پاکستان میں بوتل بند پانی بھی غیر محفوظ؟
پینے کے صاف پانی کی کمی کے باعث وسائل رکھنے والے پاکستانی بوتل بند پانی خریدنے پر مجبور ہیں، لیکن بار بار کے لیبارٹری ٹیسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں بھی معیار اورتحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 18 کروڑ سے زائد آبادی کے تقریباً 35 فیصد حصے کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ پاکستان کی نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009 کے مطابق پانی، صفائی، اور حفظان صحت سے متعلق بیماریوں کے باعث قومی خزانے پر ہر سال 112 ارب روپے (1.1 ارب ڈالر) کے اخراجات کا بوجھ پڑتا ہے۔
پینے کے پانی کے ناقص معیار نے وسائل رکھنے والے لوگوں کو بوتل بند پانی خریدنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک کی 2011 کی رپورٹ کے مطابق پانی سے متعلق اخراجات کا 29 فیصد بوتل بند پانی کی کھپت پر خرچ ہوجاتا ہے جو کہ کل معاشی قیمت کا 1.4 فیصد اور 0.05 فیصد کے برابر ہے۔ استعمال ہونے والے بوتل بند پانی کی لاگت 4.67 ارب روپے (76.72 ملین ڈالر) تھی۔
غلام مرتضیٰ کراچی بھر میں دستیاب بظاہر صاف اور جراثیم سے پاک پانی کی بوتلوں کی ظاہری شکل و صورت سے کبھی دھوکا نہیں کھاتے، کیونکہ وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے زیر زمین اور بوتل بند پانی کے معیار کی نگرانی کے کام سے منسلک ہیں، لہٰذا سمجھتے ہیں کہ بوتل کی ظاہری شکل و صورت اور بوتل میں موجود پانی کا معیار دو علیحدہ حقیقتیں ہیں۔
حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز (PCRWR) کی بوتل بند پانی کے معیار پر تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پانی کے معیار کے حوالے سے بہت سے سنگین الزامات اٹھتے ہیں جن سے مرتضیٰ ایک تحقیقی افسر کے طور پر کام کرتے ہوئے اچھی طرح سے واقف ہیں۔
دیہی اور زیرِ زمین پانی کے حوالے سے تحقیقات اور ملک کے چاروں صوبوں میں 19 لیبارٹریز کے ذریعے نگرانی جیسے متعدد کاموں کے ساتھ ساتھ PCRWR سال 2005 سے بوتل بند پانی کی جانچ بھی کر رہی ہے۔
مرتضیٰ نے تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہر سہ ماہی میں ٹیسٹ کی گئی پانی کی برانڈز پر ایک رپورٹ وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کو جمع کرواتے ہیں۔
حالیہ رپورٹ میں مارکیٹ میں دستیاب 71 برانڈز میں سے ہر ایک کی 4 بوتلوں کے نمونے جمع کیے گئے اور موقع ہی پر انہیں شناختی کوڈ الاٹ کر کے سیل کر دیا گیا۔ یہ نمونے پاکستان کے تین صوبوں کے سات بڑے شہروں اسلام آباد، راولپنڈی، ٹنڈو جام، لاہور، کوئٹہ، سیالکوٹ اور کراچی سے جمع کیے گئے۔
آٹھ برانڈز حتمی طور پر غیر محفوظ تھے
پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے 8 برانڈز انسانی استعمال کے لیے ”مکمل طور پر غیر محفوظ“ پائے گئے کیونکہ ان میں آرسینِک، سوڈیم اور پوٹاشیم کی مقدار قومی معیاراتی ادارے کی منظور شدہ سطح سے کہیں زیادہ تھیں۔
PSQCA سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے تحت کام کرتے ہوئے اس بات کے یقین کے بعد کہ ان کی کوالٹی مقرر کردہ معیار کے مطابق ہے، بوتلوں کے پلانٹس کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے لائسنس جاری کرتی ہے۔ پانی کے ان نمونوں میں سے مزید تین بوتل بند پانی کے برانڈز غیر محفوظ ثابت ہوئے ، ان میں سنکھیا کی سطح PSQCA طرف سے مقررشدہ 10 حصے فی ارب (PPB) کی حد کے مقابلے میں 11 سے 35 PPB تھی۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل مرزا علی اظہر نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ اگر آرسینک کی سطح مقرر کردہ معیار سے بڑھ جائے تو وہ رفتہ رفتہ اعصابی نظام، جگر اور گردوں کو تباہ کر سکتی ہے اور تولیدی اعضا کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پوٹاشیم کی بڑھی ہوئی مقدار گردوں، دل، ہائی بلڈ پریشر، اور ذیابیطس کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ تین مزید برانڈز کے تجزیوں میں بیکٹیریائی آلودگی (coliforms) پائی گئی۔ علی اظہر نے کہا کہ جراثیمی آلودگی ہیضہ، اسہال، پیچش، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
”نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009“ کے مطابق پینے کے صاف پانی تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور یہ پالیسی 2010 میں منظور کیے گئے پینے کے پانی کی کوالٹی کے قومی معیار (NSDWQ) کے نفاذ پر زور دیتی ہے، لیکن عمل درآمد کے حوالے سے حقائق کچھ اور ہیں۔ یونیسیف کی 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 53,300 سے زائد بچے غیر محفوظ پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے ڈائیریا کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔
مرتضیٰ نے وضاحت کی کہ ”ہم نے رپورٹ جمع کروا دی ہے اور ہمارا کام یہاں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ لائسنسنگ اتھارٹی PSQCA پر منحصر ہے کہ وہ کارروائی کرے۔“
"یہ سچ ہے،" کراچی میں PSQCA کے واعظ اکرام الحق نے کہا کہ ہم صرف ان برانڈز کی نگرانی کرتے ہیں جنہیں ہم نے لائسنس دیا ہے۔ لیکن گھروں کے اندر کئی دیگرغیر قانونی سیٹ اپ موجود ہیں جنہیں ہم سیل کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے۔ لیکن بظاہر اس کا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آتا کیونکہ یہ لوگ فوراً ہی دوسرے برانڈ سے اپنا کام دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔
واعظ اکرام الحق نے مزید بتایا کہ جب تک پانی کے معدنی مواد اور اس میں موجود حیاتیات کی جانچ پڑتال نہ کرلی جائے اس پانی کو بوتل بند کرنا اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال غیر قانونی ہے۔
مزید برآں PCRWR کے غلام مرتضیٰ نے کہا ”حکومت کی سپلائی لائن سے آنے والے پانی کو فروخت کرنا بھی غیر قانونی ہے۔“
واعظ اکرام الحق نے بتایا کہ سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں جہاں کے وہ انچارج ہیں، 106 بوٹلنگ یونٹ (پلانٹ) تھے جو 125 بوتل بند پانی کے برانڈز فروخت کرتے تھے، جبکہ حال ہی میں انہوں نے غیر قانونی کاروبار کرنے والی ایک درجن سے زائد فیکٹریوں کو سیل کر دیا۔ اکثر جب ایک لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے تو صرف چند دنوں میں وہ برانڈ ایک نئی شناخت کے ساتھ دوبارہ سامنے آجاتا ہے۔ مرتضی نے کہا۔
پانی ان 78 اشیا میں سے ایک ہے جن کی PSQCA اپنے دس فیلڈ افسران کے ذریعے نگرانی کرتا ہے۔ یہاں واضح طور پر عملے کی کمی نظر آتی ہے۔
مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ان سب اقدامات پر عدالتی نظام کی سست رفتاری اثر ڈالتی ہے جس کے باعث تمام محنت ضائع ہوجاتی ہے۔ "اس حوالے سے سزا تو موجود ہے، لیکن اس کا کیا فائدہ جب اس میں کئی مہینے، یہاں تک کہ سال بھی لگ جائیں، اور مجسٹریٹس کے سامنے پیشیوں پر پیشیاں بھگتنی پڑیں؟"
غیر معیاری بوتل بند پانی بیچنے والے ملزمان کو PSQCA عدالت لے جاتی ہے۔ قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر کم از کم 50 ہزار روپے جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ لیکن عدالتی نظام کی سست رفتاری حکام کے لیے مایوسی کا سبب ہوتی ہے۔
تاہم اس حوالے سے امید افزاء باتیں بھی موجود ہیں۔ انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق PCRWR کی تحقیق کے نتائج عوام کے سامنے لانے کے اچھے نتائج سامنے آ رہے ہیں، کیونکہ نئے اعداد و شمار گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی کے اعداد و شمار یعنی 21 غیر محفوظ برانڈز کے مقابلے میں کم پائے گئے ہیں۔
گھر پر پانی صاف کریں؟
بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں میں پینے سے پہلے پانی صاف کرنے کے لیے ریورس اوسموسس پلانٹس نصب کیے ہیں، لیکن ان کے پاس حتمی جانچ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
اس کے باوجود مرتضیٰ نے زور دیا کہ بوتل بند پانی لوگوں کو اپنے گھروں میں لائن کے ذریعے ملنے والے پانی کا متبادل نہیں ہے۔ "ہم نے پانی کی فراہمی کے نظام سے بھی پانی کے معیار کی جانچ کی ہے اوروقت کے ساتھ ساتھ اس پانی کا معیار بھی تیزی سے گرا ہے۔"
24 بڑے شہروں اور 23 سطح کے پانی (دریاوں، حوض / ڈیموں، نہروں وغیرہ) کے معیار کی رپورٹ جو PCRWR ویب سائٹ پر دکھائی گئی ہے، اس کے مطابق 64 تحصیلوں میں سے 48 کا پانی پینے کے قابل نہیں تھا۔ 80 تا 85 فیصد ٹیسٹ کیے گئے پانی کے نمونے جراثیمی طور پر غیر محفوظ تھے اور ان میں منظور شدہ معیار سے زیادہ مقدار میں تحلیل شدہ ٹھوس اجزاء شامل تھے۔
23 بڑے شہروں میں اسی طرح کے ٹیسٹوں سے انکشاف ہوا کہ پاکستان کے پینے کے پانی کے ذرائع میں چار بڑی آلودگیاں جراثیم (%68)، آرسینک (%24)، نائٹریٹ (%13) اور فلورائیڈ (%5) تھے۔
شہری علاقوں میں لوگوں کی انتہائی محدود تعداد ہی بوتل بند پانی تک دسترس رکھتی ہے جبکہ بقیہ آبادی زمینی پانی استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں دونوں ہی طرح کے صارفین کو واضح طور پرمسائل درپیش ہیں۔
بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ
ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔