بیرونِ ملک تعلیمی دورے واقعی فائدے مند؟
گذشتہ پانچ سالوں کی طرح اس سال بھی حکومتِ پنجاب کی جانب سے میٹرک اور ہائیر سیکنڈری اسکول کے بورڈ کے امتحانات میں اول آنے والے طلبا و طالبات اس وقت برطانیہ، سوئیڈن، اور جرمنی کے دورے پر ہیں۔ یہ طلباء و طالبات پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز سے منتخب کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ دیگر صوبوں کے ساتھ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی ایک ایک طالب علم کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
ان دوروں کا اہم مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا نے جو ترقی اور خوشحالی حاصل کی ہے، یہ طلباء اُس کا مشاہدہ کریں اور اپنے ملک کے لیے اسی ترقی کی خاطر کام کریں۔ طلباء کے لیے مطالعاتی دوروں کی اہمیت ہوسکتی ہے لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو قابل غور بھی ہے اور ناقابل تردید حقائق کا حامل ہے۔
ہر سال 40 رکنی وفد کو یورپی ممالک کے دورے پر بھیجا جاتا ہے، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر دورہ پر تقریباً 1 کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے، اور اس طرح اب تک 6 کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر خطیر رقم خرچ کرنے کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟
پڑھیے: گرتا معیارِ تعلیم: کیا کسی کو فکر ہے؟
جس صوبے کے دیہی علاقوں کے اسکولوں میں طلباء کے لیے چھت بھی میسر نہیں اور موسم کی شدت میں بھی کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوتے ہیں، لڑکوں کے اسکول تو ایک طرف، بچیوں کے اسکولوں تک میں بھی ٹوائلٹ نہیں ہیں۔ تو کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ اس 6 کروڑ روپے سے پنجاب کے بہت سے اسکولوں میں ٹوائلٹ ہی بنا دیے جاتے، تو کہا جا سکتا کہ حکومت طلباء کی سہولت کے لیے سنجیدہ ہے۔
ہر سال دورہ کرنے والے وفد میں طلباء تو بدلتے رہتے ہیں لیکن سرکاری اہلکار وہی رہتے ہیں۔ کیا دیگر سرکاری اہلکاروں کا حق نہیں کہ وہ بھی اس مطالعاتی دورے کا حصہ ہوں؟ دورے کے ساتھ آنے والے سرکاری اہلکاروں نے تمام طلباء کو وزیر اعلیٰ کی تعریف کرنے پر لگایا ہوتا ہے اور وہ خود بھی یہی کر رہے ہوتے ہیں۔ پورے دورے میں وفد جہاں بھی جاتا ہے وہاں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اس قدر تعریف و توصیف ہوتی ہے کہ اس دورے کو شہباز شریف شو کہنا بے جا نہ ہوگا۔
ایسا تو نہیں ہے کہ وزیرِ اعلیٰ اپنی ذاتی رقم سے وفد کو دورہ پر بھیجتے ہیں۔ یورپ میں ایسے دوروں میں حکومتی سربراہوں کی خوشامد کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سوئیڈن میں موجودہ وزیرِ اعظم نے اسکولوں کو مزید بہتر بنانے کے لیے بہت بڑی اضافی رقم رکھی ہے لیکن اسے وہ اپنی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال نہیں کررہے۔ حکمران اگر واقعی مخلص ہیں تو بجٹ کا کم از کم 10 فیصد بنیادی تعلیم کے لیے مختص کریں، اور ذاتی تشہیر کے بجائے قومی تعلیمی پالیسی اس انداز میں بنائیں کہ اسکولوں کی حالت بہتر ہو۔
مزید پڑھیے: کمرشل تعلیم اور بے بس ریاست
اگر حکومت ان بچوں کو ان کی محنت پر بطورِ انعام ان دوروں پر بھیجتی ہے، تو ٹھیک ہے، لیکن حکومت کا اپنا مؤقف یہ ہے کہ یہ تعلیمی دورے ہوتے ہیں جن کا ایک وسیع تر مقصد ہے۔ کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ 18 کروڑ کی آبادی سے 35 طلباء یورپ کا دورہ کر کے کیا کیا تبدیلی لائیں گے جب 68 سالوں سے لاتعداد سرکاری دوروں سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے؟
وزیرِ اعظم، وزیرِ اعلیٰ اور دیگر تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما بہت عرصہ یورپ میں گزار کر پاکستان میں کیا تبدیلی لائے ہیں؟ پاکستان کی ٹاپ بیوروکریسی بھی تواتر سے غیر ملکی تربیتی دوروں پر جایا کرتی ہے، تو کیا اس سے ہمارے دفتری معامالات میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ اگر نہیں تو یہ طلباء بچارے کیا کریں گے جن کا ہر کام انہی سرکاری دفاتر میں پڑتا ہے جو 68 سال کے خستہ حال نظام کی نذر ہوچکے ہیں؟ ہاں البتہ غریب عوام کا کروڑوں روپیہ خادم اعلیٰ کی تشہیر پر ضائع ہوجاتا ہے۔
موجودہ حکمران ہوں یا ماضی کے، انہیں تشہیر کا اس قدر شوق ہے کہ طلباء کی درسی کتابوں کے شروع میں اپنی تصویر اور پیغام دے کر آنے والے نسلوں کو ذہنی غلام بنانے کی کوشش شروع کررکھی ہے۔ طلباء کو دورے پر بھیجنے کا یہ مقصد بھی بتایا جاتا ہے ان ملکوں کے تعلیمی نظام سے کچھ سیکھا جائے۔ تو اگر سیکھنا ہی ہے، تو سوئیڈن کے تعلیمی نظام سے یہ سیکھیں کہ یہاں میٹرک، ہائیر سیکنڈری، یہاں تک کہ یونیورسٹی کی سطح پر بھی ٹاپ پوزیشن بتانے کا کوئی رواج ہی نہیں۔
سب طلباء بورڈ کا امتحان دیتے ہیں لیکن یہ اعلان کبھی نہیں ہوتا کہ اول دوم اور سوم کون سے طلباء آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہاں کے ماہرینِ تعلیم یہ بتاتے ہیں کہ اس طرح پوزیشن لینے والے طلباء میں گھمنڈ، اور نہ لینے والوں میں حسرت اور افسوس کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے ٹاپ پوزیشن کسی سطح پر بھی نہیں بتاتے۔ کیا سوئیڈن سے یہ نہیں سیکھا جاسکتا؟
پڑھیے: کیا تعلیم کا مقصد صرف نوکری ہے؟
پھر یہاں اضافی وسائل ذہین طلباء پر لگانے کے بجائے کمزور طلباء پر لگائے جاتے ہیں۔ انہیں اسکول میں مفت اضافی ٹیوشن پڑھائی جاتی ہے۔ ان کے لیے مزید وسائل مہیا کیے جاتے ہیں، اور مزید اساتذہ مہیا کیے جاتے ہیں۔ تعلیمی کارکردگی میں پیچھے رہ جانے والے اسکولوں کو زیادہ امداد دی جاتی ہے۔ اس پالیسی سے پاکستان کے ارباب اختیار کیوں کچھ نہیں سیکھنا چاہتے؟
ہماری یونیوسٹیوں کی عمارتیں تو سوئیڈن کی جامعات سے کہیں بڑی اور بلند و بالا ہوسکتی ہیں لیکن سوئیڈن کی 6 جامعات دنیا کی پہلی 200 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں لیکن پاکستان کی 1 بھی یونیورسٹی اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اس کا مداوا کون کون کرے گا؟ مشرف دور میں پاکستان میں یورپی ممالک کی مدد سے نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا منصوبہ کدھر گیا؟
ایک اور وجہ، جس کی بناء پر یہ دورے غیر مؤثر ہیں، وہ دوروں کے لیے غلط وقت کا انتخاب ہے۔ تعلیمی وفد کو یورپ کے دورے پر اس وقت بھیجا جاتا ہے جب یہاں گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں۔ سوئیڈن میں جون کے دوسرے ہفتے سے لے کر اگست کے تیسرے ہفتے تک تمام تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں۔ اس طرح پاکستانی طلباء کا وفد کسی تعلیم سرگرمی، سیمینار، یہاں کے طلباء کے ساتھ میل جول، تعلیمی مذاکرات، اور دوسری سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔
طلباء کے دوروں کو بیرونِ ملک کے تعلیمی اداروں کے ساتھ مربوط بنا کر اور اسے تعلیمی سرگرمیوں کا حصہ بنا کر ہی مؤثر کیا جاسکتا ہے۔ وہ اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں جائیں، وہاں کلاسوں میں شرکت کریں، مقامی طلباء سے ملیں، ان سے تبادلہ خیال کریں، سیمناروں میں شرکت کریں، یہاں کے اساتذہ سے سوالات کریں تو پھر کہیں جا کر دورے کو مطالعاتی دورہ کہا جاسکتا ہے۔
جانیے: کیا اصلی ڈگریاں جعلی ڈگریوں سے بہتر ہیں؟
لیکن جب یہاں گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے کوئی تعلیمی سرگرمی ہی نہیں تو دورے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ مطالعاتی دورہ کے نام پر طلباء کا وفد عمارتوں، شہروں، اور بازاروں کی سیر کرتے ہوئے پاکستانی سیاسی، سماجی، اور سفارت خانوں کے استقبالیوں میں شرکت کر کے تصویریں بنوا کر ایک بقول خود کے کامیاب مطالعاتی دورہ مکمل کر کے واپس آ جائے گا، اور لاہور ایئرپورٹ پر کوئی وزیر وفد کا استقبال کرکے میڈیا کو کامیاب دورے کی نوید سنائے گا۔ وزیراعلیٰ وفد کے اعزاز میں استقبالیہ دیں گے، اور اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹیں گے، اور تعلیمی نظام ویسے کا ویسا ہی رہ جائے گا۔ اگر دورے کرنا ناگزیر ہی ہے تو کیا اسے رمضان اور گرمیوں کی چھٹیوں کے علاوہ نہیں کیا جاسکتا؟
ان دوروں سے آج تک کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ کوئی تبدیلی آئی ہے۔ اگر ان دورں سے ملک اور قوم کو فائدہ نہیں ہورہا تو انہیں بند کر کے وہی رقم اسکولوں، ہسپتالوں، سماجی بہبود، اور سائنسی ترقی پر خرچ کی جائے۔ اگر حکومت ان بچوں کو ان کی کاوشوں کے بدلے میں انعام دینا چاہتی ہے، تو انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دے۔
1 کروڑ روپے میں 35 بچوں کو بیرونِ ملک کا دورہ بھی کروایا جا سکتا ہے، اور 35 بچوں کے بیچلرز اور ماسٹرز تک کے اخراجات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں، تو پھر ایسا کیوں نہیں کیا جاتا اور کیوں سیکھنے کے نام پر لایعنی دورے کروا کر اپنی تشہیر کروائی جاتی ہے؟ دور جدید میں اب ایسے ذرائع میسر ہیں جن کی مدد سے ملک میں رہ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور دورے کرنا ہی لازم نہیں، شرط یہ ہے کہ سیکھنے کی نیت ہو۔
عارف محمود کسانہ سویڈن کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں۔ وہ کالم نگار اور صحافی ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے منتظم بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: arifkisana@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔