نقطہ نظر

طلبا اپنی زبانیں بند رکھیں

طلبا کو تدریسی اوقات کے علاوہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر سزا دینا کسی بھی طرح قانونی نہیں ہو سکتا۔

اگر ہمیں آف لائن آزادی اظہار کا حق پوری طرح حاصل نہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس ڈیجیٹل دور میں بھی آزادی اظہار کے خلاف کارروائیوں پر کوئی احتجاج نہ کریں، خاص طور پر جب بات ہمارے طلباء کی ہو۔

تدریسی ماحول دینے کے ساتھ انہیں کسی سزا کے خوف کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی سکھایا جانا چاہیے۔

اسی لیے جب کسی طالب علم کو یونیورسٹی کی منعقدہ تقریب کے خلاف تبصرہ کرنے پر نکال دیا جائے، تو یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

یہ کوئی اکلوتا معاملہ نہیں بلکہ پچھلے کچھ مہینوں میں نجی اداروں اور کالجوں میں ایسے طلبا جو محض مختلف طریقوں سے، جس میں لباس سے لے کر کیمپس میں متنازع شخصیات کو دعوت دینا شامل ہے، اپنی آزادی اظہار کو ظاہر کر رہے تھے، ان کو ادارے سے نکال دیا گیا۔

اس بار پی ایچ ڈی کے طالب علم کاشان حیدر گیلانی کو فیس بک پر کسان میلے کے بارے میں تنقیدی تبصرہ تحریر کرنے پر نکال دیا گیا۔ اپنی مرضی کے تحت کیے گئے اس بے ضرر فعل کی اتنی سخت سزا کے بارے میں اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ غفلتوں کی نشاندہی کرنے والے کے خلاف، طاقت اور برتری کو استعمال کرتے ہوئے سخت کاروائی کی جاتی ہے۔

کاشان پر یونیورسٹی بدنام کرنے کا الزام لگایا گیا اور ادارے کی ساکھ کو ٹھیس پہنچانے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا، جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ادارے کی ناموس اتنی ہی کمزور ہے کہ ایک تبصرے سے خراب ہوجائے۔

طلبا کو تدریسی اوقات کے علاوہ، ذاتی عمارت میں بیٹھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر سزا دیا جانا، اتنا وسیع اور سخت کنٹرول ہے کہ یہ کسی بھی طرح قانونی نہیں ہو سکتا۔

آئین پاکستان کی شق 19 اظہار رائے کی آزادی دیتی ہے، بھلے ہی اس میں کئی شرائط موجود ہیں۔ تعلیمی میدان میں داخل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ طلبا اپنی شہری حقوق سے دستبردار ہوجائیں اور اظہار کی آزادی گنوا بیٹھیں۔ بلکہ طلبا کے لیے اس حق کا استعمال اور بھی اہمیت کا حامل ہے۔

اداروں میں آزاد خیال رکھنے والوں اور آواز اٹھانے والوں کو ڈرانے، دھمکانے اور سزا دینے کا رجحان اتنا زیادہ ہے کہ خراب پالیسیوں اور ناقص خدمات پر اظہارِ رائے کی جگہ نہیں بچتی۔ تعلیمی اداروں کے احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مخالف آواز کا ہونا بجا طور پر ضروری ہے۔

اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسی حالت ہے تو معاشرے کے باقی حصوں جیسے حکومت اور سیاست میں کیا حالت ہوگی؟

سخت تنبیہہ، بے دخلیاں اور پابندیاں ہمارے معاشرے کی فطرت کا حصہ بن گئیں ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم مراحل پر اعتبار کرنے کے بجائے طاقت کے اظہار کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھ چکے ہیں۔

تقسیم ہند سے قبل علی گڑھ جیسے تعلیمی ادارے کارکنوں، مفکروں اور شاعروں کی افزائش کو فروغ دیتے تھے، اسی طرح یونیورسٹیوں نے پاکستان میں بھی رجعت پسند حکومتوں کے خلاف بھرپور طریقے سی مزاحمت میں مدد فراہم کی۔

ہم طلبا کو نظم و ضبط اور تعلیم پر توجہ رکھنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کا مہرہ بننے نہیں دے سکتے، لیکن ہمیں ان کو بحث کا حصہ ضرور بننے دینا چاہیے کیونکہ وہ بھی ہمارے لیے ایک با ضمیر اسٹیک ہولڈر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

قدیم ایتھنز کے بچے ہمیشہ مفکر اور فلسفی بننا چاہتے تھے، جو کوئی بھی اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک آپ کا استاد ذرا سی بھی تنقیدی سوچ یا معاشرتی رسم رواج اور اقدار پر سوال اٹھانے پر آپ کی پٹائی کر ڈالے۔

افسوس کے ساتھ ہمارے تعلیمی ادارے ایسے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جنہوں نے یہ شعبہ آخری چارے کے طور پر اپنایا، اور وہ اپنے علم کو اخلاقی برتری سمجھتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ صرف اطاعت چاہتے ہیں، جس میں سوال جواب کی گنجائش نہ ہو۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز طلبا کو اپنے حقوق بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ طلبا کی جانب سے کی گئی تنقید اور وضاحتوں کو ہماری آن لائن تحفظ کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں.

عائشہ سروری

عائشہ سروری اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: AishaFSarwari@

ان کا بلاگ :یہاں وزٹ کریں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔