نقطہ نظر

"پاک امریکا دوستی، وزیر اعظم انجن ڈرائیور"

ملکی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنے پر واضح نظر آتا ہے کہ اکثر جمہوری حکمران آمروں یا بیوروکریسی کی حمایت سے حکومت میں آئے۔

محمد علی بوگرا وہ شخصیت تھی جنہیں جب وزیرِ اعظم پاکستان نامزد کیا گیا تو وہ اس وقت امریکا میں پاکستان کے سفیر تھے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد انہیں وزیرِ اعظم نامزد کیا تھا۔ ان کی نامزدگی کے بارے میں مشہور تھا کہ انہیں امریکا کی پشت پناہی حاصل تھی۔ محمد علی بوگرا غلام محمد سے کس قدر عقیدت رکھتے تھے، اس کا اظہار نعیم احمد کی مرتبہ کتاب ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ کے صفحہ نمبر 73 پر درج ہے۔ مؤلف ”پاک امریکا دوستی، وزیرِاعظم انجن ڈرائیور“ کے عنوان سے لکھتے ہیں:

”امریکا نے ایک دفعہ پاکستان کو دوستی کے تحت ریلوے کے چند انجن دیے۔ ان انجنوں کے وصول کرنے کی رسم ادا کرنی تھی۔ دراصل گورنر جنرل کو یہ انجن وصول کرنے تھے۔ لہٰذا گورنر جنرل صاحب باقاعدہ اپنی گاڑی میں اس مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن بوگرا صاحب ایک فوجی کی موٹر سائیکل کو خود چلانے لگے اور گورنر جنرل کی گاڑی کے آگے آگے پائلٹ کا کردار ادا کیا۔ جب ریلوے اسٹیشن جہاں پر انجن کھڑے تھے، وہاں پہنچے تو انجن کے اندر پہنچ گئے۔ انجن کے ڈرائیور کی ٹوپی لے کر اپنے سر پر پہن لی اور انجن چلانا شروع کر دیا۔“

خواجہ ناظم الدین کی برطرفی اپنی جگہ لیکن بوگرا کی نامزدگی میں ان کی جو قابلیت ہو گی، سو ہو گی۔ سفیر سے وزیرِ اعظم تک ان کی ترقی کا یہ پہلو بھی خاص حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا میں دورانِ سفارت کاری ان کا ایک کارنامہ یہ بھی تھا کہ ان کے ہمراہ ایک لبنانی لڑکی بھی تھی جس کا خاندان کینیڈا میں آباد تھا۔ بوگرا صاحب کی اس سے شناسائی کینیڈا میں ہوگئی تھی۔ اس لڑکی کا نام عالیہ تھا اور وہ ان کی اسٹینو گرافر تھی۔ بعد ازاں جب بوگرا صاحب کو امریکا میں سفیر مقرر کیا گیا تو وہ اس لڑکی کو اپنے ہمراہ نیویارک لے آئے۔

عالیہ بیگم سے شناسائی کا سفر یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ جب بوگرا صاحب کا تقرر وزیرِاعظم پاکستان کی حیثیت سے ہوا، تو پاکستان آنے کے بعد عالیہ بیگم کی تقرری وزیرِاعظم کی سوشل سیکریٹری کی حیثیت سے ہوئی۔ وزیرِاعظم محمد علی بوگرا کے پاس جو بھی فائلیں آتیں، ان کا معائنہ عالیہ بیگم وزیرِ اعظم کے کمرے میں گھنٹوں بیٹھ کر کرتیں۔ عالیہ بیگم کی اس محنت کا پھل ان کو اس صورت میں ملا کہ وہ بوگرا سے شادی کے بعد پاکستان کی خاتونِ اول بن گئیں۔

وزیرِاعظم ہاؤس کے چپراسی مجید کے مطابق بوگرا صاحب کی پہلی بیگم حمیدہ اکثر اس کو اپنے پاس بٹھا لیتیں اور باتیں کرتی رہتیں۔ وہ اکثر کہا کرتیں کہ ہم نے تو اس کو (یعنی دوسری بیگم کو) نوکر رکھا تھا، آج اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا!

عالیہ بیگم اور بوگرا صاحب کے اس اقدام کو مقتدر حلقوں کی خواتین کی جانب سے اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ خواتین کو خطرہ یہ تھا کہ بوگرا کی پیروی کرتے ہوئے اگر دوسرے مقتدر حضرات نے بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا عمل شروع کر دیا تو ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ رافیعہ ذکریا اپنی کتاب ”The Upstairs Wife“ کے صفحہ نمبر 45 پر لکھتی ہیں کہ:

”ان خواتین نے ایسی تمام سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ شروع کر دیا جس میں خاتونِ اول مدعو ہوتیں۔ ان تقریبات میں غیر ملکی سفیروں کے اعزاز میں عشائیے، نیشنل یونیورسٹی کا افتتاح، پاکستان سیکریٹریٹ میں نئی شاخ کا آغاز اور ایسی تمام تقریبات میں نئی مس بوگرا کی موجودگی کے معنی مقتدر خواتین اور ان کی بیٹیوں کی غیر حاضری ہوتی تھی۔ یہ خواتین اشرافیہ کی جانب سے منعقدہ تقریبات کی میزبان ہوتی تھیں، اور انہوں نے بالکل صحیح اندازہ لگایا تھا کہ ان کے سوا مرد کی حیثیت اس گاڑی کی طرح ہے جو تیل اور گریس کے بغیر چل رہی ہو۔ ان کی روایتی گفتگو اور لطیفوں کے دوران دبی دبی ہنسی سے اس بات کا اظہار ہوتا تھا کہ اگر وہ مسٹر بوگرا کے اس غلط قدم کو تسلیم کر لیں تو وہ ایک حد تک محدود نہیں رہے گا۔ ایک سے زیادہ شادیوں کے خلاف سوشل بائیکاٹ ان کا اس سلسلے میں پہلا قدم تھا۔“

محمد علی بوگرا اور غلام محمد کے تعلقات میں کیا بگاڑ پیدا ہوا کہ بوگرا صاحب جو غلام محمد کی محبت میں ان کی گاڑی کے پائلٹ اور انجن ڈرائیور تک کا فریضہ فخریہ انجام دے چکے تھے، ان سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا؟ مرحوم فوجی آمر، خود ساختہ فیلڈ مارشل بہ قول شیخ عبدالمجید سندھی کے ”بغیر کوئی جنگ لڑے“، اپنی کتاب ”Friends Not Masters“ کے اردو ترجمے ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ کے صفحہ نمبر 84 پر لکھتے ہیں:

”محمد علی بوگرا نے غلام محمد کے منظورِ نظر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ جب ان کے قدم ذرا جمے تو انہوں نے خود کو گورنر جنرل کے بندھنوں سے آزاد کرنا چاہا۔ اُدھر فضل الرحمان، ہاشم گزدر، اور عبدالستار پیرزادہ جیسے لوگ ان کے کان بھر رہے تھے کہ یاد رکھو اگر تم نے احتیاط نہ کی تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو تمہارے پیش رو کا ہو چکا ہے۔ ان کے خیال میں اس کا بس ایک ہی علاج تھا، وہ یہ کہ انڈین اِنڈیپینڈینس ایکٹ 1947 میں ترمیم کر کے گورنر جنرل کے اختیارات محدود کر دیے جائیں۔“

ایسا ہی ہوا۔ وزیرِ اعظم محمد علی بوگرا اور ان کے رفقائے کار نے ایک منصوبہ ترتیب دیا کہ اسمبلی کے اجلاس میں اس طرز کی قرارداد منظور کروائی جائے۔ اس حکمتِ عملی کے پیشِ نظر دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قبل قرارداد تمام اراکینِ اسمبلی کی ڈیسکوں پر نیم شب کو رکھ دی گئیں۔ قرارداد کے مطابق انڈیا ایکٹ کی دفعات 9، 10، 10 الف، 10 ب اور 17 منسوخ کر دی گئیں۔ اس قرارداد کی منظوری میں تقریباً دس منٹ کا وقت لگا۔ غالباً اسی روایت کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کی 67 سالہ تاریخ میں قرارداد اور قوانین اسمبلی میں اسی تیزی سے منظور کیے جاتے رہے ہیں۔

یہ گورنر جنرل غلام محمد کے لیے محمد علی بوگرا اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے ایک واضح اشارہ تھا کہ اب وہ اس قدر با اختیار نہیں رہے کہ اپنے آئینی اختیارات کی بنیاد پر کسی بھی حکومت کو ایک لمحے میں برطرف کر دیں۔ یہ قرارداد منظور ہونے کے بعد مطمئن اور خوش وزیرِ اعظم محمد علی بوگرا، ایوب خان، سر ظفر اللہ خان، اور چوہدری محمد علی کے ہمراہ امریکا کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ امریکا کے علاوہ انہیں کینیڈا کا بھی دورہ کرنا تھا۔ دورے کے دوران انہیں گورنر جنرل غلام محمد کا پیغام ملا کہ وہ فوراً وطن واپس لوٹ آئیں۔

اس پیغام نے محمد علی بوگرا کو پریشان کر دیا۔ ایوب خان اپنی کتاب ”Friends Not Masters“ کے اردو ترجمے ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ کے صفحہ نمبر 86، 87 اور 88 پر لکھتے ہیں کہ:

”لندن ایئرپورٹ پر گورنر جنرل نے مجھے ٹیلی فون پر بلوایا۔ لیکن ان کی بات میری سمجھ میں مطلق نہیں آئی۔ میں نے ٹیلی فون اسکندر مرزا کو دے دیا۔ ہمیں بس اسی قدر معلوم ہو سکا کہ وہ مجھے فوراً پاکستان بلانا چاہتے ہیں۔ انہیں دوسروں سے غرض نہ تھی۔ وزیرِ اعظم کو اس بات سے بڑی تشویش تھی کہ واپسی پر ان کا حشر کیا ہوگا۔ میں نے بڑی مشکل سے انہیں سمجھا بجھا کر اپنے ساتھ وطن چلنے پر تیار کر لیا۔ راستے میں میں نے اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی سے کہا کہ کراچی پہنچتے ہی وزیرِ اعظم کو گورنر جنرل کے پاس لے جانا سخت خلافِ مصلحت ہوگا۔ ایسا آمنا سامنا بدمزگی کا موجب ہو سکتا ہے۔ وزیرِ اعظم اپنے بنگلے پر جائیں اور ہمارے اشارے کے منتظر رہیں۔

"محمد علی بوگرا نے ظاہر میں تو بڑی جرأت کا اظہار کیا مگر میرا خیال ہے کہ وہ دل میں بڑے خائف تھے۔ انہوں نے لندن سے پیغام بھیجا تھا کہ کراچی پہنچنے پر ان کے لیے فوجی حفاظت کا انتظام کیا جائے۔ اسکندر مرزا، چوہدری محمد علی اور میں، ہم تینوں تو گورنر جنرل کی کوٹھی پر پہنچے۔ وہ غصے سے آگ بگولہ ہو رہے تھے، اور گالیوں کی بوچھاڑ تھی کہ تھمنے کا نام نہ لیتی تھی۔ لیکن خوش قسمتی سے یہ گالیاں کسی کی سمجھ میں نہ آتی تھیں۔ چوہدری محمد علی نے جرأت کر کے کچھ کہا، اس کے جواب میں ان پر بوچھاڑ پڑی۔ اس کے بعد اسکندر مرزا کچھ بولے، ان پر بھی بوچھاڑ پڑی۔ ہم ان کی خدمت میں یہ گزارش کرنا چاہتے تھے کہ آپ محمد علی کو ایک موقع اور دیں۔ اس کے جواب میں غصے میں انہوں نے غرا کر کہا: ”جاؤ، جاؤ، دور ہوجاؤ۔ ان کی زبان سے بار بار ”نہیں، نہیں“ کے الفاظ نکلتے۔ وہ بس ہم کو بھگا دینا چاہتے تھے۔

"ہم ایک کے پیچھے ایک ان کی خواب گاہ سے نکلے۔ آگے آگے اسکندر مرزا، ان کے پیچھے محمد علی اور سب سے پیچھے میں۔ میں کمرے سے قدم باہر رکھنے ہی کو تھا کہ ان کی نرس جو کہ ان کی خدمت پر مامور تھی، نے میرا کوٹ پکڑ کر کھینچا، میں پلٹا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ میں ایک بالکل مختلف آدمی سے دو چار ہوں۔ یہی ہمارے بوڑھے اور بیمار گورنر جنرل جو تھوڑی دیر پہلے غصے سے دیوانے ہو رہے تھے، اب ان کا چہرہ مسرت سے کھِل اُٹھا تھا اور وہ قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے دل میں کہا: ”آپ بھی بڑے حضرت ہیں۔“ انہوں نے ایک خاص مسرت کی چمک آنکھوں میں لیے مجھے اشارہ کیا، ”مسہری پر بیٹھ جاؤ“۔

"اس کے بعد انہوں نے تکیے کے نیچے سے دو دستاویزیں نکالیں۔ ان میں سے ایک پر کچھ اس قسم کی عبارت تھی کہ ”میں غلام محمد فلاں فلاں وجوہ کی بنا پر فلاں فلاں اختیارات جنرل ایوب خان کو سونپتا ہوں اور انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ تین مہینے کے اندر اندر آئین تیار کریں۔“ میں نے اس کاغذ پر نظر ڈالی اور دل میں کہا ”خدا آپ کو سمجھے۔ پچھلے 8 برس تو آپ کو ہوش نہ آیا اور اب چاہتے ہیں کہ میں تین مہینے میں دستور بنا کے پیش کردوں۔“

"دوسری دستاویز اس مضمون کی تھی کہ میں نے اس پیشکش کو قبول کر لیا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے میں ان تاریخی دستاویزوں کو اپنے ہاتھ میں تھامے رہا۔ جیسے ہی میں نے ان کاغذوں پر نظر ڈالی میرا تن بدن پُکار اُٹھا کہ: ”نہیں، ہر گز نہیں۔“ میں نے ان سے کہا، ”آپ جلد بازی سے کام لے رہے ہیں۔ اس سے ملک کو سخت نقصان پہنچے گا۔ میں فوج کی تعمیر میں مصروف ہوں۔“"

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایوب خان نے اپنی کتاب میں جا بجا اور برملا طور پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انہیں گورنر جنرل کی بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ لیکن جو باتیں ان کے مقصد کی ہوتی تھیں وہ بڑی آسانی سے سمجھ جاتے تھے۔ محمد علی بوگرا کی انہوں نے گورنر جنرل سے ملاقات بھی کروائی، لیکن اس ملاقات کے دوران کیا ہوا، اس حوالے سے ان کا قلم خاموش ہے۔ ظاہر ہے خاموش رہنا بھی چاہیے، کیونکہ یہ ایسی تلخ حقیقت ہے جو ان کے بیان سے باہر ہے۔

پیر محمد علی راشدی کے کالموں پر مرتبہ کتاب ”رودادِ چمن“ کے صفحہ نمبر 127 پر یہ واقعہ مرحلہ وار بیان کیا گیا ہے:

”(الف) 1954 میں جب غلام محمد مرحوم اور بوگرا مرحوم کے مابین جھگڑا ہوا تھا اور بوگرا مرحوم امریکا کے دورے پر نکل گئے تھے تو غلام محمد نے ایوب خان کو امریکا تک اس کے پیچھے لگایا ہوا تھا۔

(ب) بوگرا مرحوم کے امریکا سے واپسی والے سفر میں ایوب خان اس کے ساتھ چپکے رہے اور کراچی اترتے ہی ان کو ایئر پورٹ سے سیدھا غلام محمد کے پاس لے گئے۔

(ج) جس وقت غلام محمد مرحوم پستول دکھا کر بوگرا سے آئین ساز اسمبلی تڑوا رہے تھے تو اس وقت بھی (چوہدری محمد علی کے علاوہ) ایوب خان اس ”محفل“ میں موجود رہے۔

(د) غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی کو تڑوانے کے ساتھ بوگرا مرحوم سے مرکزی کابینہ میں ایوب خان کو وزیرِ دفاع بنوایا۔ (ساتھ ہی انہوں نے فوج کی کمانڈر ان چیفی بھی نہیں چھوڑی)“

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو ایک بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ اکثر جمہوری حکمران آمروں یا بیوروکریسی کی حمایت سے حکومت میں آئے، مگر اقتدار میں آنے کے بعد جلد ہی انہیں اس بات کا اندازہ ہوجاتا کہ وہ آمروں کی من مانیاں پوری نہیں کر سکتے۔ اس بناء پر جب وہ آمروں کی ہدایات کو نظر انداز کرتے تو فوراً ہی انہیں بد عنوان، موقع پرست اور ملک دشمن قرار دے دیا جاتا، اور ان کا سیاسی دور ان کی معزولی یا برطرفی پر ختم ہوتا۔ محمد علی بوگرا کے ساتھ بھی شاید یہی ہوا اور ملک غلام محمد کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش میں وہ اپنے اختیارات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔