نقطہ نظر

محکمہ جنگلات کی ذمہ داری درخت بچانا یا کاٹنا؟

محمکہ جنگلات کی کارکردگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کا کام درختوں کی کٹائی کو روکنا نہیں، بلکہ اس سلسلے کو جاری رکھنا ہے۔

جب بھی میں درختوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا ذہن گاؤں کے ان اشجار کو یاد کرنے لگتا ہے، جو میرے بچپن میں میرے ساتھ بڑے ہو رہے تھے۔ جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ گاؤں کے ہر انسان کا ایک ایک درخت ہے، جو کہ اس کا ساتھی ہے اور اس کے ساتھ ہی بڑا ہو رہا ہے۔ گھر کے آنگن سے لے کر گاؤں کی بیٹھک اور بہتے ہوئے واٹر کورس کے کناروں پر اگے ہوئے درختوں سے ہم سب گاؤں والے اس رشتے کو قائم رکھتے آ رہے تھے۔ اشجار سے صرف انسانوں کا ناتا نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو وہ وسیع دنیا ہے، جو کہ کیڑے مکوڑوں، جانوروں، اور پرندوں کی میراث ہے۔

وقت گزرتا گیا، ہم جوان ہو گئے، درخت بھی جوان ہوگئے، پھر ایک دن دیکھا کہ ہمارے گاؤں کے سارے درخت قتل ہو چکے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ ہمارے گاؤں کی بیٹھک کے آنگن میں ببول کا ایک قد آدم درخت ہوا کرتا تھا، جس میں کئی پرندوں کے گھونسلے تھے۔ ببول کے گرے ہوئے پتے اور اس کے زرد پھول جانور کھایا کرتے تھے جبکہ اس کا گوند ہمارے حصے میں آتا تھا۔

ببول کے اس درخت کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ ایک قدرتی چھتری ہے، جو ہمارے گاؤں کی بیٹھک کے آنگن پر پڑنے والی دھوپ کو روکا کرتی تھی۔ نیم، ببول، بید مشک اور دوسرے اشجار گاؤں کا حسن ہوا کرتے تھے۔ لیکن انسان کی ہوس اور لالچ کو کوئی لگام نہیں دے سکتا، اس لیے اسے ہر لمحہ دولت جمع کرنے کی لالچ لگی رہتی ہے۔ جیسے سندھ کے وڈیرے نہروں اور واٹر کورس کے کناروں سے درختوں کو کٹوا کر پیسے کماتے ہیں، اسی طرح ہمارے گاؤں کے وڈیرے نے بھی نہ صرف سارے درخت کٹوا دیے تھے، بلکہ آموں کا باغ بھی کٹوا دیا تھا جو اسے ہر سال لاکھوں روپے کی آمدنی دیتا تھا۔

پڑھیے: سوات کے درخت تحفظ چاہتے ہیں

اب جو کلہاڑی درختوں کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں لگی ہے وہ آج تک درختوں کے وجود کو مار رہی ہے اور ہمارے ماحول کو دوزخ بنا رہی ہے۔

ویسے تو کسی بھی ملک میں 25 فیصد جنگلات کا ہونا لازمی ہے مگر ہمارے ہاں درخت کی نہیں بلکہ اس کی لکڑی کی اہمیت زیادہ ہے، اس لیے ہمارے ہاں جنگلات آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں۔ کسی زمانے میں یہی جنگلات لاکھوں ایکڑ پر محیط تھے مگر اب صرف ہزاروں ایکڑ تک محدود ہو گئے ہیں۔ اگر درختوں کی کٹائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہی جنگلات کچھ سو ایکڑ تک محدود ہو کر رہ جائیں گے۔

ایک اندازے کے مطابق روس میں 48 فیصد، برازیل میں 58 فیصد، انڈونیشیا میں 47 فیصد، سوئیڈن میں 74 فیصد، اسپین میں 54 فیصد، جاپان میں 67 فیصد، کینیڈا میں 31 فیصد، امریکا میں 30 فیصد، بھارت میں 23 فیصد، بھوٹان میں 72 فیصد اور نیپال میں 39 فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں صرف 2.19 فیصد جنگلات ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کتنے ماحول دوست ہیں۔ اس کے علاوہ مینگرووز کے جنگلات تقریباً 207000 ہیکٹرز پر ہیں۔ سندھ میں یہ 600000 ہیکٹرز پر مشتمل ہیں، جبکہ محکمہ جنگلات اس وقت 241198 ہیکٹرز تک کچے کی زمین پر اپنا کنٹرول رکھتا ہے۔

ہمارے ملک میں اب جس درخت کو زیادہ اگایا جا رہا ہے وہ کونوکارپس (Conocarpus) ہے۔ یہ یہاں کا مقامی درخت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق شمالی امریکا سے ہے، جسے محکمہ جنگلات نے درآمد کیا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ محکمہ جنگلات کی نااہلی کے بنا کونوکارپس کو اگایا جائے۔ آج سے کچھ برس قبل جب بلدیاتی نظام تھا تو کراچی کی شہری حکومت نے 55 لاکھ کونوکارپس ایتھوپیا سے درآمد کر کے کراچی میں لگائے تھے۔ ہمارے مقامی اشجار جن میں نیم، برگد، جامن، اور شیشم شامل ہیں، انہیں بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

حیرت انگیز: دنیا کے 16 شاندار درخت

قدرت کے تحفظ کی عالمی تنظیم آئی یو سی این سے وابستہ ندیم میربحر کا کہنا ہے کہ "یہ ایک نمکین درخت ہے، اس کا پتا جہاں بھی گرتا ہے وہاں سیم پیدا کرتا ہے، اسے لوگ دیہی علاقوں میں نہیں اگاتے، اور نہ ہی کوئی پرندہ اس میں گھونسلا بناتا ہے۔" کراچی میں آنے والی حالیہ گرمی کی لہر کے دوران لوگ اسی درخت کے سائے تلے جا کر بیٹھے مگر اس میں ٹھنڈے سائے کی تاثیر ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ سانس کی الرجی کا بھی سبب بنتا ہے۔ جس سے دمہ ہوتا ہے۔"

زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے پروفیسر محمد اسماعیل کنبھر بتاتے ہیں کہ "یہ ایک غیر ضروری درخت ہے، اس کے بجائے نیم کو زیادہ سے زیادہ اگایا جائے، کیونکہ کونوکارپس دور سے تو ہرا بھرا دکھائی دیتا ہے مگر اس کا طویل مدتی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ درخت جلد بڑھ جاتا ہے، اس لیے اسے زیادہ لگایا جاتا ہے۔ مگر یہ ہمارے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔"

ہمارے محمکہ جنگلات کی کارکردگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس کا کام درختوں کی کٹائی کو روکنا نہیں، بلکہ اس سلسلے کو جاری رکھنا ہے۔ کسی زمانے میں نواز شریف نے "عقلمندی" کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ کے کچے میں ڈکیتوں کے خلاف آپریشن کے دوران جنگلات کی کٹائی کو ترجیح دی تھی۔ یہ عمل بالکل ایسے ہی تھا کہ انسان کے ناخن بڑھ جائیں اور ناخن کاٹنے کے بجائے انگلیاں کاٹ دی جائیں، سو ڈکیتوں کو پکڑنے کے لیے اس وقت کی حکومت نے بھی درختوں کا قتل عام کرنا شروع کیا۔

پڑھیے: پنجاب کے طلبا کی شجرکاری مہم

کچھ روز قبل چین کے دو معذور دوستوں کے کارنامے کی خبر نے دل کو موہ لیا، جن میں سے ایک دونوں بازؤوں، اور ایک بینائی سے محروم ہے۔ بازوؤں سے محروم جیا وینگجائی کی عمر 53 اور نابینا دوست جیا ہیکشیا کی عمر 54 سال ہے۔ ہیکشیا روز اپنے دوست وینگجائی کی بازوؤں سے خالی آستین پکڑے اسے جھیل کنارے لے جاتا ہے اور اس کا دوست اسے اپنی پیٹھ پر سوار کروا کر دوسرے کنارے تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ دریائے ای یے کے بنجر کناروں پر دونوں دوستوں نے 10 ہزار درخت لگائے اور یہ ثابت کر کے دکھایا کہ اصل میں معذور وہ لوگ ہیں جو درخت لگانے کے بجائے انہیں اکھاڑتے یا کاٹتے ہیں۔

مجھے آج بھی گاؤں کے وہ درخت یاد ہیں، جن میں پرندوں اور جانوروں کی ایک دنیا آباد تھی۔ اس وقت درخت کاٹنے نہیں بلکہ لگانے کا رواج تھا۔ درخت آکسیجن کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔ یہ ہمارے ایکوسسٹم کو بہتر بناتے ہیں، اور ہمارا تعلق فطرت سے قائم رکھتے ہیں۔ ایک درخت بیسیوں پرندوں کا گھر ہوتا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ جس طرح درخت ہمیں زندگی فراہم کرتے ہیں اسی طرح ہم بھی انہیں زندہ رہنے کا حق دیں، اور معصوم و بے زبان پرندوں سے ان کا گھر نہ چھینیں۔


متعلقہ مضامین

صنوبر کی فریاد

سونامی کا مطلب کیا ہے؟

پاکستانی جنگلوں کا مستقبل خطرے میں؟

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔