مخلوط تعلیم اور نظریاتی کونسل
کچھ مولوی حضرات نے جب سے عقلی علوم یعنی معقولات (Rational Sciences) کا رستہ چھوڑ کر محض منقولاتی علوم (کتابی دلائل) کو "جن جھپا" ڈالا ہے، تب سے ایسے تمام مکاتب فکر کے لوگوں میں عقلیت سے ناطہ کمزور ہو چکا ہے۔
مخلوط تعلیم کے خلاف اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا شیرانی کے تازہ بیان نے خود اسلامی نظریاتی کونسل کا مذاق بنا دیا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اس زائد المیعاد ادارہ کو اب بند کر دینا چاہیے۔ میں گذشتہ دس سال سے تعلیمی تحقیق سے وابستہ ہوں اور نہ صرف پاکستان کی اہم تعلیمی دستاویزات کا تفصیلی جائزہ لے چکا ہوں، بلکہ 2010 سے چھپنے والی نصابی کتب پر بھی میری برابر نظر ہے۔ شاید اسی لیے مجھے شیرانی صاحب کا بیان پڑھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ جن 12 "مقدس" تعلیمی دستاویزات کا جائزہ لیا گیا تھا، ان میں ایک بھی ایسی نہیں جس میں مخلوط تعلیم کے حوالے سے واضح سفارش موجود ہو۔
یہی نہیں بلکہ صنفی تعصب کے حوالے سے تو میں نصابی کتب میں چھپنے والی تصاویر پر مشتمل تحقیق بھی شائع کروا چکا ہوں۔ حیران نہ ہوں، نجی اسکولوں یا سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی ہماری نصابی کتب جن نمایاں ترین تعصبات کی عملی تفسیر ہیں ان میں صنفی، دیہی، ثقافتی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو اوّلیت حاصل ہے۔ شیرانی صاحب پر بھلے غصہ نکال لیں مگر جو کچھ گذشتہ 64 سالوں سے ہمارے پالیسی ساز تعلیمی دستاویزات میں لکھ رہے ہیں اور جو تصاویر و مواد ہم سرکاری اسکولوں، کالجوں میں اپنے بچوں کو پڑھا اور دکھا رہے ہیں وہ شیرانی صاحب کے ارشادات کی عملی تفسیرہی تو ہے۔
نومبر 1947 میں ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس ہو یا 1951 کی دوسری تعلیمی کانفرنس، 1959 کا شریف کمیشن ہو، 1966 کا حمود الرحمان تعلیمی کمیشن برائے طلبہ یا پھر نور خان اور شیر علی پٹودی کی تیار کردہ 1969 کی تعلیمی پالیسی، ان سب میں مخلوط تعلیم کے بارے میں تحفظات نمایاں ہیں۔ ایک طرف شور یہ ہے کہ ہم غریب ملک ہیں، وسائل کم ہیں، تعلیم کے لیے کہاں سے فنڈ لائیں تو دوسری طرف انہی دستاویزات میں لڑکیوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے بنانے کے سفارشات خود اپنا تمسخر اڑا رہی ہیں۔
1969 کی تعلیمی پالیسی نے تو تمام حدیں ہی پار کر دیں تھیں۔ اس پالیسی سے قبل پالیسی ساز یہ اقرار کرتے رہے تھے کہ یونیورسٹی کی سطح پر نوجوانوں کی شعوری سطح بلند ہو چکی ہوتی ہے، اس لیے عورتوں کے لیے الگ یونیورسٹیاں بنانے کی ضرورت نہیں۔ حمود الرحمان کمیشن تک ہمارے تعلیمی پالیسی ساز خواتین کے لیے الگ یونیورسٹیاں بنانے کے قائل نہ تھے البتہ اک طبقہ یہ تکرار کرتا رہا تھا۔ مگر 1965 کی جنگ کے بعد شروع ہونے والی پاک ہندوستان سرد جنگ کی وجہ سے شامل ہونے والے نئے کھلاڑیوں کی وجہ سے ماڑا موٹا اعتدال بھی جاتا رہا۔
یوں 1969 کی تعلیمی پالیسی نے عورتوں کے لیے الگ یونیورسٹیاں بنانے کی سفارش بھی کر ڈالی۔ یاد رہے یہ وہی باکمال تعلیمی پالیسی ہے جس نے مسیحی مشنری تعلیمی اداروں کو نظریہ پاکستان کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے انہیں بند کرنے یا قومیانے کی سفارش بھی کی تھی۔ 1972 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے زخموں سے چور مملکت نے نئے پاکستان کے باسیوں کو 'قومی دلاسہ' دینے کے لیے تعلیم، صنعت اور بڑی بڑی کمپنیوں کو قومیانے کا سیاسی فیصلہ کر ڈالا۔
1972 کی تعلیمی پالیسی اسی کشمکش کے دوران بنائی گئی تھی کہ اس میں مخلوط تعلیم کے لیے اک درمیانہ راستہ ڈھونڈنے کا آہر کیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ پہلی سے پانچویں تک اگر تمام اساتذہ خواتین ہوں تو پھر پرائمری تک مخلوط تعلیم کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ یہ ریت میں گردن چھپانے والی 'شترمرغ' پالیسی تھی۔ 1966 کی تعلیمی دستاویز یہ بات بتا چکی تھی کہ مشرقی پاکستان میں صرف 30 فیصدی اور مغربی پاکستان میں محض 50 فیصدی استاد باقاعدہ تربیت یافتہ تھے۔ مجموعی طور پر پاکستان میں 50 فیصد سے بھی کم اساتذہ 'استاد' کے معیار پر پورا اترتے تھے۔ ایسے میں جب تعلیم کو قومیا لیا گیا تو مزید غیر تربیت یافتہ اساتذہ تعلیمی بندوبست میں آگئے۔
ایک ایسی صورتحال میں جہاں تربیت یافتہ اساتذہ ہی نہ ہوں اور عورتوں میں خواندگی کی شرح بھی کم ہو، آپ کو اتنی بڑی تعداد میں تربیت یافتہ خواتین اساتذہ کہاں سے ملنی تھیں؟
1979، 1992، 1998 اور 2009 کی تعلیمی پالیسیاں پڑھ لیں، آپ کو مخلوط تعلیم کے حوالے سے 1972 کی پالیسی کے منتخب کردہ درمیانی راستے کی تکرار ہی نظر آئے گی۔ 'نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی' کے مصداق تربیت یافتہ خواتین اساتذہ کی تلاش تاحال جاری ہے۔ جنس کو اوّلیت دیتے ہوئے بنائی جانے والی پالیسی کا یہی انجام ہونا تھا۔ یہ وہ گھٹیا ذہنیت ہے جس کا پردہ سعادت حسن منٹو نے تو 60 برس قبل چاک کر دیا تھا مگر ہمارے سول و ملٹری بیوروکریسی، اشرافیہ اور پالیسی ساز اس چاک گریبان پر پردے ڈالنے میں تادم تحریر ”رجھے“ ہوئے ہیں۔.
2009-10، 2011-12، اور 15-2014 کی نصابی کتب کا میں نے جب جائزہ لیا تو ان میں موجود نمایاں ترین تعصبات میں صنفی تعصب برابر ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ دیہاتوں میں تو عورتیں ہمیشہ سے کام کرتی تھیں کہ گائے کے گوبر سے پاتھیاں بنانا، جنگل بیلے سے لکڑیاں چن کے لانا، دور دور سے پانی بھر کے لانا اور کھیتوں میں بہت سے کام کرنا دیہی روایات کا انمٹ حصّہ تھا۔ شہروں میں بھی گذشتہ 65 برسوں میں عورتوں کے حوالے سے نمایاں تبدیلیاں آچکی ہیں۔
آج بڑی تعداد میں خواتین دفاتر میں کام کررہی ہیں، گاڑیاں چلاتی نظر آتی ہیں۔ طب، انجینئرنگ، آرٹ، صحافت، تعمیرات، کون سا شعبہ ہے جہاں خواتین موجود نہیں۔ اسمبلیوں میں خواتین موجود ہیں اور اب تو فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں میں بھی انہیں شامل کیا جارہا ہے، مگر نصابی کتب میں یہ دکھانا 'گناہ عظیم' ہے۔ نصابی کتب میں لڑکیوں کو سٹاپو، کیڑی کاٹا، کیرم جیسے ان ڈور (درونِ خانہ) کھیل کھیلتے دکھایا جاتا ہے مگر فٹ بال، کرکٹ وغیرہ جیسے آﺅٹ ڈور کھیل صرف لڑکے کھیلتے ہیں۔ پرائمری کی کتب میں جب یہ دکھایا جائے گا کہ لڑکا گانا گا رہا ہے، پڑھ رہا ہے، موٹر سائیکل چلا رہا ہے، بازار جا رہا ہے اور لڑکی گھریلو کاموں میں مشغول ہے تو پھر ہم اپنے بچوں کو آخر کیا سکھا رہے ہیں؟
میں شیرانی صاحب سمیت منقولاتی استدلال رکھنے والے تمام مکاتب فکر کے علماء کا ناقد ہوں مگر 67 سالہ تعلیمی ریکارڈ کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں تو یہی کہوں گا کہ شیرانی صاحب نے جو کہا ہے اس پر ہمارے پالیسی ساز اور اعلیٰ اذہان عملی طور پر کار بند ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سرکاری تعلیم کا بیڑہ غرق کر کے نجی اشرافیہ کے تعلیمی کاروبار کو وسعت دینے کے خواہاں ہیں۔
شیرانی صاحب اور اسلامی نظریاتی کونسل پر ہم بھلے حسبِ توفیق تنقید کریں مگر یہ بھی دیکھیں کہ ہمارے پالیسی ساز اور سول ملٹری اشرافیہ کیوں خود اس منافقت کا پرتو ہے؟ نصابی کتب تو مختلف قسم کی متعصبانہ ذہن سازی میں ملوث ہے مگر بطور شہری ہم کس قسم کی حساسیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ ہم میں سے اکثر تو کبھی کسی سرکاری اسکول کالج گئے ہیں، نا ہی ان اداروں میں پڑھائی جانے والی کتب کے بارے میں ہمیں کچھ علم ہے۔
میں تو مشکور ہوں علامہ شیرانی کا کہ جن کے بیانات کی وجہ سے، منفی انداز سے ہی سہی، مگر ہمیں آئینہ تو دیکھنے کو ملا۔ یہی ہمارا اصل چہرہ ہے کہ جس پر انگریزی کا میک اپ کر کے ہمیں گمراہ رکھا جاتا ہے۔ ہماری اشرافیہ اور پالیسی ساز اپنے بچوں کو تو مخلوط تعلیم دلواتے ہیں، ان کے لیے پرکشش و پرتعیش مخلوط ماحول بناتے ہیں، مگر عام پاکستانیوں کو گلی سڑی اخلاقیات کے بھنور میں غلطاں رکھنے پر کمر بستہ ہیں۔
شیرانی صاحب جیسے چند ایک سر پھرے تو اس کا برسرِ عام اعلان بھی کرتے ہیں مگر ہماری اشرافیہ اور پالیسی ساز اس پر بذریعہ منافقت عمل پیرا ہیں۔ وہ اپنی ذاتی زندگیوں میں تو لبرل ہیں مگر عام پاکستانیوں کے مقدر کو اپنی ایسی پالیسیوں کے ذریعہ داغدار رکھنا چاہتے ہیں۔
عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔