نقطہ نظر

چیخیں

اس کا جی چاہ رہا تھا کہ جلد از جلد چھٹی ہو تاکہ وہ گھر پہنچے اور ماں کو بتائے کہ آئندہ وہ ماں کو کبھی نہیں ستائے گا۔

اسکول سے وآپس آتے ہی وہ تقریباً دوڑتا ہوا اسٹور میں جا گھسا اور بار بار کیا ایک بار کی بھی تنبیہ کے بغیر لباس تبدیل کر کے باہر نکلا۔ ماں نے مشکوک انداز اور دبی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا جیسے جان چکی ہو کہ اس عجلت کا سبب کیا ہے مگر وہ نظریں چرا گیا اور بہت بھوک لگی ہے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کھانے کا طلبگار ہوا۔

کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر کو لیٹا اور پھر جیسے اسے گھر سے نکلنے کی جلدی ہو بستہ اٹھایا اور "ٹیوشن جا رہا ہوں" کہتے ہوئے ماں سے ماتھے پر بوسہ لیا اور باہر کی جانب دوڑ گیا۔ اس تابع داری اور عجلت کی اس کے سوا کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج بھی اسکول میں کھیلتے ہوئے گرنے کے باعث اس کے کپڑے گندے ہوچکے تھے۔ اس پر چھٹی کے قریب ایک ہم جماعت کہ پین چھڑکنے کے باعث سیاہی کے داغوں نے اس کی شرٹ کا بھی ستیا ناس کر ڈالا۔

گھر آنے تک وہ اسی پریشانی میں مبتلا تھا کہ اب ماں کی ڈانٹ ڈپٹ سننا پڑے گی۔ اور شاید ماں ایک آدھ ہاتھ بھی جڑ دے، سو احتیاط کا تقاضہ یہی تھا کہ جہاں تک ہو سکے اس معاملے کو خفیہ رکھا جائے اور پہلوتہی برتی جائے۔ ٹیوشن سے وآپس آکر وہ کنکھیوں سے ماں کو دیکھتا اور ادھر ادھر بے مقصد ٹہلتا رہا کہ کسی طور یہ جان سکے کہ اس کی چوری پکڑی گئی یا نہیں۔ ماں اس کی اس حالت پر دل میں مسکراتی رہی اورجب ان کی نظریں چار ہوتی تو پوچھتی۔

کوئی مسئلہ ہے کیا؟

نہیں، نہیں تو، کوئی نہیں۔۔

پھر؟

کچھ نہیں، ایسے ہی۔۔۔

اور ماں خاموش ہوتے ہوئے شرارت و الفت کے ملے جلے جذبات سے اسے دیکھنے لگتی اور پھر معمول کے کاموں میں مشغول ہو جاتی۔ اس نے اسی طور از خود ہی ہوم ورک کیا، کھانا کھایا اور سونے کو اپنے بستر پر دراز ہو گیا۔ بستر پر لیٹتے ہی وہ سوچنے لگا کہ ماں کو کپڑے خراب ہونے کا تو میں نے بتایا ہی نہیں، اور اب صبح اسکول کیا پہن کر جاؤں گا۔ اس سوچ بچار میں کئی بار اس کا جی چاہا کہ اب ماں کو بتا دے مگر اس ہچکچاہٹ کے باعث کہ اب بتانے پر زیادہ جھاڑ کھانا پڑے گی، بستر میں ہی دبکا رہا اور یونہی لیٹے لیٹے نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔

صبح اٹھ کر اور ناشتہ کرنے کے بعد جب اسکول جانے کے لیے تیار ہونے کا مرحلہ آیا تو اس کی بے چینی، بے بسی اور لاچارگی دیدنی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اب اس کا راز افشاء ہوئے بغیر نہ رہے گا۔ نیم دلی اور شکستہ قدموں سے اسٹور کی جانب بڑھنے لگا۔ مگر اسٹور میں داخل ہوتے ہی مارے حیرت کے اس کی سٹی گم ہوگئی، اور وہ عجب تذبذب کا شکار ہوگیا کہ وہاں اس کا دھلا اور استری ہوا صاف ستھرا یونیفارم ہینگر پر لٹک رہا تھا۔

اس نے کپڑے تبدیل کیے اور حیرت و شرمندگی کے ملے جلے احساسات کے ساتھ باہر نکلا۔ جب ماں اس کے بال سنوار رہی تھی تو ساتھ ساتھ اس کی اس حالت سے مسلسل لطف اندوز بھی ہوتی رہی اور مسکراتی آنکھوں و زیرِ لب تبسم سے اس سے اٹھکیلیاں کرتی رہی، اور وہ خاموشی و بے بسی سے نظریں چرائے کھڑا رہا۔ اسکول وین آنے پر فوراً دوڑ پڑا جیسے اسے جانے کی جلدی ہو۔

وین میں بیٹھتے ہی وہ سوچنے لگا کہ ماں نے یہ کپڑے کب دھوئے اور استری کب کیے کہ اس نے ماں کو نہ کپڑے دھوتے دیکھا نہ سکھاتے یا استری کرتے اور نہ ہی ماں نے اس کی کوئی سرزنش کی۔ یہ سوچ سوچ کر اسے شرمندگی و پشیمانی ہونے لگی جیسے وہ کسی بہت بڑی خطا کا مرتکب ہوا تھا اور ماں نے خاموشی سے اس کی کوتاہی پر پردہ ڈال دیا ہو۔

انہی خیالات میں اسکول آن پہنچا۔ دوران اسمبلی خیالات کی نئی رو نے اسے بری طرح ہلا کر رکھ دیا وہ سوچنے لگا کہ اس نے پہلی بار ایسا کیوں محسوس کیا۔ جب کہ ماں تو ہمیشہ سے ہی اس کی ضروریات اسی طرح پوری کر رہی ہے۔ چپکے چپکے اسے نہ ہی کبھی کوئی تقاضہ کرنا پڑا اور نہ ہی احساس دلانا۔ وہ سو کر اٹھتا ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے اور جتنے وقت میں کپڑے تبدیل کرتا ہے لنچ باکس اور اسکول بیگ تیار ہو چکا ہوتا ہے۔

جب کبھی وہ ہوم ورک کرتے ہوئے نیند کے غلبے سے ہار کر وہیں سو جاتا ہے تو اس کی بکھری کاپیاں، کتابیں ماں ہی سمیٹتی ہے۔ اس کی کاپیوں کے کور باقاعدگی سے تبدیل ہوتے ہیں اور یوں وہ ہمیشہ نئی نئی دکھائی دیتی ہیں۔ جب کبھی رات کو وہ ٹی وی دیکھتے یا کھیلتے ہوئے ماں یا باپ کے بستر پر سو جائے تو اماں ہی اسے اٹھا کر اس کے بستر پر چھوڑ کر آتی ہے تبھی وہ صبح اپنے بستر سے بیدار ہوتا ہے۔

وہ جتنا سوچتا گیا اتنا ہی اس نتیجہ پر پہنچتا گیا کہ ماں تو ہمیشہ سے اس کے ہر معاملے کو درست رکھے ہوئے ہے۔ مگر وہ آج ہی ایسا کیوں سوچ رہا ہے اس کی اس کے پاس سوائے اس کے کوئی توجہیہ نہ تھی کہ شاید اب وہ بڑا ہو چکا ہے اور اس احساس کے ساتھ ہی بہت سی ان کہی باتیں اس کے دل میں سر اٹھانے لگیں، جو وہ اب پہلی فرصت میں ماں سے کرنے کا خواہاں تھا۔

وہ ماں کو بتانا چاہتا تھا کہ اسے احساس ہو چکا ہے کہ اس کے باعث ان کے معمولات کس درجہ بے ترتیبی کا شکار ہیں مگر آج کے بعد ایسا نہیں ہوگا۔ وہ اپنی روش میں ضرور تبدیلی لائے گا وہ حتیٰ الامکان کپڑوں کو صاف رکھنے کی سعی کرے گا اور کتابوں و کاپیوں کو بھی پھٹنے اور گندا ہونے سے محفوظ رکھے گا۔

اس کا جی چاہ رہا تھا کہ دن جلد از جلد ختم ہو اور وہ اسکول سے چھٹی پاکر کسی بھی طرح چاہے اڑ کر ہی کیوں ناں پر گھر پہنچے اور ماں کے ساتھ ساری ضروری باتیں کرے. اسے بتائے کہ اس نے تہیہ کر لیا ہے کہ آئندہ وہ ماں کو نہیں ستائے گا۔ وہ اب تبدیل ہو چکا ہے اسے اپنے باعث ماں کو پہنچنے والی مشکلات کا احساس ہو چکا ہے۔ خود سے اس مکالمے میں وہ کبھی ارسلان بن جاتا اور کبھی خود ہی اپنی ماں مگر گفتگو ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی تھی۔

اچانک اسے کمرہ جماعت کے باہر بچوں کے رونے، پیٹنے اور دوڑنے کی آوازیں سنائی دینے لگی۔ اور اگلے ہی پل گولیاں برسنے کی آوازیں بھی ان آوازوں میں شامل ہو گئیں۔ اس موقع پر وہ بھی گھبرا کر اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے اپنے دیگر ہم جماعتوں کے ساتھ کلاس روم سے نکلا اور جس سمت سب بچے دوڑے جا رہے تھے دوڑنے لگا۔ وہ پریشانی اور خوف کے عالم میں مسلسل ماں کو پکار رہا تھا کہ سامنے سے چند لوگ نمودار ہوئے اور انہوں نے اس پر بھی گولیاں برسانی شروع کر دیں۔

اسی اثناء میں دہکتے ہوئے سیسے نے اس کا وجود داغ ڈالا اور وہ بے توازن ہو کر کئی قدم پیچھے آن گرا۔ درد کی شدت اس کی برداشت سے باہر تھی اور وہ جو ہلکے سے سر درد پر رونے پیٹنے اور ماں کو آوازیں لگانے لگتا تھا، اس اذیت کی حالت میں بھی چلانے اور ماں کو پکارنے لگا۔ اس کی پکار میں یہ یقین شامل تھا کہ اگر ماں آن پہنچی تو یقیناً اس درد کا فوراً کوئی سدباب کر دے گی۔

اس پر غشی و بے ہوشی طاری ہونے لگیں۔ گولیاں برساتے درندے اس کے سر پر آن پہنچے اور ٹھوکر رسید کرنے پر جب جسم میں حرکت دیکھی تو بیک وقت کئی نالیاں دھکیں اور آگ اس کے وجود میں اندر تک اتر گئی۔ وہ بری طرح تڑپا اور ایک چیخ ایک پکار لفظ ماں کی صورت اس کے حلق سے نکلی اور اس کے گرد بکھری سینکڑوں چیخوں میں شامل ہوگئی۔ یہی پکار اس کی آخری ہچکی ثابت ہوئی اور پھر اس کا وجود اس کی ادھ کھلی آنکھوں کی طرح پتھرا گیا۔

مگر اس آخری پکار نے پورے شہر کو ایک مسلسل خوف، کرب و اذیت کے گہرے کہرے میں دھکیل دیا کہ اب شہر میں دن ہو یا رات صبح ہو یا شام اکثر ایسی چیخیں سنائی دینے لگی ہیں، جو کبھی کبھی سسکیوں اور آہوں کی صورت ہوتی ہیں، تو کبھی آہ و بکا اور چیخ و پکار کی شکل میں۔

مگر آج تک نہ تو کوئی یہ تعین کر سکا کہ یہ ہوک دن میں زیادہ بار اٹھتی ہے یا راتوں کو، اور نہ یہ ہی طے ہو سکا کہ یہ رونے کرلانے کی آوازیں آتی کس سمت سے ہیں۔ اور تعین ہو بھی کیسے سکتا ہے کوئی ایک آواز ہو تب ناں۔

ڈان کا اے پی ایس حملے کی پہلی برسی پر شہدا کی یاد میں خصوصی فیچر


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

ارشد علی

ارشد علی افسانہ نگار ہیں، اور ان کے افسانے ہندوستان اور پاکستان کے کئی مؤقر رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔

ان سے فیس بک پر رابطہ کریں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔