نقطہ نظر

مزید رہائشی اسکیمیں، مگر کس قیمت پر؟

ملکی زرعی ادارے کتنے بھی بدحال ہوں، لیکن ہمارا اپنی خوراک کی ضروریات میں خود کفیل ہونا انہی اداروں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔

زراعت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ اور ایسا ہونا ضروری بھی ہے کیونکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 20 فیصد سے زیادہ ہی رہا ہے۔ لوگوں کی بھوک مٹانے والی، پاکستان کو خوراک میں خود کفیل بنانے والی، بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں کو بھی نان شبنہ کھلانے والی زراعت کو ترقی دلوانا کبھی بھی ہماری پہلی ترجیح نہیں بن پائی۔

زرعی اداروں میں بجٹ کی تقسیم ہو، یا زراعت کی ریسرچ کے لیے رقم مختص کرنا ہو، زراعت کو اس کا حصہ بقدر جثہ کبھی بھی نہیں ملا۔ اپنے دفاتر میں چارپائیوں سے کرسیوں کا کام لینے والے زراعت آفیسر بس نام ہی کے آفیسر ہوتے ہیں۔ ان کی سرکاری گاڑیاں حکومتی مشینری کے ہرکارے چلاتے ہیں اور یہ بے چارے ان گاڑیوں کے جعلی مچلکے ہی بھرتے رہ جاتے ہیں۔

جب کبھی بھی پاکستان میں کسی قسم کی کوئی اضافی ڈیوٹی دینا مقصود ہو تو اساتذہ کے ساتھ ساتھ جس محکمے کو بیگار کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے وہ محکمہ زراعت ہی ہے۔ سبزی منڈی اور بازار میں مہنگے بکتے ہوئے آلو ٹماٹر کے بھاؤ پر قابو پانا ہو یا بڑی عید کے بکروں کے نرخ سنبھالنا ہوں، محکمہ زراعت اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ ان کاموں کو بطریق احسن ادا کرتا ہے۔ سرکاری آفیسرز کی کالونیوں میں مچھروں کے خلاف مہم چلانی ہو یا شہروں دیہاتوں سے ڈینگی کو بھگانا ہو، محکمہء زراعت کے مستعد جوان ہی ان مہموں کا ایندھن بنتے ہیں۔ الیکشن کی ڈیوٹیاں بھگتانی ہوں یا کسی پروٹوکول پر حاضرین کی تعداد کم پڑنے کا اندیشہ ہو تو نزدیکی زرعی دفتر فون گھمائیں، دو چار درجن بیلدار کسی بھی سیاسی اکٹھ کی رونق بڑھانے آ سکتے ہیں۔

کوئی تو بتائے کہ اس محکمہء زراعت کا اصل کام ہے کیا؟ ایک زراعت آفیسر کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ پاکستان کا محکمہ زراعت آخر کس مرض کی دوا ہے؟ کیا یہ خود ہی کام نہیں کرنا چاہتے یا ان کو کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا؟ جو بجٹ ان کو ملتا ہے اس کا 80 فیصد تو ملازمین کی تنخواہوں میں نکل جاتا ہے۔ باقی 20 فیصد سے کیا تحقیق ہو سکتی ہے؟ لوگ ساری ساری عمر گریڈ 17 سے 18 میں ترقی نہیں کرپاتے، کوئی ڈاکٹر تو ہیں نہیں کہ ایمرجنسی بند کردیں اور حکومت کے کانوں پر جوں کو رینگنے پر مجبور کردیں اس لیے ان کی فریاد بھی کوئی نہیں سنتا۔

پاکستان میں زرعی ادارے کتنے بھی بدحال ہوں، لیکن پاکستان کا اپنی خوراک کی ضروریات میں خود کفیل ہونا انہی زرعی اداروں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ ہاں اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں پیداوار کا تناسب بہت بڑھایا جا سکتا ہے، اور ان اداروں میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش ہے، لیکن پھر بھی اگر صرف ایک زرعی ادارے نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر کی کارکردگی کا تھوڑا سا جائزہ لیا جائے تو بخوبی ایسے کسی بھی ادارے کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔

پاکستان کا یہ ادارہ دنیا بھر کے زرعی تحقیقی اداروں سے رابطے کا ایک ذریعہ ہے اور زراعت کی تحقیق کے بین الاقوامی اداروں جیسے ایف اے او، سمٹ، ارری، جیکا، اکارڈا، (FAO, IRRI, AVRDC, ILRI, CIMMYT, JICA, ICARDA, ICIMOD) وغیرہ کے لیے ایک کیمپ آفس کا کام سر انجام دیتا ہے۔ ان بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے یا رابطہ رکھنے والے 200 سے زائد پی ایچ ڈی ڈاکٹر اپنے اداروں کی محرومیاں دنیا کی نظروں سے کس طرح چھپاتے ہیں یہ ایک الگ باب کا متقاضی ہے۔

دنیا میں زراعت کے میدان میں ہونے والی تحقیق ایسے ہی اداروں کی وجہ سے پاکستان میں داخل ہوتی ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی زرعی تحقیق کا پاکستانی دروازہ یہی پاکستانی ادارہ ہے۔

اس ادارے نے گندم کو سٹے کی بیماریوں سے بچانے کے لیے جو محفوظ اقسام تیار کیں، اس سے ہونے والی بچت کا تخمینہ 58 ارب روپے سالانہ ہے۔ 30 سے زائد اقسام کے زرعی آلات اسی ادارے نے تیار کیے اور پاکستان کے کسانوں تک پہنچائے۔ پاکستان سے باہر پاکستان کی زرعی مصنوعات کی تصدیق اور تشہیر کے لیے انمول خدمات سر انجام دیں۔ بین الاقوامی معیار کا ایک جین بینک قائم کیا جس میں 35 ہزار اقسام کے پودوں کے جینیاتی مادے کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ پاکستان کو برڈ فلو نامی بیماری کے عذاب سے نجات کا راستہ بھی اسی ادارے سے ہو کر نکلا۔ سورج مکھی، گندم، اور چارے کے نئے بیچ ہوں یا صحت بخش کنولا بیج کی پیدوار، اس ادارے نے زراعت کی سبھی سمتوں میں پاکستان کی معاونت کی ہے۔

جب ہم باغ جناح لاہور کے زراعت آفیسر ہوا کرتے تھے (ویسے آپ کو بتاتے چلیں کہ میری اصل پوسٹنگ گرین بیلٹ نامی ڈپارٹمنٹ میں تھی اور باغ جناح لاہور اور راولپنڈی گرین بیلٹ کے زراعت آفیسر کی اضافی ذمہ داری ہمارے ناتواں کندھوں پر تھی) تو سنا کرتے تھے کہ باغ کی زمین پر بڑے بڑے لوگوں کی نظریں ہیں اور لوگ لاہور کے دل سے کچھ ٹکڑے چرانے کے چکر میں ہیں۔ ایسی خبریں ہر سرکاری زمین کے ساتھ نتھی ہیں۔ جہاں جہاں سرکاری زمینیں موجود ہیں، دولت والوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔

سرکاری جنگلات کٹنے کی کہانیاں آپ نے سن رکھی ہوں گی، سرکاری زمینوں پر قبضے کی داستانیں بھی آئے دن کی کہانیاں ہیں۔ اب تازہ معرکہ اسلام آباد میں نیشنل ایگری کلچر ریسرچ سینٹر (این اے آر سی) اسلام آباد کی زمین پر لڑا جائے گا۔ سی ڈے اے کی طرف سے وزیرِ اعظم کو جو سمری بھیجی گئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ این اے آر سی کے زیر استعمال 1200 ایکڑ زمین پر رہائشی کالونیاں بنا کر 150 ارب روپے کمائے جاسکتے ہیں۔

جو ادارہ کبھی اسلام آباد کے مضافات میں تھا، شہر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ شہر کا دل بن گیا ہے۔ ایسی زمین پر کسی کا دل للچا جانا سمجھ آتا ہے، لیکن ارباب اختیار کو یہ سوچنا ہو گا کہ ان کومرغی ذبح کرنی ہے یا انڈوں کا انتظار کرنا ہے؟ پاکستان کی بین الاقوامی پہچان کا حامل یہ ادارہ جو دنیا بھر کے بڑے بڑے اداروں کے سب سینٹرز کا درجہ بھی رکھتا ہے، کیا اپنے بدن سے محروم کر دیا جائے گا؟ وہ جین بینک جس کو بنانے کے لیے ایک صدی کی محنت درکار ہوا کرتی ہے، نادر نباتاتی اقسام کا قبرستان بن کر رہ جائے گا؟

زرخیز زرعی زمینوں کی لاشوں پر انسانی بستیاں بسانے والوں کو ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر سوچنا ہو گا کہ اپنے خوابوں کی بستیاں تو وہ تعمیر کر لیں گے، مگر ان میں بسنے والے انسانوں کے پیٹ کیونکر بھر پائیں گے؟

لیکن سی ڈی اے اور ایک زرعی ادارے کے درمیان جنگ کا نتیجہ معلوم کرنے کے لیے کسی علم قیافہ شناسی کی بھی ضرورت نہیں۔ مجھے معلوم ہے یہ بے جان سا ادارہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ پاکستان میں تحقیق کی اہمیت سمجھنے والے کوئی آواز ہی نہیں رکھتے۔ کسی کو معلوم تک نہ ہو گا کہ زرعی تحقیق کے نام لکھی یہ زمین کیسے ان سے چھن گئی۔ ایک بے بس ادارے کے بے بس سرکاری افسر یہ لڑائی کیونکر لڑ پائیں گے؟

یہ لڑائی ہمیں ہی لڑنی ہوگی۔ اپنے اپنے حلقے کے ایم این ایز اور سینیٹرز کو اس حوالے سے خطوط لکھ کر اپنے تحفظات سے آگاہ کریں، اور ہوسکے تو چند ایک خطوط سی ڈی اے اور جنابِ وزیرِ اعظم کے نام بھی لکھ ڈالیں۔ ان کی اس جانب توجہ دلائیں کہ زرعی تحقیق ایک زرعی ملک کی ترقی کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ ہم جب دنیا سے آخری درخت تک کاٹ ڈالیں گے، تب خوراک کے یہ ذرائع اجاڑ دینے کے بعد ہمیں اندازہ ہوگا کہ دولت نہیں کھائی جا سکتی۔ کیا ہم خوراک کے ذرائع پر دولت کو ترجیح دے کر اس مقولے کو خود پر سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟


اپنی آواز پہنچانے کے لیے پٹیشن پر یہاں دستخط کریں۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔