کیا قائدِ اعظم مادری زبانوں کے خلاف تھے؟
اقبال و جناح کے حامیوں و مخالفین نے گذشتہ 6 دہائیوں سے دونوں رہنماﺅں کے حوالے سے کچھ ایسی گمراہیاں پھیلائی ہیں کہ ان کے اصل خیالات و افکار سے رجوع کرنے کی ضرورت جتنی آج ہے اُتنی کبھی نہ تھی۔
میں جس خاندان میں پیدا ہوا وہاں مسلم لیگ پر تنقید رواج کا حصّہ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتب بھی گھر میں موجود تھیں اور ان کی بڑی سی تصویر بھی ڈرائنگ روم میں آویزاں تھی۔ البتہ اسکول میں جو نصابی کتب پڑھیں ان میں اک دوسرا بیانیہ پڑھنے کو ملا جسے سرکاری بیانیہ کہنا غلط نہ ہوگا۔
شاید یہ ان متحارب خیالات کی یلغار ہی تھی جس نے مجھے کتابیں پڑھنے پر لگا دیا اور بی ایس سی کرتے کرتے میں زیادہ تر وقت تاریخ و سیاسیات کی کتب پڑھنے میں صرف کرنے لگا۔
تاریخ کے مضمون میں دلچسپی پیدا کرنے میں کچھ حصّہ اے حمید کی کتب کا بھی تھا اور پھر بائیں بازو کے تڑکے نے اس کو مزید بڑھاوا دے ڈالا۔ سچ کی تلاش عقلیت (rationality) کی طرف بڑھنے کا پہلا پڑاﺅ ہوتا ہے۔ اس کی تلاش میں اگر رعونیت کا عنصر نمایاں ہوجائے تو علم کی طلب ماند پڑجاتی ہے۔ بس اسی سفر میں یہ عقدہ کھلا کہ کسی بھی شخصیت یا پارٹی کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنے سے قبل اس کے اصل بیانات و تحریروں کو اسی زبان میں پڑھنا لازم ہے جس میں متعلقہ شخص نے پہلی دفعہ لکھا یا کہا ہو۔
اس خیال نے میری دنیا ہی بدل دی۔ اگر آپ سرکاری و غیر سرکاری بیانیوں کو کھنگالنے کی ہمت کرسکیں تو نئے راستوں پر چلنا آپ کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ جس کسی نے بھی علامہ اقبال کے خطبہ الہٰ آباد 1930، قائداعظم کی مارچ 1948 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر اور پہلی تعلیمی کانفرنس منعقدہ نومبر 1947 (کراچی) کی رپورٹ جستہ جستہ پڑھی ہو تو وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہے گا کہ اقبال و جناح مادری زبانوں کو حرف غلط سمجھتے تھے۔
جسے اس ضمن میں زیادہ گہرائی سے پڑھنا ہو وہ فارسی کے خاتمے (1837)، ہندی اُردو جھگڑے اور تامل ہندی جھگڑوں کے ساتھ ساتھ ووڈز ڈسپیچ (1854) اور پنجاب میں دیسی تعلیم کے بارے میں لائٹنر کی رپورٹ (1882) کا بھی مطالعہ کر لے تو اسے زبانوں، لہجوں اور رسوم الخط کے حوالے سے کھیلے جانے والے نو آبادیاتی کھیل کا بھی پتہ چل جائے گا اور وہ ایک قومی نظریہ سے دو قومی نظریہ کی سیاست سے بھی آگاہ ہوجائے گا۔
خطبہ الہٰ آباد میں تو اقبال نے ہندوستان بھر میں بولی جانے والی زبانوں کے احترام کے حق میں دلائل دیے تھے۔ جبکہ 24 مارچ 1948 کی تقریر کے متن کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ خود قائداعظم اُردو کو رابطہ کی زبان (Lingua Franca) کہنے سے پہلے یہ بات بھی کہہ گئے تھے کہ”صوبے میں سرکاری استعمال کے لیے اس صوبہ کے عوام جو زبان چاہتے ہیں اس کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ اس کا فیصلہ صرف اور صرف اس صوبہ کے عوام ہی کریں گے۔“
رابطہ کی زبان اور واحد قومی زبان میں جو فرق ہے اسے بعد ازاں بوجوہ ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ قائداعظم کی زندگی ہی میں پاکستان بننے کے صرف 45 دن بعد کراچی میں پہلی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم جناب فضل الرحمان نے طویل تقریر کرتے ہوئے اس بات کا واضح اعلان کیا تھا کہ پاکستانی ثقافت کو بنانے میں کلیدی کردار پاکستان بنانے والے صوبوں میں موجود مادری زبانوں، ان سے وابستہ ثقافتوں اور ان کے تاریخی تسلسل کا ہوگا۔
یہ پہلی تعلیمی کانفرنس تھی اور اس میں ہونے والی بنیادی تقریر کا متن اخبارات میں شائع ہوا مگر قائداعظم نے کبھی اس پر اعتراض نہ کیا۔ یہ درست ہے کہ قائداعظم کی وفات کے محض 6 ماہ بعد قرار داد مقاصد کے عنوان سے جو نئی سیاست شروع کی گئی اس کا بیانیہ یکسر مختلف تھا۔ اس بیانیے کا فائدہ حکمرانوں مگر نقصان اُردو زبان کو ہوا کہ اُردو 1949 کے بعد پاکستانی علاقوں میں متنازع ہوتی گئی۔
اُردو کے حمایتیوں اور مخالفین نے اقبال و جناح کی تحریروں کو اپنے تعصبات کی نذر کیا۔ مسئلہ اس وقت زیادہ خراب ہوا جب 1954 میں محمد علی فارمولا کے تحت پاکستانی زبانوں کی رنگارنگی کو تسلیم کرنے کی بجائے اُردو اور بنگالی کو قومی زبانیں قرار دے ڈالا گیا۔
اُردو اور مادری زبانوں میں تکرار کا اصل فائدہ انگریزی زبان کی حاکمیت کو ہوا جو تادم تحریر قائم و دائم ہے۔ اگر 1958 میں ایوبی مارشل لاء نہ آتا اور اسمبلیاں چلتی رہتیں تو سیاستدان اس درینہ مسئلہ کو حل کر لیتے۔ 1973 کے آئین میں آرٹیکل 251 کے ذریعے انگریزی کی حاکمیت، اُردو کے کردار اور مادری زبانوں کے حوالہ سے پہلا قدم اٹھایا گیا مگر یہ آئین 5 جولائی 1977 کو معطل کردیا گیا۔
سونے پر سہاگہ ضیا الحق نے چڑھایا اور زبانوں کے ساتھ ساتھ لہجوں کی لڑائیوں کو بھی سیاست کا حصّہ بنایا گیا۔ ضیاء دور میں جب انگریزی میڈیم اسکولوں کی یلغار ہوئی تو زبان کا مسئلہ اور زیادہ گھمبیر ہوگیا۔ انگریزی زبان کی بین الاقوامی اہمیت سے تو کسی کو انکار نہیں مگر یہاں مسئلہ انگریزی زبان کی حاکمیت کا ہے جسے ضیا شاہی کے بعد پاکستان کا مقدر بنادیا گیا۔
رہی سہی کسر آخری ڈکٹیٹر نے پوری کردی۔ پرویز مشرف کے دور میں تو انگریزی زبان پہلی جماعت سے نافذ کرنے کا حکم بھی آگیا تھا کہ یہ سب زبانوں کے حوالہ سے ہماری مبہم پالیسیوں کا احوال ہے۔ ایک زبان، ایک مذہب اور مرکزیت پسندی کے بیانیے کی حمایت یا مخالفت میں جو دانشور اقبال و جناح کے بیانات سے کھیلتے رہے ہیں انھوں نے بھی زبانوں کے مسئلہ کو بگاڑنے میں اپنا حصّہ خوب ڈالا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک پارلیمانی کمیشن کے ذریعے اُردو، انگریزی اور پاکستانی مادری زبانوں کے دیرینہ مسئلے کو حل کیا جائے۔ بصورت دیگر ہم ”لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ“ کی عملی تصویر بنے رہیں گے۔
21 فروری مادری زبانوں کا عالمی دن ہے.
عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔