نقطہ نظر

کیا نوکریوں کے لیے حکومت کا انتظار کرتے رہنا چاہیے؟

پاکستان میں پہلے تو نوکری ملنا بہت مشکل عمل ہے اور جن کو نوکری مل جاتی ہے ان کی اکثریت اپنی جاب سے مطمئن نظر نہیں آتی۔

پاکستان میں بے روزگاری کی کیا وجوہات ہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے، لمبے چوڑے آرٹیکلز تحریر ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا اس سے بے روزگاری کی شرح میں کوئی کمی ہوگی؟ میرے خیال میں صرف گفتگو یا بلاگ تحریر کرنے سے بے روزگاری کی شرح میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی کیونکہ حکومت کے پالیسی ساز اشخاص ان بلاگز کو اہمیت دینا تو دور کی بات، پڑھتے تک نہیں ہیں۔

تو اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں بہتری کیسے آسکتی ہے۔ جب میں نے اس موضوع پر کچھ مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دنیا بھر کے ماہرین کی نگاہ میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے بہترین حل "انٹرپرینیورشپ" یعنی اپنا کام شروع کرنا ہے۔

ہمیں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے حکومت کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے پاکستانی نوجوانوں کے ذہنی رجحان کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنی توجہ ’’جاب‘‘ کے بجائے ’’کاروبار‘‘ کی طرف کریں، یعنی نوکری تلاش کرنے کے بجائے نوکری دینے والا بننے کی کوشش کریں۔

میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون پڑھنے والے ہر شخص کے لیے ’’انٹرپرینیورشپ‘‘ کرنا ممکن نہیں لیکن میرا یقین ہے کہ اگر ہزاروں قارئین میں سے دو چار نے بھی اس سوچ سے کامیابی حاصل کرلی تو یہ میری بہت بڑی کامیابی ہے، اور دیگر سینکڑوں لوگوں کے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔

پاکستانی جاب مارکیٹ کی صورت حال:

ہمارے ملک میں نوجوانوں کی اکثریت تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کرتی ہے۔ جب وہ جاب مارکیٹ میں جاتے ہیں تو ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ نوکری تلاش کرنا کافی مشکل کام ہے کیونکہ پاکستان کے کمزور معاشی حالات (اور بے شمار دیگر وجوہات) کی وجہ سے یہاں بے روزگاری کی شرح بہت بلند ہے۔

میڈیا میں اکثر اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں کہ فلاں سرکاری نوکری کے لیے جس میں صرف دس/بارہ سیٹیں تھی، 30 ہزار سے زائد افراد نے اپلائی کردیا۔ وفاقی حکومت کے مقابلہ کے امتحان (سی ایس ایس) میں تقریباً بیس ہزار سے زائد طلبہ وطالبات شرکت کرتے ہیں، جبکہ اس میں 200 کے قریب سیٹیں ہوتی ہیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ تقریباً 100 افراد کا ایک سیٹ کے لیے مقابلہ ہے۔ اس لیے اس میں جو کامیاب ہوتا ہے وہ واقعی خوش قسمت ہوتا ہے۔

میں نے خود دیکھا ہے کہ 80 کی دہائی کے اختتام تک بھی ’’بی کام‘‘ کرنے والوں کو فوری نوکری مل جاتی تھی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جو لڑکے لڑکیاں، کمپیوٹر سائنس میں ’’بی سی ایس‘‘ کرتے تھے، ان کو فوری نوکری مل جاتی تھی، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آج مارکیٹ میں ہزاروں، ماسٹر ڈگری یافتہ، ایم بی اے، ایم سی ایس کرنے والے بے روزگارموجود ہیں، جن کو ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق جاب میسر نہیں، جس سے ہمارے نوجوانوں میں پریشانی بڑھ رہی ہے۔

جس کو جاب مل جاتی ہے وہ بھی پریشان:

نوکری ملنا بہت مشکل عمل ہے۔ اچھا جن کو نوکری مل جاتی ہے کیا وہ مطمئن ہیں؟ تو میرا مشاہدہ ہے کہ نوکری کرنے والوں کی اکثریت اپنی جاب سے مطمئن نظر نہیں آتی ہے۔ بے روزگاری کی بلند شرح کی وجہ سے اکثریت کو ان کی تعلیم/تجربے سے کم درجے کی نوکری ملتی ہے۔ میں ذاتی طور پر بہت سے اسے افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے کمپیوٹر سائنس میں بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، لیکن ان کو نوکری کمپیوٹر آپریٹر کی ملی ہے، جسے وہ اپنے کمزور معاشی حالات اور دیگر عوامل کی وجہ سے کرنے پر مجبور ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں اکثر نوکری کرنے والوں کو ’’ذاتی نوکر‘‘ تصور کیا جاتا ہے، جس میں آپ کو بلاوجہ بہت باتیں سنائی جاتی ہیں۔ کانٹریکٹ میں درج کام کے علاوہ بھی دیگر بہت سارے کام لیے جاتے ہیں جو انسان صرف اس لیے کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کہیں یہ نوکری بھی ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ اور جو تنخواہ مہینے کے بعد ملتی ہے، وہ اتنی قلیل ہوتی ہے کہ ایک ہی دن میں خرچ ہو جاتی ہے۔

اکثر نوکری کرنے والوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ آفس میں آپ جتنا مرضی اچھا کام کرلیں، لیکن آپ کو اس کا کوئی اجر نہیں ملنا، کیونکہ ان کی تنخواہ فکس ہے، جس کا ان کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں۔ بہت کم دفاتر میں یہ اصول ہے کہ اگر آپ زیادہ اچھا کام کریں تو آپ کی تنخواہ زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس طرح کی وجوہات سے نوکری کرنے والوں کی اکثریت بددلی اور شدید فرسٹریشن کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ نوکری کر بھی رہے ہوتے ہیں اور شکوے شکایت بھی۔

کیا نوکری سے امیر ہوا جا سکتا ہے؟

پاکستان جیسے ملک میں آپ اگر امیر ہونا چاہتے ہیں یا معاشی طور پر خوشحال ہونا چاہتے ہیں تو انتہائی معذرت کے ساتھ، نوکری اور حلال تنخواہ کے ساتھ آپ کے لیے یہ کرنا اگر بالکل ناممکن نہیں، تو اتنا مشکل ضرور ہے کہ اسے چند لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں کر پاتا۔ مثلاً مکان ہر خاندان کی بنیادی ضرورت ہے۔ بڑے شہروں میں پانچ مرلے کے مکانات کی قیمت 40 سے 50 لاکھ روپے ہے۔ اب ذرا تصور کریں ایک خاندان کا جس میں ایک آدمی نوکری کرتا ہے۔ وہ اپنی تنخواہ میں سے ہر سال کتنی بچت کریں کہ اپنا ذاتی مکان خرید سکیں؟ جبکہ پراپرٹی کی قیمت بھی چند سالوں میں دوگنی ہوجاتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں نوکری کرنے والوں کی اکثریت اپنی تنخواہ کے ذریعے اپنا ذاتی مکان تعمیر نہیں کر سکتی۔

انٹرپرینیور شپ کی اہمیت:

انٹرپرینیور کا اصل اردو ترجمہ ’’کاروباری شخص‘‘ ہے۔ ویسے تو انٹرپرینیور شپ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’انٹرپرینیور شپ ‘‘ کو پاکستان کی تمام نجی و سرکاری یونیورسٹیز میں ایک کورس کا درجہ حاصل ہے اور انٹرپرینیور شپ کا مضمون بطور خاص ڈگری پروگرامز میں پڑھایا جا رہا ہے، جبکہ بعض یونیورسٹیز میں ’’ایم بی اے‘‘ میں اس مضمون کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، جس سے بڑے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔

انٹرپرینیور شپ ایک اثاثہ ہے:

انٹرپرینیور شپ ایک اثاثہ ہے جبکہ ’’نوکری‘‘ آپ کی ذات خاص تک محدود ہے۔ جو لوگ نوکری کرتے ہیں، ان کی آمدنی کے لیے ان کا خود حاضر ہونا لازمی شرط ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنی جگہ کسی اور شخص کو نوکری پر بھیج دیں۔ یہ نوکری آپ نے خود ہی کرنی ہے۔ اگر کسی وجہ سے نوکری کرنے والا شخص اس دنیا سے رخصت ہوجائے تو اس کے خاندان کو نوکری سے ملنے والی مراعات ختم ہو جاتی ہیں، یا انتہائی کم یعنی نہ ہونے کے برابر ملتی ہیں۔

اس کے مقابلے میں انٹرپرینیور شپ آپ کا اور آپ کے خاندان کا ایک اثاثہ ہے، ایسا اثاثہ جس کو فروخت بھی کیا جاسکتا ہے۔ انٹرپرینیور شپ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ چونکہ اس میں نوکریاں پیدا ہوتی ہیں، اس لیے آپ کو اپنی اولاد یا رشتے داروں کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، نہ آپ کو اپنے بیٹے یا بھائی وغیرہ کی نوکری کے لیے کسی کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ آپ اپنی اولاد یا رشتہ داروں کو اپنے ساتھ کام پر لگا سکتے ہیں، نیز کامیاب انٹرپرینیور کے اہل خانہ کو زندگی کی بنیادی ضروریات بہت آسانی سے میسر آجاتی ہیں۔

مہنگائی کا کوئی خوف نہیں:

نوکری کرنے والوں کی آمدنی چونکہ فکس ہوتی ہے، اس لیے جب بھی حکومت بجٹ کا اعلان کرتی ہے، یا غیر اعلانیہ مہنگائی کرتی ہے، تو ان کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے، خاص طور پر درمیانے طبقہ کو، چونکہ ان کی تنخواہ میں اضافہ تو سال کے بعد ہونا ہے۔ (یاد رہے کہ ہمارے ہاں کئی اداروں میں تنخواہوں میں اضافہ سالانہ کے بجائے تین چار سال کے بعد ہوتا ہے) جبکہ انٹرپرینیور طبقے کو مہنگائی اس طرح متاثر نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ انٹرپرینیور کے پاس اپنی آمدنی بڑھنے کے بے شمار مواقع موجود ہوتے ہیں۔

ترقی کی کوئی حد نہیں:

انٹرپرینیور شپ میں میں ترقی کی کوئی حد نہیں۔ آپ اپنی سوچ اور محنت سے بہت آگے تک جاسکتے ہیں، لیکن نوکری میں ہر جگہ حدود و قیود ہیں۔ مثلاً آپ کی ترقی اور تنخواہ میں اضافہ ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کسی کالج/یونیورسٹی میں لیکچرر بھرتی ہو اور اگلے سال اس کالج میں پروفیسر، اس سے اگلے سال ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور اگلے سال پرنسپل/ ڈین وغیرہ بن جائے، بلکہ اگلی پوسٹ تک جانے کے لیے اسکو کافی سال انتظار کرنا ہوگا۔

انٹرپرینیور شپ کی ضرورت:

پاکستانی معاشرہ میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے ہمیں انٹرپرینیور افراد کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگرہم صرف بزنس، مینیجمنٹ، انجینئرنگ، کامرس یا کمپیوٹر سائنس کے ماہرین تیار کرتے جائیں گے، تو جناب ان سب کو نوکری کہاں سے ملے گی؟

اگر ہماری یونیورسٹیاں صرف انجینئر پیدا کرنے کے بجائے ایک انٹرپرینیور انجینئرز تیار کریں تو اس سے ملک میں بے روزگاری کی شرح کمی ہوگی۔ کیونکہ وہ نوکریاں پیدا کریں گے۔

ہمیں نوجوان میں بزنس کی خواہش پیدا کرنا ہوگی:

ہمارا نوجوان طبقہ بہت زیادہ ذہین ہے اور اس کے اندر بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک پاکستانی یوتھ کی تعریف کرتے ہیں، لیکن جس وجہ سے ہماری یوتھ مار کھا رہی ہے وہ اس کا درست سمت کی جانب سفر نہ کرنا ہے۔

میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو جو کام سمجھا دیا جائے وہ اس کام کو بہت اچھے طریقے سے مکمل کرتے ہیں۔ محنت، جانفشانی اور ذہانت میں پاکستانی یوتھ دنیا کے دوسرے ممالک کے نوجوانوں سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔

اب ہمارے نوجوانوں کو سوچنا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ ’’میں نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا ہے، میں نے کسی دوسرے کی غلامی نہیں کرنی، مجھے ہر صورت آگے بڑھنا ہے، مجھے اپنی کمزوریاں کو کم کرنا ہے تاکہ میرے کام کرنے کی صلاحیت اور طاقت میں اضافہ ہو، میں نے اس دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا ہے، میں نے اپنے معاشرے کے کمزور طبقے کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں اور ان کی خوشی میں اضافہ کرنا ہے۔"

اگلے ہفتے ہم دنیا اور پاکستان کے کچھ مشہور انٹرپرینیورز کی کہانیوں کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ عام طور پر ہمارے ذہنوں میں پائی جانے والی سوچ کہ "کاروبار شروع کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا" کو کیوں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

حسن اکبر

حسن اکبر لاہور کی آئی ٹی فرم ہائی راک سم میں مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ شخصیت میں بہتری کا جذبہ پیدا کرنے والی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ حسن اکبر ڈاٹ کام پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔