'باجی دروازہ کھولیں، میں مر رہی ہوں'
اسے ایک ٹھنڈے بیت الخلاء میں بند کیا گیا تھا۔ اس کی مدد کی کمزور پکاریں رات کی تاریکی میں کھڑکی سے باہر جا رہی تھیں اور اکثر بند کانوں پر گر رہی تھیں۔ اس کی مصیبت زدہ زندگی بے حس پڑوسیوں کی مہربانی سے اس وقت تک ایسے ہی چلتی رہے گی جب تک وہ کسی 'حادثاتی' موت کا شکار نہیں ہو جاتی۔
راولپنڈی کنٹونمنٹ کے قلب میں ایک کم عمر ملازمہ جس کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی، غفلت اور برے سلوک کی شکار ہے۔ وہ اکثر راتوں کو مدد کے لیے گھنٹوں تک روتی رہتی ہے۔
میں پہلی بار اس کی بے بسی کو سنتا رہا۔
آج رات میں نے پولیس کو فون کیا۔
میں ان دنوں راولپنڈی آیا ہوا ہوں۔ چوبیس دسمبر کو نماز فجر سے قبل میری آنکھ بچی کی مدد کی پکار کے باعث کھلی۔
وہ بارہ ربیع الاول تھی، ایسا دن جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت پر شکرگزاری کا اظہار اور خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ میں علی الصبح توپوں کے گولے داغنے کو سن سکتا تھا ممکنہ طور پر یہ خصوصی دن کے اعزاز کے لیے تھا۔ مگر میں نے صرف یہی نہیں سنا۔
سرد رات کی خاموشی کو چیرتی مدد کی پکار بھی گونج رہی تھی۔
' باجی، دروازہ کھولیں، میں یہاں مر رہی ہوں'۔
میں اٹھ کر برآمدے میں گیا اور اس پکار کی جگہ کا تعین کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت تک میرے میزبان بھی جاگ گئے تھے۔ ہم نے باہر کی روشنیاں جلائیں اور پڑوسیوں کے بیت الخلاء کے قریب کھڑے ہوگئے جہاں سے بچی کی پکاریں ابھر رہی تھیں۔
میرے میزبانوں نے مجھے بتایا کہ آہ و زاری کرنے والی بچی ممکنہ طور پر پڑوسی کے گھر میں کام کرنے والی کم عمر ملازمہ ہوسکتی ہے۔ یہ کرائے دار پڑوسی وسطی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے میزبان دیگر ایسے ملازمین کو بھی جانتے ہیں جو ان پڑوسیوں کے خراب رویے کے باعث کام چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ بچی بہت کم عمر تھی جسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا یا وہ اپنے دفاع سے قاصر تھی۔ وہ بس رو سکتی تھی جب اسے ایک ٹھنڈے بیت الخلاءمیں سونے کے لیے بند کر دیا جاتا۔
میں نے اپنے میزبان اور گلی کے چوکیدار کو اپنے ساتھ لیا اور چوبیس دسمبر کو پڑوسی کے گھر پر دستک دی۔ اس وقت صبح کے پانچ بجے تھے۔
میری جانب سے زوردار دستکوں کے باوجود کوئی بھی دروازے پر نہیں آیا۔ اس وقت بچی کی پکاریں بھی تھم گئی تھیں۔
گزشتہ رات وہی سب کچھ دوبارہ ہوا۔ بچی نے رات ڈھائی بجے کے لگ بھگ رونا شروع کیا۔
میں نے چیخ کر بچی کو جواب کے لیے پکارا، مگر وہ خاموش رہی۔
میں نے پڑوسیوں سے رابطہ کیا مگر وہ بہرے بنے رہے۔
اس اثناء میں بچی مسلسل مدد کے لیے چیختی رہی۔
' باجی، دروازہ کھولیں، میں یہاں مر رہی ہوں'۔
میں نے انٹرنیٹ پر کسی ایسے ادارے کو سرچ کیا جو بچوں پر مظالم کی روک تھام کا ذمہ دار ہو پر کوئی کامیابی نہیں ہوئی. میں نے اپنے میزبانوں سے پوچھا مگر انہیں بھی کسی این جی او یا حکومتی ادارے کے بارے میں معلومات نہیں تھی جسے ہم مدد کے لیے فون کرسکیں۔
آخرکار میں نے مقامی پولیس اسٹیشن کو فون کیا۔ خوش قسمتی سے پولیس نے جواب میں ایک موبائل بھیج دی۔
میں نے اس معاملے کی وضاحت پولیس کے سامنے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک ہفتے کے دوران دوسری بار ہوا ہے۔ وہ میرے ہمراہ پڑوسیوں کے دروازے پر پہنچے۔ پولیس نے بیل بجائی۔ اس وقت صبح کے تین بج کر 45 منٹ ہوئے تھے۔
اس بار پڑوسی کی بیوی نے جواب دیا۔ اس خاتون نے اسی وقت پولیس سے کہا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں اور تمام مرد اہلکاروں پر مشتمل پولیس ٹیم کو گھر میں داخلے سے روک دیا۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ یہ اس کی اپنی بچی تھی جو رو رہی تھی۔ ایسی بچی جو اپنی ماں کو 'باجی' کہتی ہے۔
پولیس نے پڑوسی کی بیوی کو مشورہ دیا کہ ان کا گھرانا مقامی پولیس اسٹیشن میں رجسٹر نہیں جو کہ اب کرائے داروں کے لیے لازمی شرط ہے۔ پولیس ٹیم مزید کسی اقدام کے بغیر وہاں سے چلی گئی تاہم ہمیں یہ کہہ گئی کہ وہ دن میں کسی وقت واپس آئے گی اور گھر کے مردوں سے بات کرے گی۔
اگر یہ واقعہ میرے شہر ٹورنٹو میں پیش آتا، تو چائلڈ پروٹیکشن سروسز حرکت میں آتیں۔ وہ کم عمر ملازمہ کو وہاں سے نکالتے اور اسے اپنے سینٹر میں رکھتے۔ یہاں تک کہ اگر حقیقی والدین پر بھی بچوں پر مظالم کا شبہ ہو تو ریاست فوری طور پر بچے کو اپنی تحویل میں لے کر اس وقت تک رکھتی ہے جب تک معاملے کی تفتیش نہ ہوجائے۔ اگر بچہ بعد ازاں والدین کے پاس واپس چلا جائے تو بچوں کے تحفظ کا کوئی ادارہ اس گھرانے میں جانا معمول بناکر اس بچے کی بھلائی کا تعین کرتا ہے۔
ایسا نہیں کہ کینیڈا میں بچوں پر مظالم نہیں ہوتے۔ کچھ بچے ایسی جگہوں پر پھنس جاتے ہیں جہاں ریاست اور معاشرہ ان کے تحفظ میں ناکام ہوجاتا ہے۔ جیفری بالڈون ایسا ہی پانچ سالہ بچہ تھا جس کے قانونی سرپرست اس کے نانا نانی تھے، اور وہ فاقہ کشی کے باعث موت کے منہ میں چلا گیا۔ وہ نظام جو اس کا محافظ ہونا چاہئے تھا، اسے بچانے میں ناکام رہا۔
پاکستان میں ایسے لاکھوں جیفری بالڈون ہیں جنھیں ریاست اور معاشرے دونوں کی مدد کی ضرورت ہے۔
کم عمر گھریلو ملازمین زیادہ بدقسمتی کا شکار ہیں۔ وہ خاموش معاشرے کی سپاٹ آنکھوں کے سامنے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں مارا جاتا ہے اور بھوکا اور غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہیں شہروں میں دیہات سے لایا جاتا ہے جہاں ان کے والدین اکثر بخوشی حوالے کر دیتے ہیں تاکہ ایک بچے کا پیٹ نہ بھرنا پڑے۔
پاکستان کے لیے خوش قسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف خود ایک شفیق دادا اور نانا ہیں جو اس طرح کے مظالم کے واقعات پر درد مندی کے ساتھ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ کم عمر گھریلو اور کمرشل ملازمین پر مظالم کے پھیلتے سلسلے کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت کو ایک قومی ہیلپ لائن متعارف کروانی چاہیے جہاں اچھے شہری کال کرکے ظلم کی رپورٹ درج کروا سکیں۔ اسے بالکل آسان ہونا چاہیے جیسے 15 یا 1122 سے رابطہ کرنا۔
اگرچہ مددگار جیسے ادارے موجود ہیں، مگر انہیں قومی سطح پر نہیں جانا جاتا اور ان کے پاس قانونی اختیارات بھی نہیں جو کسی ظلم کے شکار بچے کو بچانے کے لیے استعمال کیے جاسکیں۔ بچوں کے تحفظ کے لیے نئے ادارے کے قیام کو عمل میں لاکر بچے کو بلاتاخیر متاثرہ جگہ سے نگہداشت کے مرکز میں منتقل کرنا ترجیح دینا ہوگا۔ مظلوم بچوں کے تحفظ کے لیے قومی پروگرام کے حوالے سے ایدھی کی مدد بھی عارضی طور پر لی جانی چاہیے۔ یونیسیف کو بھی دنیا بھر میں اس طرح کی بہترین مثالوں پر مشتمل پروگرام کو ڈیزائن کرنے کے لیے شامل کیا جانا چاہیے۔
پڑوسی کے گھر میں جو بچی رات میں پکارتی ہے اور اس کی طرح کے ہزاروں بچوں کو فوری طور پر ہماری توجہ اور نگہداشت کی ضرورت ہے۔ ہماری بے حسی ان بچوں کے لیے سزائے موت کے مترادف ہوسکتی ہے۔ وہ ہوسکتا ہے ایک دن نمونیا کے باعث مرجائے مگر اس کی موت کی حقیقی وجہ ظلم، بے حسی اور غفلت ہوگی۔
اس بچی کی طرح کے بدقسمت بچے ہر روز مرتے ہیں اور تدفین کے لیے واپس دیہات منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ طبعی موت نہیں مرے بلکہ ان کا قتل ہوا ہے۔
ہماری خاموشی ہمیں بھی مجرم بناتی ہے۔ خاموشی کو توڑیں اور وزیر اعظم سے آج اقدام کا مطلبہ کریں تاکہ ان بچوں کو بچایا جاسکے جو ابھی زندہ ہیں۔
راولپنڈی میں پکارتی بچی کے لیے میری توقع ہے کہ آئندہ سال بارہ ربیع الاول پر وہ کسی بند بیت الخلاء میں رونے کی بجائے کسی محبت کرنے والے خاندان کی نگہداشت میں ہوگی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔