نقطہ نظر

کیا صحت کارڈ ہی مسائل کا حل ہے؟

اس مالی مدد سے غریب سکھ کا سانس تو لیں گے، مگر اس سے پاکستان کے نظامِ صحت میں موجود بڑے مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔

چند دن قبل وزارتِ صحت نے ملک کے غریب شہریوں کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وزیرِ اعظم کارڈ کا اجراء ان افراد کے لیے ہوگا جو یومیہ دو سو روپے سے کم کماتے ہیں۔ ایک کارڈ میں فی کس پچاس ہزار روپے عام بیماریوں کے طبی معانے کے لیے مختص کیے جائیں گے، جن میں بخار، زکام، کھانسی، نزلہ اور ہیپاٹائیٹس شامل ہیں۔

اس کے علاوہ تین لاکھ روپے سنگین بیماریوں جیسے کہ بائی پاس، اینجیوپلاسٹی اور ڈائیلائسز کے لیے بھی فراہم کیے جائیں گے۔

اس مالی مدد سے غریب سکھ کا سانس تو لیں گے، مگر اس سے پاکستان کے نظامِ صحت میں موجود بڑے مسائل مثلاً ڈاکٹروں کی کمی اور غیر معیاری سہولیات (یا عدم دستیابی) حل نہیں ہو پائیں گے۔

پاکستان میں نظامِ صحت کا بنیادی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے، اکثر سرکاری ہسپتالوں میں اسٹاف کی کمی ہے، جبکہ وہاں موجود اسٹاف مریض کی نگہداشت، صفائی ستھرائی اور سامان کی دستیابی وغیرہ کا خیال نہیں رکھتا۔

ڈاکٹر نہیں تو علاج نہیں

مجھے یاد ہے کہ میں اپنے ایک عزیز کو اسلام آباد کے ایک سرکاری اسپتال لے کر گیا تھا، اور پھر میں نے بلیوں اور لال بیگوں کے درمیان ان کا علاج ہوتے ہوئے دیکھا۔

مریضوں کو بغیر تشخیص کیے غیر متعلقہ بیماری کے کمروں میں بھیجا جا رہا تھا، جبکہ طبی سہولیات تاخیر سے اور افراتفری کے عالم میں فراہم کی جارہی تھیں۔ جب میں نے وہاں موجود فزیشن کو آگاہ کیا کہ میں خود ایک ڈاکٹر ہوں اور مجھے بہتر معیار کی توقع ہے، تو جواب میں انہوں نے معذرت کی۔

پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

ان کے چہرے پر موجود ناامیدی اور پچھتاوے کی جو تصویر ابھر آئی تھی، اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔

ڈاکٹروں کی کمی اور مریضوں کی دیکھ بھال میں لاپرواہی کی وجہ سے غریبوں کو اکثر علاج میسر نہیں ہوپاتا، جس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی مرض کا بہتر علاج اس وقت ہی ممکن ہے جب مریض کی بروقت اور درست دیکھ بھال کی جائے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک مریض، جسے بیکٹیریل انفیکشن تھا، اور وقت پر اینٹی بائیوٹکس نہ ملنے کی وجہ سے اس کے اندرونی اعضاء ناکام ہوگئے تھے، جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ زخمی اعضاء والے مریضوں کی اگر فوراً سرجری نہ کی جائے، تو ان کی موت ہو سکتی ہے۔

دیہی پاکستان میں صحت سے متعلق ایک بڑا مسئلہ وقت پر علاج نہ ہونا ہے۔ صحت مراکز کے قریب نہ ہونے کی وجہ سے دیر سے تشخیص اور علاج معمول ہے۔ میرے ایک مریض کو وائرل ہیپاٹائیٹس تھا، مگر اسے اپنی بیماری کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ اسے جگر کی ناکامی اور آخری حد پر موجود بیماری کی تمام علامات کے ساتھ ایمرجنسی روم میں منتقل کردیا گیا۔ اس موقع پر اس کی حالت کے بارے میں پیشگوئی کرنا ممکن نہیں تھا اور مزید علاج کی گنجائش ہی نہیں بچی تھی۔

سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں اسٹاف انتہائی کم ہے۔ پاکستان اس وقت زچگی کے دوران ماں اور بچے کی موت کے حوالے سے سرفہرست ہے، جبکہ پھیلنے والی بیماریوں کے مریض بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ سب صحت کی ناکافی سہولیات کے باعث ہے۔
ہیلتھ کارڈ دینے سے پاکستان میں موجود ڈاکٹروں کی کمی، سہولیات سے عاری ہسپتال یا ہسپتالوں کی غیر معیاری صورتحال جیسے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ بہتر نظامِ صحت صرف ماہر ڈاکٹروں، صحت کی تعلیم اور بروقت علاج سے ہی ممکن ہے۔

مزید پڑھیے: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

کئی ڈاکٹر انتھک انداز میں مریضوں کی کثیر تعداد کا علاج کرتے ہیں، اور بالآخر تھک جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہر کسی کا علاج ممکن نہیں ہوپاتا۔ پاکستان میں ڈاکٹر میں موجود صلاحیتوں اور قابلیت کے بجائے اس کے تجربے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

اس غیر منصفانہ ماحول اور اسٹاف کی کمی کے باعث مریض کو بہتر طبی سہولیات مہیا نہیں ہوپاتیں۔ پاکستان میں مروج میڈیکل کی تعلیم کا معیار بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک جیسا نہیں ہے۔

ہیلتھ کارڈ کا اجراء صحیح سمت میں قدم ہے جس سے تمام شہریوں کو نجی ہسپتالوں تک رسائی حاصل کرنے کا موقع ملے گا، مگر حکومت کو اصل مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں مریضوں کی حالت بہتر نہیں ہوسکے گی۔

نظامِ صحت کی حالتِ زار کو کارڈ سے نہیں بلکہ ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی، نئے ہسپتالوں کی تعمیر، تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی موجودگی اور بروقت علاج سے ممکن بنایا جا سکتا ہے.

عارف محمود

عارف محمود میڈیکل ڈاکٹر ہیں، اور جنوب ایشیائی آرٹ، کلاسیکل میوزک، فوٹوگرافی، اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔