شکریہ راحیل شریف، مگر...
میں اپنے بچوں کو اسکول اور یونیورسٹی پڑھنے کے لیے بھیجتا ہوں۔ مجھے دکھ ہوتا ہے جب میرے بچے دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد یہ جملہ بولتے ہیں کہ "ہمارے حوصلے بلند ہیں"، "ہم بزدل دہشت گردوں سے نہیں ڈرتے"۔
مجھے دکھ ہوتا ہے جب دس بارہ سال کے بچے دہشت گردی کی واردات کے بعد یک لخت بڑے بن جاتے ہیں، ان کی معصومیت کہیں دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔ مجھے افسوس بھی ہوتا ہے کہ کیوں، آخر کیوں حملہ آور حملہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں تو سکیورٹی پر سوال اُٹھنا بنتا ہے۔
اس سوال کا جواب بھی کئی جگہ اور کئی طرح سے آتا ہے۔ مشہور زمانہ کہ "ہم حالتِ جنگ میں ہیں"، "دہشت گرد بزدل ہیں، چھپ کر کارروائی کرتے ہیں"، "نہتے اور معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں"، یا پھر یہ کہ "یہ سب تو آپریشن ضربِ عضب کا رد عمل ہے۔"
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین افواج ہیں، جو دشمن کا مقابلہ کرنا جانتی ہیں، ہمارے جوان اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں جو ان کا فرض بھی ہے۔ اب تک ہمارے کئی جوان اس آپریشن کی نذر ہو چکے ہیں اور کئی معصوم جانیں اس راہ میں جاں بحق ہو چکی ہیں۔
آپریشن کامیابی سے جاری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن پاکستان میں قیام امن کے لیے ناگزیر ہے. اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنی صلاحیتوں کو اپنی ایمانداری اور لگن سے منوایا ہے۔ مگر یہ سب تو ان کے فرائضِ منصبی میں شامل ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ وہ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، بلکہ شاید اپنے فرائض سے بڑھ کر ہی کام کر رہے ہیں۔
پڑھیے: مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجاؤں گا، آرمی چیف
میں ایک صحافی ہوں اور اپنے سوالات پر کبھی کسی سے گھٹیا کا خطاب سنتا ہوں تو کہیں کوئی وزیر میرے سوال پر بول دیتا ہے کہ اس کو نوکری کس نے دی؟ میں اپنی ملازمت ایمانداری سے کرتا ہوں، اور جو کام کرتا ہوں اس کی تنخواہ اور مراعات ہر ماہ پاتا ہوں۔ پاکستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے میں سوچتا ہوں کہ آرمی چیف خود کیسے ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کچھ کہہ سکتے ہیں؟ کیا یہ آرمی چیف کے عہدے کا مینڈیٹ ہے؟ کیا ملازمت میں توسیع یا کمی کا صوابدیدی اختیار وزیر اعظم کے پاس نہیں؟
میں یہ تسلیم کرتا ہوں، اور اس بات پر آپ (جنرل راحیل شریف) کی ایمان داری کی تعریف بھی کرتا ہوں کہ آپ نے جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ مگر مجھے سیاسی قیادت بہت کمزور نظر آتی ہے۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ملک میں جاری دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے درست اقدامات کیے اور ان کو جاری رکھنے کے لیے اپنے ماتحت افسروں پر اعتماد کرتے ہوئے توسیع نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ آپ کا سچ میں شکریہ! مگر کیا ہے کہ یہ قوم اس رویے کی عادی نہیں اور ملک بھر کے تجزیہ کار اپنے اپنے حساب سے نکتہ چیں ہیں۔ دور کی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں کہ جناب یہ فیصلہ قبل از وقت ہے، عوام کے بے حد اصرار پر واپس لیا جا سکتا ہے، ملک بھر کی سیاسی جماعتیں خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے آپ کے اس فیصلے پر شکریہ ادا کر رہی ہیں، اور دہشت گرد آپ کے جانے کا سن کر شکر ادا کر رہے ہیں۔
جانیے: اگلا آرمی چیف کون ہو سکتا ہے؟
میں بھی آپ کے اقدامات پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مگر سوچتا ہوں کہ میرے ملک میں وہ دن کب آئے گا جب فوج کے سربراہ کی تبدیلی اور آنا جانا صرف ایک خبر ہو گا: سپ سالار اپنے مخصوص وقت پر آئے اور اپنے وقت پر رخصت ہو جائے اور پالیسیاں ہر لحاظ سے اپنی درست سمت میں چلتی رہیں۔
میں نہیں جانتا کہ آنے والے چار چھ ماہ ملک میں کیا تبدیلی لے کر آئیں گے۔ میں نہیں جانتا کہ عوامی دباؤ اور شکریہ کے وظیفے میں کتنی طاقت ہے جو لفظوں کو پلٹا دے۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اُس وقت بھی کیا آپ کا فیصلہ یہ ہی ہو گا یا نہیں؟
مگر میری خواہش ہے کہ آپ نے ایمانداری سے جو کام کیے ہیں ان کا تسلسل ملک سے دہشت گردی کے خاتمے تک برقرار رہے۔ میری خواہش ہے کہ فوج کی باگ ڈور ہاتھ میں لینے والے نئے سربراہ اس تسلسل کو آپ کی طرح ہی قائم رکھیں۔ میری خواہش ہے کہ کوئی شہری اپنے چیف کا صرف شکریہ ہی ادا نہ کرے بلکہ اعتماد کے ساتھ اس سے سوال بھی کر سکے۔
محترم آرمی چیف جناب راحیل شریف صاحب، کیا آپ اس شہری کا یہ اعتماد قائم رکھیں گے؟
منصور احمد خان صحافت کے شعبے سےتعلق رکھتے ہیں اور ڈان نیوز ٹی وی سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔