فلم ریویو ہو من جہاں : 3 دوستوں کی کہانی
ہو من جہاں کے اسٹارز ماہرہ خان، شہریار منور، عدیل حسین اور سونیا جہاں کے چہروں سے سجے پوسٹرز کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر کے گلی کوچوں میں لگے ہیں جو ہمیں کسی احساس دلارہے ہیں کہ افق پر کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
یہ اتفاقی ہوسکتا ہے مگر ہو من جہاں کے پروموز کی اثر پذیری سے ہمیں اس طرز کی دنیا کا عندیہ ملتا ہے جو فلم ہمیں فروخت کرنے کی کوشش کررہی ہے : ایک جہاں خاندانی خراب تعلقات بہت تیزی سے چمک کھوتے اور پریشان کن ہوجاتے ہیں۔ حقیقی دنیا کے مسائل جیسے طبقاتی فرق اور جنسی حسد بہت نرمی سے پس منظر میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے ایک جگمگاتا بورڈ لٹک کر کسی عمارت کی ابتر حالت چھپالیتا ہے، ہو من جہاں بھی ہمارے پریشان اعصاب کو سکون پہنچا کر فریب خیال کو زندگی میں لے آتی ہے۔
کیا یہ کوئی مسئلہ ہے؟ نظریاتی طور پر نہیں، ایک فلم جس کا مرکزی خیال رومانوی ڈراما ہو، ہر تکلیف کو ظاہر کرنے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، مگر عملی طور پر آپ سب کچھ اچھے جیسا پریوں کا دیس دکھائیں تو فلم کے بناوٹی نظر آنے کا خطرہ مول لے لیتے ہیں۔
ہو من جہاں ان دونوں پوزیشنز کے درمیان ایک لکیر پر چلتی رہی۔