نقطہ نظر

کون سا کاروبار شروع کیا جائے؟

اگر آپ کے پاس سرمائے کی کمی ہے لیکن آپ کے اندر جذبہ موجود ہے تو خدمات کی فراہمی کا شعبہ بہترین ہے۔

یہ انٹرپرینیورشپ کی اہمیت کے بارے میں تین مضامین کی سیریز میں تیسرا اور آخری مضمون ہے۔ گذشتہ حصے یہاں ملاحظہ کریں۔


پاکستان میں کئی طرح کے کاروبار ہوتے ہیں، جن میں پیداوار، ڈسٹری بیوشن، سروسز، زراعت، درآمد/برآمد وغیرہ شامل ہیں۔ اگر آپ انٹرپرینیورشپ اختیار کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں تو آپ اپنی پسند کے کسی بھی شعبے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے انٹرپرینیورشپ کے فروغ کے لیے کئی سرکاری ادارے بھی قائم کر رکھے ہیں۔ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) بھی اس میں سے ایک ہے۔

سمیڈا کی ویب سائٹ پر آپ کو پاکستان میں ’’انٹرپرینیورشپ‘‘ کے بارے میں مزید معلومات مل سکتی ہیں۔ سمیڈا کی ویب سائٹ پر سب سے خاص چیز (جو میں نے محسوس کی) کچھ منصوبہ جات کی پری فزیبلٹی رپورٹس ہیں۔ ان کا مطالعہ ضرور کریں۔ میری رائے میں پری فزیبلٹی رپورٹ کے مطالعے سے آپ کو خود اپنے لیے کاروباری منصوبے کی تیاری میں یا پہلے سے تیار منصوبے کو مزید بہتر کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔

کم سرمائے سے کون سا کاروبار شروع کیا جائے؟

آپ کسی بھی کاروبار کو کم سرمائے سے شروع کر سکتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہوتی ہے کہ جہاں سرمایہ کم ہو، وہاں منافع بھی کم ہوتا ہے۔ مثلاً پچاس ہزار سے کم رقم سے کئی چھوٹے کاروبار شروع ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس سے ماہانہ سات آٹھ ہزار روپے ہی کمائے جاسکتے ہیں۔ آپ اپنی ضروریات اور مارکیٹ کے مطابق کوئی بھی کاروبار کم سرمائے سے شروع کر سکتے ہیں۔

آج سے اٹھارہ سال پہلے جب میں نے انٹرپرینیورشپ کا فیصلہ کیا تو بہت تحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ خدمات کی فراہمی (سروسز) کا شعبہ میرے لیے بہتر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی رائے مجھے سے مختلف ہو، مگر اس شعبے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں آپ صرف چند ہزار روپے سے اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اکثر کامیاب افراد کا تعلق شروع میں اس ہی شعبے سے تھا۔ اس میں شرحِ منافع (دوسرے شعبوں کی نسبت) بہت زیادہ ہے۔ آئی ٹی ماہرین، ڈاکٹر، وکیل، آرکیٹکٹ، بلڈرز، مشاورت کار، ٹیچرز، ماہرِ نفسیات، فن کار، وغیرہ سروسز کے شعبے سے منسلک ہیں۔ یعنی ان کا ’کاروبار‘ معاشرے کو اپنی خدمات پیش کرنا ہے۔

اگر آپ کے پاس سرمائے کی کمی ہے لیکن آپ کے اندر جذبہ موجود ہے تو آج بھی میری رائے میں خدمات کا شعبہ بہترین ہے۔ کم سرمائے سے آپ خدمات کے کسی بھی ذیلی شعبے میں اپنا کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔

انٹرپرینیورشپ شروع کرنے میں مشکلات اور ممکنہ حل:

دنیا کے ہر کام میں کچھ نہ کچھ مشکلات ضرور ہوتی ہیں۔ انٹرپرینیورشپ میں بھی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ کوئی بھی کاروبار کرنے کے لیے میرے خیال میں تین چیزوں کا ہونا لازمی ہے

1: منصوبہ

2: مہارت

3: سرمایہ

پلان اور سرمائے کے لیے میرے خیال میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں، جبکہ مہارت اور تعلیم میں کچھ فرق ہے۔ تعلیم کی ایک تعریف کے مطابق ’’علم کے سلسلہ وار طریقہ کو تعلیم کہتے ہیں‘‘۔ اب کام کرنے کی صلاحیت کے لیے درکار علم آپ کسی رسمی تعلیم ادارے سے حاصل کرسکتے ہیں، یا کسی دوسرے غیر رسمی طریقے سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کاروبار کے لیے تعلیم لازمی ہے، لیکن میرے خیال میں کاروبار کے لیے تعلیم کے بجائے مہارت کا ہونا لازمی یا بنیادی شرط ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جدید اور مؤثر تعلیم سے انسان کم وقت میں زیادہ مہارت حاصل کرسکتا ہے لیکن پاکستانی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت سے کامیاب کاروباری افراد نے کسی کالج/یونیورسٹی کے بجائے کسی اور غیر رسمی طریقے سے کاروباری مہارت حاصل کر رکھی ہے۔

جن لوگوں کا ذہن اپنا بزنس شروع کرنے کا ہوتا ہے ان کوعموماً اس طرح کی مشکلات ہوتی ہیں۔

اول: سرمایہ اور منصوبہ ہے لیکن مہارت نہیں

اس صورت حال میں کسی ماہر کو اپنے ساتھ بطور شرکت دار شامل کریں یا اس کو ملازمت پر رکھا جا سکتا ہے یا اس فن میں خود مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔ میرے ایک دوست نے اقتصادیات میں ایم فل کی تعلیم کے دوران اپنے یو پی ایس کے بزنس کے لیے ٹیکنکل کالج سے تین ماہ کا کورس کیا۔ اس کا خیال تھا کہ اپنے بزنس کے لیے ضرور ہے کہ آپ کو تمام کام ’’خود‘‘ کرنے آتے ہوں۔ آج ان کی کمپنی کا شمار پاکستان کی ٹاپ یوپی ایس اور سولر انرجی کمپنیز میں ہوتا ہے۔

دوم: مہارت اور منصوبہ ہے لیکن سرمایہ نہیں

ضروری نہیں کہ اپنے آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آپ کے پاس بہت سارے پیسے ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی اچھا آئیڈیا ہے تو آپ دوسرے شخص کو اپنا آئیڈیا پیش کرسکتے ہیں۔ وہ آپ کے منصوبے میں شراکت داری یا نفع میں حصے کے عوض سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کی سطح پر بہت سے ادارے/نجی بنک ’’قابلِ عمل منصوبوں‘‘ کے لیے قرضہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ ہر چند کہ قرضہ ملتا ہے یا نہیں، اس پر شرح سود کیا ہوگی؟ گارنٹی کہاں سے آئے گی؟ اس طرح کے بہت سے مسائل بھی موجود ہیں۔ لیکن اگر بینکوں یا فنانسنگ اداروں کے بجائے کسی شخص یا کمپنی سے ذاتی حیثیت میں سرمایہ کاری کی درخواست کی جائے تو معاملہ نسبتاً آسان ثابت ہوتا ہے۔

سوم: مہارت اور سرمایہ ہے لیکن کوئی منصوبہ نہیں

اکثر ماہرین اس کا حل یہ پیش کرتے ہیں کہ آپ کسی منصوبہ ساز سے رابطہ کریں۔ مارکیٹ میں بہت سے افراد/کمپنیز آپ کو منصوبہ سازی میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ آپ اخبار میں یا آن لائن اشتہار دے کر بھی اپنے لیے مطلوب شخص تلاش کر سکتے ہیں۔

یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ ہر شخص کے حالات و واقعات ایک سے نہیں ہوتے، اس لیے ان چیزوں میں بھی کمی بیشی متوقع ہے لیکن مجموعی طور پر اپنا خود کا کام شروع کرنے کے لیے ان چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ جس طرح ملازمت میں کریئر راتوں رات نہیں بنتا بلکہ سالوں کی محنت درکار ہوتی ہے، اسی طرح اپنا کام بھی، چاہے کتنا ہی تخلیقی کیوں نہ ہو، اس سے مالی فائدہ حاصل کرنے کی جلدی نہیں ہونی چاہیے۔

اگر آپ میں یہ تمام چیزیں اور کافی مقدار میں صبر موجود ہے، تو آپ کو اپنا باس خود بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

قدم بڑھائیے، اور اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیے۔ ہوسکتا ہے کہ یہی قدم آپ کو ملازمت تلاش کرنے والے سے ملازمتیں پیدا کرنے والا بنا دے؟

حسن اکبر

حسن اکبر لاہور کی آئی ٹی فرم ہائی راک سم میں مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ شخصیت میں بہتری کا جذبہ پیدا کرنے والی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ حسن اکبر ڈاٹ کام پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔