نقطہ نظر

ٹرمپ کے امریکا میں مسلمانوں کا مستقبل؟

کیا ٹرمپ کی مہم صرف ایک سیاسی چال ہے یا پھر یہ مرکزی دھارے کے امریکا کے لیے ایک خوفناک سچائی بن کر ابھرے گی؟

امریکا کی مرکزی دھارے کی سیاست میں متنازع مسائل کی مدد سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے ہنر نے اب ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے، اور اب کی بار یہ رخ مذہبی منافرت ہے۔

وہ صرف 'اب' مذہبی بناء پر نفرت پھیلانے والے، عورتوں یا سیاہ فاموں سے نفرت کرنے والے شخص نہیں ہیں، بلکہ وہ ہمیشہ سے ہی ایسے تھے۔ بس انہیں اپنا حقیقی روپ دکھانے کے لیے کوئی مقصد درکار تھا۔ اور یہ مقصد ریپبلیکن پارٹی کا ٹکٹ ملتے ہی مکمل ہوگیا۔ ٹرمپ اب اس پانچ سال کے بگڑے ہوئے بچے کی طرح ہو چکے ہیں جو توجہ حاصل کرنے کے لیے دروازے پیٹے گا یا پھر اپنے کھلونے اٹھا کر ہر جگہ پھینکے گا۔ اگر آپ نے اس بچے کی ایک بھی بات پر توجہ دے دی، تو وہ ہر بار یہی حربہ استعمال کرے گا۔

مسلمانوں کی امریکی امیگریشن پر پابندی کا تصور پیش کرنے پر ٹرمپ کے خلاف جو محاذ کھل گیا ہے، وہ وہی ردِ عمل ہے جو ٹرمپ چاہتے تھے، اور بدقسمتی سے ہم سب اس جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔

انہوں نے نسل کا کارڈ مذہب سے اور میکسیکن کا کارڈ مسلمان سے بدل دیا ہے، اور اب کامیابی کے لیے بروقت اعلانات اور منشور عوام کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں، اور متنازع چیزوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔

وہ دیگر تمام انتخابی مہم کی ٹیموں کی طرح اپنے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور میڈیا اور عوام کی ذہن سازی کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ وہ روز کے پولنگ اعداد و شمار دیکھتے ہیں اور ایسا پیغام تیار کرتے ہیں جو میڈیا اور ریپبلیکن ووٹروں میں سب سے زیادہ زبان زدِ عام ہوتا ہے۔

یہ پیغام جاری کرنے سے پہلے بہترین منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور کڑے حساب لگائے جاتے ہیں۔ شاید آپ نے نوٹ کیا یا نہیں، لیکن انہوں نے میکسیکن افراد کے امریکا میں غیر قانونی داخلے کو روکنے کے لیے "دیوارِ ٹرمپ" تعمیر کرنے کے منصوبے اور اعلان کو ترک کر دیا ہے، کیونکہ تیسری اور چوتھی صدارتی بحث کے دوران ان کی مقبولیت میں زبردست کمی ہوئی اور ڈاکٹر بین کارسن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

مگر پیرس اور کیلیفورنیا میں ہونے والے حملوں نے ٹرمپ کی مہم میں ایک نئی روح اور توانائی پھونک دی ہے۔ ٹیڈ کروز کے علاوہ ریپبلیکن پارٹی کے تمام صدارتی امیدواروں میں سے صرف ٹرمپ ہی ہیں جو ایسے سانحات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی صلاحیت، چاہت اور مطلوبہ وسائل رکھتے ہیں۔ اور انہوں نے یہ انتہائی باریکی سے کیا۔

انتخابی مہم کے دوران ان کی خود پسند شخصیت کے گرد گھومنے والا ایک نیم تفریح بخش سائیڈ شو اب ایک مکمل مہم کا روپ دھار گیا ہے، جس کا سب سے نمایاں پیغام مذہبی منافرت، نسل پرست اور صنفی امتیاز ہے، اور روزانہ کی پولنگ کے مطابق یہ پیغام امریکا کی ریپبلیکن آبادی کے ذہنوں سے ہم آہنگ ہے۔

مذہبی منافرت کو انتہائی چالاکی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور تب تک کیا جاتا رہے گا جب تک کہ اس کی افادیت ختم نہیں ہوجاتی۔ اور اس کے بعد ایسے پیغامات لائے جائیں گے جو مرکزی دھارے کے امریکا میں مقبولیت حاصل کریں تاکہ ہیلری کلنٹن کو مشکل میں ڈالا جا سکے اور اس ڈیموکریٹ ووٹ کو توڑا جا سکے جو دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔

عام حالات میں تو یہ صرف خوف کے شکار ایک شخص کے شور و غل کی طرح محسوس ہوتا لیکن یہ عام حالات نہیں ہیں۔ سیاسی تقسیم ایک انتہائی خطرناک موڑ لے کر اب عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر رہی ہے جہاں دونوں ہی گروہوں کے افراد کروڑوں ہیں۔ یہ مرغوں کی ایسی لڑائی کی طرح ہے جس میں کوئی بھی زخم کھائے بغیر یا نقصان اٹھائے بغیر باہر نہیں آتا، اور جو نقصان پہنچے گا، وہ زبردست اور نسلوں تک جاری رہنے والا ہوگا۔

جیسے جیسے مرکزی انتخابی مہم آگے بڑھ رہی ہے، جسے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فائدے کے لیے خطرناک موڑ دے رہے ہیں، امریکا میں رہنے والے مسلمان تارکینِ وطن اور وہیں پیدا ہونے والے مسلمان خوف کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جیسے کہ وہ بیچ گرداب کے پھنس گئے ہوں۔

پیرس حملوں سے لے کر کیلیفورنیا میں ہونے والی شوٹنگ تک، یہ سارے واقعات امریکا میں ایک برے خواب کی طرح ہیں، اور دونوں ہی جانب موجود مذہبی طور پر جوشیلے افراد ٹرمپ اور ان کے جیسوں کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات قبول کر رہے ہیں۔

یہی وہ پریشان کن حقائق ہیں جو ہمیں تاریخ میں 1940 کی دہائی میں لے جاتے ہیں جب ایک کرشماتی لیڈر نے ایک پوری آبادی کو ایک پوری نسل کی نسل کشی کے خلاف کھڑا کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ٹرمپ کی مہم اسی پیغام کے ساتھ تب تک جاری رہتی ہے جب تک بنیادی کامیابیاں حاصل کر لی جائیں؟ اور موجودہ اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ وہ بنیادی کامیابی حاصل کر لیں گے۔ اور اگر وہ واقعی کامیاب رہتے ہیں، تو میرا اندازہ ہے کہ مذہب اور نسل کے خلاف بیانات کو دھیما کر دیا جائے گا تاکہ ٹرمپ کلنٹن کا جم کر مقابلہ کر سکیں۔

امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اب بھی کئی سوال موجود ہیں:

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر تمام نہیں، تو ان میں سے کچھ باتیں ضرور درست ہیں۔

امریکا کا سیاسی منظرنامہ تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ماضی میں معیشت اور ملازمتوں کے گرد گھومنے والی بحث کو اب مذہب سے جڑے خوف نے یرغمال بنا لیا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

نعیم غوری

نعیم غوری لندن میں مقیم لکھاری ہیں اور نیٹ سول ٹیکنولاجیز لاہور کے بانی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔