نقطہ نظر

کیا مسلمان ہونا دہشتگرد ہونا ہے؟

اگر یہی رویہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب مسلمان بچوں کے بستے روز تلاشی کے بہانے اسکول کے دروازے پر روک لیے جائیں گے۔

مشہور اخباروں کے آخری کونوں میں ایسی خبریں کم ہی لوگوں کو دکھائی دیتی ہیں کہ بس میں داخل ہو کر منزل کے متعلق پوچھنے پر بس ڈرائیور نے مسلمان خاتون کے اسکارف پر طنز کیا اور اس کو کھینچنے کی کوشش کی۔ چند ماہ پہلے کوپن ہیگن کی ایک یہودی عبادت گاہ پر حملے کے بعد اس قسم کی سرگرمیوں میں کافی تیزی دکھائی دی جب کسی راہگیر نے کسی مسلمان عورت کے سر سے اسکارف اتارنے کی کوشش کی۔

ابھی چند دن پہلے مشہور امریکی برانڈ ایبرکومی میں اسکارف پہننے کی وجہ سے نوکری نہ ملنے والی خاتون کے مقدمہ جیتنے کی کہانی بھی دوستوں کی نظر سے گذری ہوگی۔ کچھ عرصہ پہلے ایک امریکی شہر میں مسجد کے سامنے اسلحہ بردار لوگوں نے پیغمبرِ رحمت کے خاکے بنوانے کے مقابلے کا اہتمام کیا۔

کچھ دن پہلے ہی ایک مسلمان جوڑے کو اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب وہ اپنے بیٹے کو لینے کے لیے اس کے دوست کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے کہ ایک بندوق بردار عورت نے ان کو وہاں سے بھاگ جانے کا کہا۔ جب انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو لینے کے لیے آئے ہیں تو وہ بندوق بردار خاتون بندوق کی نوک پر ان کو اس گھر کے اندر لے کر گئی جہاں ان کا بیٹا تھا۔

چند ماہ پہلے ہی ایک مسلمان خاتون کو یونائیٹڈ ایئرلائن میں کھلا ہوا کوک کا کین دیا گیا تو انہوں نے بند کین طلب کیا جس پر ایئر ہوسٹس نے مسلمان ہونے کے ناطے ان کو بند کین کو بطور اسلحہ استعمال کر لینے کے ڈر سے بند کین دینے سے انکار کر دیا۔ ٹھیک ان کے برابر میں بیٹھے مسافر کو بیئر کا بند کین دیا گیا جس پر مسلمان خاتون نے اعتراض کیا تو جہاز میں موجود ایک دو مسافروں نے مسلمانوں کے متعلق نفرت آمیز جملوں کی بوچھاڑ کر دی۔

ایک مسلمان نوجوان جوڑا جو امریکا ہی کے کسی شہر میں بستا تھا، اور پارکنگ کے معمولی جھگڑے پر ان کو گولی مار دی گئی تھی۔

17 اگست 2015 کو کوپن ہیگن کے ایک اسلامی سینٹر پر کسی نے آگ لگانے کی کوشش کی۔ پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا اور اس کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ تقریباً دو تین ماہ پہلے کوپن ہیگن میں مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کی گئی اور کئی قبروں کے کتبے اکھاڑ دیے گئے۔

ایسے واقعات آج کی دنیا میں ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ ان سب واقعات میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والے دہشت گرد نہیں کہلاتے، بلکہ انہیں کسی ذہنی مرض کا شکار قرار دے دیا جاتا ہے۔ ناروے میں درجنوں افراد کے قاتل کا تعلق شدت پسند گروہوں سے ہونے کے باوجود بھی اس کو صرف بھٹکا ہوا ایک فرد ہی سمجھا گیا۔

اس کے علاوہ دہشتگردی یا ہنگامہ آرائی کے کسی بھی واقعے میں ملوث شخص اگر سفید فام ہو تو اسے صرف ذہنی بیمار یا اکلوتا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے لیکن اگر یہی شخص اتفاق سے سیاہ فام یا مسلمان ہو، تو اس کے ساتھ وہ حشر کیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔

تنگ دل اور بیمار لوگوں کی ایسی حرکتوں سے دل بہت دکھتا ہے اور آج امریکی ریاست ٹیکساس میں احمد محمد نامی 14 سالہ مسلمان بچے کو ایک 'بم بنانے کی کوشش' کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بے چارہ تو ایک کلاک بنانے کی کوشش میں تھا اور وہ اپنی کوشش کی ستائش کے لیے اسے اسکول لے آیا تھا۔ اس واقعے کے متعلق ہزاروں لوگوں نے مختلف سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

درحقیقت اس بچے کا نام ہی سکیورٹی اہلکاروں کے کان کھڑے کرنے کا سبب بنا۔ اگر یہی کام کسی غیر مسلم یا سفید فام امریکی بچے نے کیا ہوتا تو اس کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا۔ دوسری طرف اس واقعے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بعد میں اس قسم کے واقعات پر کفِ افسوس ملنے سے بہتر تھا کہ ایسا ہوا۔ انہوں نے اسکول کی تعریف بھی کی کہ انہوں نے اس قدر فرض شناسی کا ثبوت دیا اور یہ کہ اسلام کا نام مسلمانوں نے ہی خراب کر رکھا ہے وغیرہ۔

ان سب واقعات میں کردار بدل رہے ہیں اور کہانی ملتی جلتی ہے۔ مسلمانوں سے ایسی کیا خطا ہوئی ہے کہ ایک دنیا ان کی دشمن بنی پھرتی ہے۔ صرف اتنی خطا ہے کہ 11 ستمبر کے واقعے میں ملوث ہائی جیکرز کے نام دینِ رحمت والے اور کام دوسروں کے لیے زحمت والے تھے؟ یا یہ کہ چند ہزار افراد کا گروہ خود کو طالبان اور دولتِ اسلامیہ کہلوا کر بندوق کے زور پر دنیا بھر میں اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ میں بم دھماکے میں مسلمان مریں، یومِ عاشور کے دھماکے میں مسلمان مریں، جلوسِ میلاد کے دھماکے میں مسلمان مریں، بازاروں، سڑکوں، گلیوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں مسلمان مریں، افغانستان اور عراق میں امریکی بمباری میں مسلمان مریں، اس وقت کوئی یہ نہیں کہتا کہ مسلمان مظلوم ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں مر رہے ہیں۔ لیکن چند نام کے مسلمان افراد کوئی غیر انسانی حرکت کر ڈالیں تو اس کا پورا ملبہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر ڈال دیا جاتا ہے اور انہیں قابلِ نفرت، پسماندہ، اور دہشتگرد یا دہشتگردی کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں؟

آخر یہ کیوں نہیں دیکھا جاتا کہ دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر خود مسلمان اور اسلامی ممالک ہیں۔ یہ کوئی کیوں نہیں دیکھتا کہ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، اور دیگر مغربی ممالک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے جو ان ملکوں اور معاشروں کی ترقی کے لیے ہر شعبے میں اپنا برابر کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ حقیقت کسی کی نظر سے کیوں نہیں گزرتی کہ دہشتگرد صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں میں بھی دہشتگرد رویے پائے گئے ہیں۔ مجرمانہ ذہنیت صرف سیاہ فام لوگوں میں نہیں بلکہ سفید فام اور گندمی رنگت کے لوگوں کی بھی ہو سکتی ہے۔

اگر یہی رویہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب مسلمان بچوں کے اسکولوں کے بستے روز تلاشی کے بہانے اسکولوں کے دروازوں پر روک لیے جائیں گے۔ وہ دنیا جو خود کو مہذب اور پر امن کہتی ہے، اپنے جیسے پرامن لوگوں سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہے؟ کیا ان سے مختلف رنگ اور مذہب رکھنے والے انسان نہیں؟

احمد محمد کے واقعے پر زبردست عوامی ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے، اور چند بیمار ذہن افراد کے علاوہ سب ہی نے مذہب، رنگ، نسل، اور ملکوں کی قید سے بالاتر ہو کر اس معصوم اور ذہین بچے کی حمایت کی ہے، جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی دنیا عمومآ مسلمانوں کے خلاف نہیں، بلکہ صرف کچھ پسماندہ ذہنیت کے افراد ایسی سوچ رکھتے ہیں. جب مغرب ہم سے یہ توقع رکھتا ہے کہ ان افراد کی حرکات کو بنیاد بنا کر پورے مغرب کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنایا جائے، تو یہی کام مسلمانوں کے لیے بھی کرنا چاہیے.

اب فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ سے لے کر ہلری کلنٹن اور امریکی صدر باراک اوباما تک اس کی حمایت اور ستائش میں بول پڑے ہیں۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے، لیکن سوچتا یہ ہوں کہ آخر یہ واقعہ پیش ہی کیوں آیا، اور کیا یہ واقعہ دنیا کی آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہوگا؟ کیا یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا آخری واقعہ ہوگا؟

ہونا تو ایسا ہی چاہیے، لیکن یقیناً ایسا ہوگا نہیں۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔