'فینٹم' پر ٹی وی شخصیات کا ردِ عمل اور جنسی تعصب
چند سال قبل برطانوی کالم نگار کیٹلن موران نے اپنے ایک مضمون میں خواتین کے ساتھ برتے جانے والے جنسی تعصب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ بسا اوقات یہ تعصب اس قدر غیر محسوس انداز میں برتا جاتا ہے کہ آپ اسے پہچان بھی نہیں سکتے۔
موران نے اس نکتے کی جانب توجہ دلائی کہ کس طرح جنسی تعصب ابھی تک ان اقوام میں بھی پایا جاتا ہے جن کے متعلق مانا جاتا ہے کہ وہ صنف کی بناء پر تعصب نہ کرنے کا اصول اپنا چکی ہیں، پھر بھلے ہی یہ اصول صرف کاغذات تک محدود ہو۔ آپ اسے ہلکا پھلکا تعصب کہیں، روز مرہ کا تعصب کہیں، جو چاہیں کہیں، لیکن یہ موجود ہے اور اسے پہچاننا ضروری ہے۔
گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر مچنے والے طوفان، جس میں فلم فینٹم، سیف علی خان، ایک پاکستانی ٹی وی شخصیت، ماورا حسین، شان شاہد، اور انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والے تقریباً تمام لوگ شامل تھے، میں جنسی تعصب بھی صاف دیکھا جا سکتا تھا۔
یہ سب کچھ فیصل قریشی کی سیف علی خان کے بارے میں ایک ویڈیو کے ساتھ شروع ہوا۔ حقیقت میں فیصل قریشی کی پوری ویڈیو ہر لحاظ سے صنفی تعصب کی مثال تھی۔
جب 2008 کے ممبئی حملوں پر بننے والی سیف علی خان کی فلم فینٹم کی پاکستان میں نمائش پر پابندی لگا دی گئی تو سیف علی خان نے کہا کہ "انہیں پاکستان پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔" سیف کا یہ کہنا تھا کہ فیصل قریشی نے کیمرہ سیٹ کیا، مائیک لگایا، اور جنسی تعصب اگلنا شروع کر دیا۔
اپنی 12 منٹ کی ویڈیو، جو اب تک لاکھوں بار دیکھی جا چکی ہے، میں فیصل قریشی سیف علی خان کو پاک و ہند تعلقات (وہ کہتے ہیں، "ہم جائیداد کے تنازع پر لڑنے والے دو بھائیوں کی طرح ہیں)، فلم پائریسی (وہ کہتے ہیں، "ہم ہندوستانی فلمیں غیر قانونی طریقے سے دیکھتے ہیں تاکہ آپ کی معیشت کو نقصان پہنچے) اور کئی دیگر 'غلط فہمیوں' پر سیف علی خان کو سبق دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
لیکن ویڈیو کا سب سے برا حصہ یہ نہیں تھا، بلکہ وہ ایک حکمتِ عملی کے طور پر اپنی ویڈیو کے آغاز، اختتام، اور درمیان میں چند اہم لمحات سیف کی سب سے زیادہ ہتک کرتے ہوئے انہیں ایک عورت کہہ کر بلاتے ہیں۔
ویڈیو کے آغاز میں وہ کہتے ہیں، "جناب سیف علی خان صاحبہ — دیکھو بیٹی"۔ اس کے بعد وہ سیف علی خان کو "ایک چھوٹی بچی" کہتے ہیں اور واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ "چھوٹی بچیوں کو رات 8 بجے کے بعد نہیں جاگنا چاہیے، اور اگر وہ جاگیں بھی تو انہیں جیمز بانڈ یا مشن امپاسبل جیسی فلمیں نہیں دیکھنی چاہیئں، اور خاص طور پر آپ جیسی چھوٹی بچیوں کو کیٹ وومین نہیں دیکھنی چاہیے۔"
اس ویڈیو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فیصل قریشی کے نزدیک خواتین، اور عورت ہونا کتنی بری بات ہے۔ ایک مشہور بولی وڈ اداکار کو چھوٹا ثابت کرنے کے لیے اسے عورت کہنے سے زیادہ بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ اسی تناظر میں فیصل قریشی نے سیف علی خان کو عورت کہہ کر کئی باتیں ایک ساتھ کہہ ڈالیں: انہوں نے سیف علی خان کی مردانگی پر سوال اٹھایا، انہیں پاگل، بے وقوف، اور دماغ سے عاری مخلوق قرار دے کر مسترد کیا، اور بچہ قرار دے کر خود کو ان سے بلند ثابت کیا۔ کیونکہ وہ خواتین کو اسی انداز میں دیکھتے ہیں۔
جب انہیں ان کی ویڈیو میں موجود خواتین کے خلاف تبصرے پر آڑے ہاتھوں لیا گیا تو انہوں نے ٹوئٹر پر اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "اگر میں کسی شخص کو سور کہوں تو کیا یہ سور کی توہین ہوگی؟"
جب آپ کسی کو بے عزت کرنے کے لیے کسی خاص لفظ کا استعمال کرتے ہیں، تو اس لفظ سے جڑی آپ کی نفرت سامنے آتی ہے۔ کیا کسی شخص کو سیاہ رنگت کا طعنہ دے کر 'کالا' پکارنے والا شخص سیاہ فام لوگوں سے محبت کرتا ہوگا؟ اسی طرح لفظ 'عورت' کو بے عزتی کے طور پر استعمال کرنے والے شخص کے دل میں بھی عورتوں کے لیے کوئی عزت نہیں ہو سکتی۔
بدقسمتی سے یہ کھلا جنسی تعصب یہیں ختم نہیں ہوا۔ فینٹم نے جو طوفان مچایا تھا، اس کے بارے میں اداکارہ ماورا حسین نے ٹوئٹر پر لکھا کہ "اگر یہ فلم دہشتگردی کے خلاف ہے، تو ہاں میں بھی دہشتگردی کے خلاف ہوں، اور اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ میں کس سرزمین سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں انسانیت اور محبت کی قدر کرتی ہوں اور بس۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ "میں فینٹم دیکھنا چاہوں گی اور پھر فیصلہ کروں گی کہ یہ اچھی ہے یا بری، اور ہر کسی کو یہی کرنا چاہیے۔"
فیصل قریشی کے مقابلے میں ماورا کا فینٹم پر ردِ عمل حیرت انگیز طور پر نپا تلا ہے جس میں انہوں نے اندھی جذباتیت کے بجائے سوچ سمجھ کر ردِ عمل ظاہر کرنے پر زور دیا۔ لیکن شان نے اسے اس انداز میں نہیں دیکھا، بلکہ انہوں نے فوراً ہی ماورا حسین پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کے خلاف BanMawra# کے ہیش ٹیگ کے ساتھ مہم شروع کر دی۔
|
شان کے اس سوال پر جو جوابات آنے شروع ہوئے، انہوں نے بھی فوراً ایک غلیظ لہجہ اختیار کر لیا۔ لوگوں نے ماورا کی کردار کشی شروع کر دی اور انہیں وہ الفاظ کہے جو یہاں تحریر نہیں کیے جا سکتے۔
جو زہر اگلا گیا وہ حیران کن تھا اور سیف علی خان یا فینٹم کے خلاف تمام نفرت کا رخ مکمل طور پر ماورا کی جانب موڑ دیا گیا۔
شان کی اس مہم کے جواب میں ماورا نے فیس بک پر ایک جواب تحریر پوسٹ کی جس میں انہوں نے کہا کہ ان اداکار کو ہر وقت صرف دو طرح کے لوگوں کے خلاف محاذ کھولے رکھنا پسند ہے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
ماورا کی پوسٹ ان نایاب ردِ عمل میں سے ہے جب کسی پاکستانی اداکارہ نے عوامی طور پر کسی دوسرے اداکار کو جنسی تعصب برتنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہو اور اس پر میں ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے معافی مانگے بغیر اپنے لیے آواز اٹھائی۔ ہمیں اس طرح کی چیزیں مزید دیکھنے کی ضرورت ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں اور پاکستانیوں کے جذباتی ردِ عمل کے دوران سیف علی خان سب سے کم متاثر ہوئے۔ سب سے زیادہ متاثر وہ خواتین ہوئیں جنہیں فیصل قریشی کی ویڈیو نے کمتر دکھایا، اور وہ مرد جنہیں یہ بتایا گیا کہ جنسی تعصب برتنا ٹھیک ہے۔
مشہور شخصیت کو سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ انہیں لاکھوں لوگ فالو کرتے ہیں۔ ان لاکھوں لوگوں کو خواتین سے نفرت اور جنسی تعصب نہیں سکھانا چاہیے۔ کیا ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اس چیز سے نہیں گزرتے جو اب سوشل میڈیا پر بھی یہ طوفان مچا رہے؟
سوال یہ ہے کہ اگلی بار ایسا ہونے پر کون حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے جنسی تعصب کو بے نقاب کرے گا۔
کیا یہ پھر ماورا ہوں گی یا آپ؟
لکھاری ڈان کی کلچر ایڈیٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔