ہم پرتشدد کیوں ہیں؟
ہماری ہر دوسری بحث دھیمی آواز سے فوراً تیز تیز چِلانے اور پھر لاتوں اور گھونسوں کا روپ کیوں دھار لیتی ہے؟ ہماری ہر بحث تشدد کی طرف کیوں چلی جاتی ہے؟ لوگ لڑنا نہیں چاہتے لیکن پھر بھی کسی کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور بات بڑھ جاتی ہے۔ کیا ہمارے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں یا ہمیں لگتا ہے کہ ہماری مؤثر ترین دلیل ہمارا گھونسہ ہے؟
پاکستان میں رہتے ہوئے میں نے بھی بارہا زبانی بیانی دلائل کے بجائے 'ٹھوس دلائل'، جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، ان کا استعمال کیا۔ میں لڑائی جھگڑے میں زیادہ باتوں کا قائل کبھی بھی نہ تھا، لیکن پردیس کے ان پانچ سالوں نے بہت باتیں سننے کا حوصلہ پیدا کر دیا ہے۔ میں نے تین چار دفعہ گوروں کو لڑتے دیکھا ہے، تو ان کی عمومی لڑائی یہ ہوتی ہے کہ اونچی آواز میں تیز تیز گفتگو کرتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں، چہرہ ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک دوسرے کو غصے سے کہتے ہیں کہ 'مینوں ہتھ لا کہ تاں دکھا'، مگر کوئی کسی کو ہاتھ نہیں لگاتا اور لڑائی بغیر کسی پر ہاتھ اٹھائے ختم ہو جاتی ہے۔
لیکن ہماری لڑائی میں ہاتھ کا اٹھ جانا انتہائی معمولی بات ہے، بلکہ چھوٹی چھوٹی بات پر پستول نکل آتے ہیں اور بعد میں اپنی جھوٹی انا کی خاطر چلانے بھی پڑ جاتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ یورپی معاشرے میں مار کٹائی کا کلچر اس لیے پروان نہیں چڑھتا کہ ان کی تربیت مار کٹائی کے ذریعے نہیں ہوتی، اوائل سے ہی بچوں کو دلائل سے قائل کیا جاتا ہے، بچوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی، حتیٰ کہ ماں باپ بھی اس غیر انسانی عیاشی سے محروم ہوتے ہیں۔ اس لیے غصے اور ناراضی کا اظہار صرف باتوں سے کیا جاتا ہے۔ اسکولوں کالجوں میں بھی کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ آپ کی تربیت کے بہانے آپ کی ٹھکائی کرے، اس لیے بچوں کو اس مؤثر دلیل کے استعمال کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
اور ہمارے ہاں وگڑیاں تگڑیاں دا ڈنڈا پیر قسم کے محاورے ایک اہم مقام رکھتے ہیں اس لیے اس قسم کے آزمودہ جوہر سے ہر کوئی استفادہ کرتا ہے۔ جہاں کوئی سمجھنا نہیں چاہتا وہاں ڈنڈوں اور سوٹوں سے مدد لینا معمولی بات ہے۔
اپنی جاہلیت کے دور میں کسی مخالف کے دلائل کو عزت اور انا کی جنگ میں دشمن کے وار سمجھنا میرا بہت عام سا وطیرہ تھا۔ کئی ایک مہرباں آشناؤں سے بات تو تو میں میں سے گالیوں اور دھکم پیل سے بڑھ کر سر پھٹول تک بھی پہنچی۔ اب جب سے بالوں میں برف اتری ہے میرا لہجہ ٹھٹھر گیا ہے کے مصداق بہت سے ناگوار باتوں پر بھی دل کو بس یہ کہہ کر سمجھا لیتے ہیں کہ اب جہلاء سے کیا بحث کی جائے۔
لیکن تجربے کی وہ کنگھی جو بال اجڑ جانے کے بعد ہاتھ میں آئے چہ معنی؟ عہد جوانی میں جب سبھی جھوم جھام کر چلتے ہیں تب یہ متانت کا ہنر ہاتھ کیوں نہیں آتا اور خصوصاً ہمارے معاشرے میں تو لوگ ساری ساری عمر انسانی مزاج کی پہلی سیڑھی جسے کمپیٹیٹر کہا جاتا ہے، اس سے آگے ہی نہیں بڑھتے۔ اس درجے کی وضاحت کچھ ایسے کی جا سکتی ہے کہ آپ کسی چائے خانے میں کسی دوست سے کسی سیاسی یا سماجی موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں، اتنے میں ایک شخص کسی ساتھ والی میز سے آپ کی دلیل کی مخالفت شروع کر دیتا ہے۔ کہتا ہے اجی چھوڑیے آپ کو کیا پتہ، مجھے سب پتا ہے وغیرہ۔
ایسے لوگ بدلہ لینے اور دل میں کینہ رکھنے وغیرہ کی صلاحتیوں سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ کمال کے اچھے ورکر ہوتے ہیں، آپ ان کی تعریف کر کے جس کام پر لگانا چاہیں لگا سکتے ہیں، جب تک ان کی انا کا مساج ہوتا رہے، ان سے 24 گھنٹے کام لیا جاسکتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے اکثر کارکن اس زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی مخالفت کا مطلب کھلا دشمنی کا پیغام ہے۔
اس مقابلہ باز قسم کے انسانوں کی بستی میں کسی کا خون کھول جانا بڑی عام سی بات ہے، گھور کر دیکھ رہا تھا، کسی گلی سے گزر رہا تھا، کھانس کر گزرا، پیٹھ پھیر لی، اور اس قماش کے دیگر دلائل سے کبھی بھی کہیں بھی کسی کا بھی گریبان پکڑا جا سکتا ہے۔ تھوڑے طاقتور ہوں تو مار پیٹ بھی کی جا سکتی ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ یہ سب رویے ہمارے معاشرے میں کیونکر آ گئے۔ مذہب کی بحثوں میں ایک دوسرے کو کافر بنا کر گردن مار دینے کے فتوے دینا بھی ہمارا ہی محبوب مشغلہ کیوں ہے؟ تھپڑوں کے بغیر ہم بچوں کو کیونکر سمجھا نہیں پاتے؟ ہمارے اسکول میں حکم منوانے کا اوزار ڈنڈا کیوں ہے؟ اور مخالفین کو دھونس، دھمکیوں، اور گھونسوں سے متاثر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
بچپن سے ہی سمجھانے اور سکھانے کے ان طریقوں کے ہوتے ہوئے ہم یہ سوال بھی کیسے کر سکتے ہیں کہ ہماری قوم پرتشدد کیوں ہے۔
جواب تو ہمارے سامنے موجود ہے۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔