچ اور انٹرویو کا مرحلہ بھی ہوتا ہے، لیکن کسی خاص سروس گروپ کے لیے کسی کی صلاحیت کو جاننے کے لیے یہ سب کرنا ناکافی ہے۔
زیادہ سے زیادہ یہ صرف اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہے کہ وہ شخص سرکاری ملازمت کے لیے مکمل طور نااہل نہیں ہے۔
آپ کو سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ سروس گروپ میں تقرری کا معیار زیادہ تر امتحانی نتائج میں آپ کی درجہ بندی پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ فوج سے کرتے ہیں جہاں مختلف گروپس میں تقرری زیادہ تر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں دو سالہ تربیت کے دوران کارکردگی کو دیکھ کر کی جاتی ہے۔ کسی فرد میں موجود صلاحیتوں کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا عرصہ کافی ہوتا ہے۔
کامن ٹریننگ پروگرام (سی ٹی پی) — جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کورس کا سویلین متوازی ہے — میں معیار کو جانچنے کا نظام تو موجود ہے لیکن پہلی بات تو یہ کہ یہ اتنا جامع نہیں، اور دوسرا یہ کہ ایک سول سرونٹ کے کریئر پر یہ انتہائی کم اثرانداز ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سی ٹی پی میں شرکت کرنے والے نوجوان تربیت سے بہت کم متاثر ہوتے ہیں اور سی ایس ایس کو اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کرنے کے لیے کی گئی کڑی محنت کے بعد سی ٹی پی کو آرام کرنے کا وقت سمجھتے ہیں۔ شاید ہی کبھی کسی سول سرونٹ کو ٹریننگ میں ناکامی پر سروس سے برطرف کیا گیا ہو۔
وہ جیسے ہی کامن ٹریننگ پروگرام میں قدم رکھتے ہیں تو خود کو ملنے والے گروپ کے حساب سے ان کے اندر خود بخود احساسِ برتری پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے، اور سیکھنے کا عمل وہیں رک جاتا ہے۔ یہاں سے آگے صرف ڈھلوان ہوتی ہے۔ جس سروس گروپ میں آپ شامل ہوں، اس کے مالی فوائد کے حساب سے نصب العین کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ’سیکھنے کے لیے داخل ہوں، نکل کر حکمرانی کریں‘ یا پھر ’سیکھنے کے لیے داخل ہوں، اور نکل کر لوٹیں۔‘
سی ایس ایس صرف داخلے کا امتحان ہے۔ مگر کیا ہمارے پاس اس امتحان کے ذریعے یہ یقینی بنانے کا کوئی ایسا نظام ہے کہ محکمہ خارجہ میں صرف ایسے لوگ بھیجے جائیں جو ڈپلومیسی کا ہنر رکھتے ہوں، اور اپنے آپ میں مگن رہنے والے تنہائی پسند شخص کو اس گروپ میں نہ بھیجا جائے، یا ریاضی سے گھبراہٹ کے شکار شخص کو ریوینیو سروس میں ساری زندگی ٹیکس کے حساب کتاب کرنے کی سزا کاٹنے کے لیے نہ بھیج دیا جائے؟
یقیناً سول سروس کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری محکمہ میں وہی شخص بھیجا جائے، جو اس کی قابلیت رکھتا ہو۔
اس کا حل کچھ ایسا ہونا چاہیے: گروپ کا اطلاق سی ایس ایس امتحان کے فوراً بعد نہیں ہونا چاہیے۔ تمام امیدواروں کو خط بھیجا جانا چاہیے جس میں لکھا ہو کہ انہوں نے سول سروس کا داخلہ امتحان پاس کر لیا ہے اور اب ان کی تربیت شروع ہوگی، اور تربیت مکمل نہ کرنے کی صورت میں انہیں سروس سے برطرف کر دیا جائے گا۔ اس سے امیدواروں میں ضروری نظم و ضبط اور سنجیدگی پیدا ہو پائے گی۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ 70 کی دہائی میں سروس گروپ میں تقرر ٹریننگ کے بعد کیا جاتا تھا مگر ذاتی تعصب شامل ہونے کے امکان کے بعد اس طرزِ عمل کو ختم کردیا گیا۔ صحیح طرزِ عمل پر خراب عملدرآمد کو بہتر بنانے کے بجائے صحیح عمل کو چھوڑ دینا ہمارا ہمیشہ کا مسئلہ رہا ہے۔
ہر سروس گروپ میں سے ایک ممبر کو شامل کر کے 12 ممبران پر مشتمل کمیٹی کو تربیتی کورس کے دوران امیدواروں کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور مختلف زاویوں سے ان کی جانچ کرنی چاہیے، جس میں تعلیمی کارکردگی، ذاتی رویہ، متعلقہ تعلیمی پس منظر اور ٹریننگ میں کارکردگی کے علاوہ بھی کئی عوامل ہوسکتے ہیں۔
اس کمیٹی کے تمام ممبران سینیارٹی کی یکساں سطح پر ہوں اور سروس میں ایک جتنا تجربہ بھی رکھتے ہوں تاکہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر نہ اثر انداز ہوسکے اور نہ ہی کسی کی بات ماننے کا پابند ہو۔ اس ہموار انتظامی ڈھانچے سے یہ ممکن بنایا جاسکے گا کہ کوئی بھی دوسرے پر اثرانداز نہ ہوسکے۔ اس طرح آپ سرکاری شعبوں کی اہم ترین ملازمتوں کے لیے بہترین لوگوں کو منتخب کر پائیں گے۔
آخر میں عاجزی کے ساتھ یہ یاد دلاتا چلوں کہ یہ اس اہم مسئلے پر محض ایک سوچ ہے: کسی بھی مسئلے کے کئی حل ممکن ہوسکتے ہیں مگر مسئلے کے حل کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ ہمیں اس مسئلے کے ہونے کا احساس ہونا چاہیے۔
لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 فروری 2016 کو شائع ہوا۔
لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں.ان کا ای میل ایڈریس syedsaadatwrites@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔