جونا گڑھ کے ڈاکو کراچی میں
ریاست جونا گڑھ کا شمار تقسیمِ ہند سے قبل کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جن کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا، لیکن انڈین حکومت نے ان کا یہ فیصلہ قبول نہیں کیا اور پھر یہ ہندوستان کا حصہ بن گئیں۔ نتیجتاً جونا گڑھ کے لوگوں نے بڑی تعداد میں انڈیا سے ہجرت کی اور پاکستان منتقل ہو گئے۔ ان کی اکثریت کراچی میں آباد ہوئی اور کراچی میں ان کی جماعت خاصی فعال ہے۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو جونا گڑھ کے آخری وزیراعظم تھے۔ جونا گڑھی برادری میں بہت سے نامور افراد گذرے ہیں۔ ان میں کاروباری شخصیات بھی ہیں، تو کھلاڑی اور سیاست دان بھی۔ لیکن اس وقت ہم ذکر کریں گے جونا گڑھ کے دو مشہور ڈاکوؤں کا، جن میں ایک بلوچ اور ایک ہندو تھا۔ ہندو بعد ازاں مسلمان ہو گیا، جبکہ بلوچ کراچی میں مارا گیا۔
ان دونوں کرداروں کا ذکر اقبال پاریکھ نے اپنی کتاب ”جونا گڑھ، اجڑے دیار کی کہانی“ میں کیا ہے۔ بلوچ کا نام قادو مکرانی اور ہندو کا نام بھوپت ڈاکو تھا۔ قادو مکرانی کا ذکر انہوں نے سرسری انداز میں کیا ہے جبکہ بھوپت کا بیان تفصیل سے ہے۔ ان دونوں کے بارے میں دیومالائی کہانیاں مشہور ہیں کہ یہ امیروں کی دولت لوٹ کر غریبوں میں بانٹتے تھے۔ یہ انگریز سامراج کے خلاف تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مہاجنوں اور بنیوں کے بھی۔
پڑھیے: وہ ڈاکو کیوں بنا؟
قادو مکرانی کے کردار پر پاکستان میں ایک فلم ”جاگ اٹھا انسان“ بھی بنی تھی، جس میں مرکزی کردار اداکار محمد علی نے ادا کیا تھا۔ اس کردار کے لیے بھوپت کو بھی کہا گیا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ ”جونا گڑھ، اجڑے دیار کی کہانی“ کے مؤلف اِقبال پاریکھ سے رابطہ بڑا مشکل تھا۔ ہمارے صحافی دوست احمد ملک نے ان کا نمبر فراہم کیا۔ اس کے بعد ان سے بھوپت کے بارے میں جو بات چیت ہوئی، وہ کچھ یوں تھی:
”جونا گڑھ ریاست ہمیشہ سے ایک خوشحال ریاست تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس علاقے میں لوٹ مار کی وارداتیں عام تھیں اور زیادہ تر ڈاکو اور لٹیرے یہاں کا رخ کرتے تھے۔ یہاں کے ڈاکو دوسری ریاستوں میں بھی مشہور ہوچکے تھے۔ ان میں سرِفہرست بھوپت سینھ، قادو مکرانی، رحمت اللہ، جھینا اور ہیرا تھے۔ بھوپت سینھ اور قادو مکرانی کی لا تعداد داستانیں گجراتی لوک داستانوں میں عام ہیں۔ دونوں ہی بہت مشہور ڈاکو تھے۔ بھوپت کے دوسرے بھی نام تھے جن سے وہ مشہور تھا۔ اسے سینھ اور باروٹیہ بھی کہا جاتا تھا۔ باروٹیہ اس وجہ سے کہا جاتا تھا کہ وہ ظلم کے خلاف بغاوت کرتا تھا۔
اقبال پاریکھ صاحب سے جب ہم نے دریافت کیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ امیروں کو اس لیے لوٹا جائے کہ وہ غریبوں کے حقوق سلب کرتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ آج کل کے سفید پوش ڈاکو تو یہ بھی نہیں کرتے۔ پرانے ڈاکو اس حوالے سے وفادار تھے۔ صرف بھوپت اور قادو اس کی مثال نہیں ہیں بلکہ ان سے قبل بھی اس طرح کی مثالیں رابن ہڈ اور سلطانہ ڈاکو کی شکل میں رہی ہیں۔
اقبال پاریکھ ”جونا گڑھ، اجڑے دیار کی کہانی“ کے صفحہ نمبر 98 اور 99 پر بھوپت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
”کاٹھیاواڑ کے مشہور لیڈر سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بھوپت کو ”چھوٹے شیوا جی“ کا خطاب دیا تھا۔ ولبھ بھائی پٹیل نے بھوپت کو انعام و اکرام کا لالچ دے کر مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا جس کے باعث واساور کی میمن برادری نے دہلی جا کر گاندھی جی سے شکایت کی کہ سردار پٹیل نے بھوپت کو ”چھوٹے شیواجی“ کا لقب دیا ہے، اور اب وہ ہمیں بھی لوٹے گا۔ بھوپت کو جب یہ بات پتہ چلی تو کمال چالاکی سے گاندھی جی کو پیغام بھیجا کہ میں مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوں، بلکہ ظالموں کے خلاف جنگ کر رہا ہوں۔ دوسری جانب بھوپت نے میمنوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے خلاف نہیں ہے بلکہ ظالم مہاجنوں اور بنیوں کا جانی دشمن ہے۔
دربار امر واڑہ کو بھوپت کی یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس نے کہنا شروع کر دیا کہ میں نے بھوپت گروپ تشکیل دیا تھا، جو ہمارے خلاف ہوگیا ہے اور میمنوں کی مدد کی باتیں کرتا ہے۔ لہٰذا دربار امر واڑہ نے بھوپت کے خلاف محاذ بنا لیا۔ اس نے بھوپت کو گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر وہ روپوش ہوگیا۔ بھوپت نے گرنار کے پہاڑی علاقے اور گیر کے جنگل میں پناہ گاہ بنا رکھی تھی۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ گرنار کی پہاڑیوں میں مجھے اس طرح کا تحفظ ملتا ہے، جس طرح بچے کو ماں کی گود میں حفاظت ملتی ہے۔
مزید پڑھیے: سندھ میں تعلیم کا رابن ہڈ
بھوپت اکثر سورٹھ کے دارالحکومت راجکوٹ میں اپنے بیوی بچوں سے ملنے جایا کرتا تھا۔ سورٹھ کی سر زمین پر بھوپت اور اس کے ساتھیوں نے ظلم و استبداد کے خلاف خون کی جنگ لڑی تھی۔ بھوپت ہندو تھا، لیکن وہ ہندو مہاجنوں اور بنیوں کو ظالم و جابر سمجھتا تھا۔ بھوپت بچپن سے ہی بہادر اور نڈر تھا، اور ہر ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ ظلم و جبر سے نفرت اس کی فطرت میں شامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امیر ظالم بنیوں اور مہاجنوں کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ڈاکو بن گیا اور پھر اس نے ظالموں اور جابروں کو تباہ و برباد کرنے اور مظلوموں، غریبوں کی امداد کرنا اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔“
بھوپت ڈاکو کی کارروائیاں اس وقت کی انڈین حکومت کے لیے کسی طور بھی قابلِ قبول نہ تھیں اور وہ ہر صورت میں بھوپت کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ لیکن کسی بھی طرح انہیں اس حوالے سے کامیابی نہیں مل سکی۔ وہ ہر صورت واردات کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتا تھا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا منہ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ بھوپت کے لیے انڈیا میں زمین تنگ کر دی گئی، جس کے بعد اس نے انڈیا چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اِس کہانی کو اقبال پاریکھ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 100 اور 101 پر یوں بیان کرتے ہیں:
”بھارتی حکومت نے بھوپت کی گرفتاری کے لیے بھاری رقم بطور انعام مقرر کر رکھی تھی۔ جونا گڑھ میں عارضی حکومت قائم ہونے کے بعد ایک روز بھارتی فوج اور پولیس نے گرنار کی پہاڑیوں کو گھیرے میں لے لیا، جو بھوپت کی پناہ گاہ تھیں۔ بھوپت نے اپنی مخصوص وردی اور صافہ پہاڑی پر ایسے رکھ دیا کہ بھارتی فوج یہی سمجھی کہ وہ پہاڑی پر موجود ہے۔ اس طرح بھوپت اپنے مخصوص انداز میں بھارتی فوج اور پولیس کو دھوکہ دے کر راجھستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوگیا۔
بھوپت نے 1952 میں اسکندر مرزا کے دورِ حکومت میں پناہ کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔ بعد میں صدر ایوب خان نے بھی اس کو کافی سہولیات فراہم کیں۔ پاکستان آکر بھوپت نے مولانا یوسف صاحب کے ہاتھوں اسلام قبول کیا اور اس کا اسلامی نام محمد امین رکھ دیا گیا۔ 28 ستمبر 1996 میں امین یوسف عرف بھوپت کی کراچی میں رحلت ہوگئی۔“
قادر بخش عرف قادو مکرانی کا تعلق بھی جونا گڑھ سے تھا۔ ان کے بارے میں جونا گڑھ کی تاریخ لکھنے والے مؤرخین کا خیال یہ ہے کہ وہ انگریزی راج کے خلاف تھے اور ان کی جو بھی کارروائیاں تھیں، وہ دراصل برطانوی سامراج کو کمزور بنانے کے لیے تھیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ قادو مکرانی دراصل ڈاکو نہیں بلکہ ایک باغی تھا جو ہندوستان کو برطانوی تسلط سے آزاد کروانا چاہتا تھا۔
اس نے اپنے ہم خیال لوگوں کا ایک گروہ تشکیل دیا تھا جو انگریز سرکار کے حامیوں سے لوٹ مار کر کے علاقے کے غریب لوگوں میں تقسیم کردیتا تھا، جبکہ انگریزوں کا خیال اس کے بالکل برعکس تھا۔ سیاسی کارکن کامریڈ واحد بلوچ کے مطابق جانسن نامی ایک انگریز نے کاٹھیاواڑ کے باغی کے عنوان سے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ قادر بخش نے جونا گڑھ کے 8 گاؤں لوٹے، جس کے دوران 71 تاجر مارے گئے اور 89 لوگوں کے ناک کان کاٹ دیے گئے۔ اس واقعے کو لوک فنکاروں نے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔
انہوں نے اپنے مضمون میں اس طرح کے بے شمار واقعے بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جانسن نے مزید لکھا ہے کہ "میراول ندی کے کنارے ہماری چھاؤنی تھی، یونین جیک پھڑا پھڑا رہا تھا اور میں چھاؤنی سے اسکاٹ کی بیوی کو فوجی تانگے میں شہر لے جارہا تھا کہ حاجی مانگیر وڈی شاہ کے مقبرے کے اوٹ سے اچانک قادر بخش نمودار ہوا اور للکار کر کہا "تانگے میں کون ہیں؟"
"میں نے کہا میں دھاری پلٹن کا کپتان جیکسن ہوں اور تانگے میں اسکاٹ کی بیگم ہے۔ یہ سن کر قادر بخش اور ساتھی راستے سے ہٹ گئے اور کہنے لگے کہ ہم عورتوں کا احترام کرتے ہیں، لیکن اگر اسکاٹ خود ہوتا تو ہم اسے زندہ نہیں چھوڑتے۔ جس نے میرے پورے خاندان کو مار دیا ہے، ہمارے گھر ہمارے لہلہاتے کھیت جلائے اور ہمیں بچوں سے جدا کرکے باغیانہ زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔" قادر بخش نے کہا کہ ”ہم انگریزوں کی طرح درندے نہیں ہیں“۔
بمبئی اور کراچی کے اخبارات میں قادر بخش کے بارے میں سنسنی خیز خبروں کی اشاعت ہونی شروع ہوئی۔ انگریز افسر ہمفرے نے نئی پولیس چوکیاں قائم کیں، پولیس کی نفری بڑھائی، اور انہیں قدرے بہتر ہتھیار مہیا کیے۔ قادر بخش کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ قادر بخش کچھ دن روپوش ہوجائیں۔ باقی لوگ جونا گڑھ ہی میں رہیں گے۔
فیصلے کے مطابق قادر بخش احمد آباد روانہ ہوگئے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین کراچی آئے۔ یہاں آکر قادر بخش مکران جانے کی کوشش میں لگ گئے۔ قادر بخش نے ایک اونٹ والے سے بات کی وہ اسے مکران پہنچائے۔ اونٹ والا قادر بخش کو پہچان گیا اور انعام کے لالچ میں اسے بغدادی پولیس تھانے کے عقب میں انتظار کرنے کا کہہ کر خود تھانے گیا اور پولیس والوں کو لے کر آیا۔ جب وہ قادر بخش کو قابو کرنے آئے تو قادر بخش نے دونوں کو خنجر سے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
قادر بخش وہاں سے فرار ہو گیا، لیکن ایک مزدور نے گھر کی چھت سے بھاری پتھر مار کر اسے شدید زخمی کر دیا۔ وہ بے ہوشی کی حالت میں گرفتار کیا گیا۔ جب حکام کو معلوم ہوا کہ وہ قادر بخش ہے تو انگریزوں کو یقین نہیں آیا اور انہوں نے تصدیق کے لیے جونا گڑھ سے ہر بھائی اور امبارام کو بھی بھیج دیا جنہوں نے قادر بخش کو پہچان لیا۔ اس کے بعد کراچی میں قادر بخش پر دو آدمیوں کے قتل کا مقدمہ چلا، اور 1878 میں قادر بخش کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔
پھانسی دینے کے بعد لاش لیاری کے ایک سرکردہ بلوچ واجہ فقیر محمد درا خان کے حوالے کی گئی۔ درا لائن کلاکوٹ میں مولوی غلام محمد نے میت کو غسل دیا۔ ہزاروں لوگوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ قادر بخش کے جسد کو میوہ شاہ کے قبرستان میں بڑی شان سے دفن کیا گیا، جہاں آج بھی جونا گڑھ سے قدر دان اس بہادر کو خراج تحسین پیش کرنے آتے ہیں۔ اس واقعہ کو آج تقریباً 150 سال گزر چکے ہیں، لیکن آج بھی کاٹھیاواڑ، گجرات، اور جونا گڑھ کے مظلوم لوگوں میں قادر بخش ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔
آج بھی مقامی فنکار میلوں ٹھیلوں میں اس کی داستانیں سنا کر میلہ لوٹ لیتے ہیں۔ ہندوستان میں قادر بخش پر ڈرامے اسٹیج ہوتے ہیں، فلمیں بھی بن چکی ہیں، اور قادر بخش پر بہت سی کتابیں و رسالے ہندی و گجراتی میں چھپ چکے ہیں۔ بمبئی گزٹ میں ہمفرے، اسکاٹ، جانسن، جسٹس بیمن کی چھپی ہوئی یاداشتیں اور انگریزوں کی لکھی ہوئی کتاب ”آؤٹ لاز آف کاٹھیاواڑ“ (کاٹھیاواڑ کے باغی) میں اس کی کہانی موجود ہے۔ معروف مؤرخ گل حسن کلمتی نے بھی قادر بخش پر ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ راجستھان کے مظلوم طبقے آج بھی جھوم جھوم کر اونچی لے میں گاتے ہیں۔
”ڈونگرے ڈونگر قادو رانا ڈاہرا دارو گھوڑانی واگے ٹھارم ٹھاروے،
مکرانی قادو جونی دوستی جمدار ماریا ماں، ابوڈ نہ ڈک نہ دیے لوک نے“
(پیارے قادر پہاڑ پہاڑ تیری دھاک ہے، ٹکارم ٹھورے گولیوں کی نت آواز گونج رہی ہے۔ پرانی بستی کے پیارے جمعدار قادو کو ظالموں نے مار دیا جس نے کسی کو دکھ نہیں دیا تھا)۔
یہ تو تھی دو ڈاکوؤں کی کہانی جو بظاہر برطانوی سامراج اور لوٹ مار کرنے والے افراد کے خلاف تھے۔ لیکن کیا ان کا طریقہ کار درست اور مناسب تھا؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ دیومالائی کردار اپنی جگہ، لیکن کیا یہ بات درست ہے کہ وہ لوگ جو ان کی جدوجہد کے خلاف ہوں، ان کے ناک اور کان کاٹے جائیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج رواداری، برداشت، اور بین المذاہب ہم آہنگی کا پرچار کرنے والوں کو قتل کرنے والے لوگ بھی کل ہمارے ہیرو بن جائیں؟
— تصاویر بشکریہ اختر بلوچ
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔