نقطہ نظر

نئے زمانے کا بچہ جمورا

بچوں اور بڑوں کی دلچسپیاں زمانے کے حساب سے بتدریج بدل گئی ہیں، مگر مداری اور بچہ جمورا آج بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہر قسم کے پھیری والے، گلی گلی گھوم پھر کر سودا بیچا کرتے تھے۔ ایک سودا سلف پر ہی کیا موقوف! چوڑیاں بیچنے والے، سلائی مشین صحیح کرنے والے، غرض ہر قسم اور بھانت بھانت کے لوگ اپنی روزی روٹی گلی گلی گھوم کر ہی کما لیا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی بازار اور آج کل کی طرح کسی ہائیپر مارکیٹ جا کر ہائیپر نہیں ہونا پڑتا تھا، بقول مشتاق احمد یوسفی، اس زمانے میں تو موت بھی گھر میں ہی واقع ہو جایا کرتی تھی، مرنے کے لیے کسی سڑک، بازار، یا اسپتال کا رخ نہیں کرنا پڑتا تھا۔

کیا بڑے اور کیا بچے، سب ہی کی دلچسپی اور ضروریات کا سامان گھر بیٹھے ہو جایا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ہمارے علاقے میں ایک آدمی سر پر پگڑی باندھے ہاتھ میں ڈگڈگی تھامے منہ میں پان کے پتے کی بیٹری سُلگائے آگے پیچھے ایک بندر، بکری، اور بلوغت کی سرحد پر ہمک ہمک کے جھانکتے بچے کو لگائے گھوما کرتا تھا۔ وہ جب بھی آتا، میں اور بہت سارے بچے اس کو گھیر کر بیٹھ جاتے۔

مداری اپنا تماشہ جماتا، اور ڈگڈگی گھما گھما کر بندر اور بکری کے مختلف کھیل دکھاتا، مگر میری دلچسپی ہمیشہ سے مداری کے آخری کرتب میں ہوتی، جس میں بچہ اور مداری گول گول گھومتے۔ مداری اپنی ڈگڈگی گھماتا، اور بچے سے کہتا: بچہ جمورا! بچہ فوراً جواب دیتا، جی استاد!۔ گھوم جا! اور بچہ گھوم جاتا اور جس زمانے میں جس جگہ بچے کو جانے کا کہتا، بچہ چلا جاتا، استاد کی باتوں کا جواب بھی دیتا، اور ساتھ ساتھ پٹائی بھی کھاتا رہتا۔

اب زمانہ تبدیل ہو گیا ہے، بچوں اور بڑوں کے کھیل، ان کی دلچسپیاں زمانے کے حساب سے بتدریج بدل گئی ہیں، مگر وہ مداری اور بچہ جمورا آج بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ کہیں عوام کی صورت میں بچہ جمورا پٹائی کھاتا ہے اور اپنے استاد کی ہر بات پر گھوم جاتا ہے، تو کہیں خواص کی صورت میں، جو عوام پر کسی نہ کسی صورت مداری کی شکل میں حکومت کرتے ہیں۔ کبھی ڈگڈگی گھماتے ہیں، کبھی اپنے جھرلو کو استعمال کرتے ہیں۔

وقت کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ گزر جاتا ہے، مگر گزرتے ہوئے اپنے اثرات تبدیلی کی صورت ہر چیز پر چھوڑ جاتا ہے۔ گذرے وقت نے ہمارے مداری اور بچہ جمورا کی معصومیت چھین لی ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں!

استاد: بچہ جمورا

بچہ جمورا: جی استاد۔

استاد: گھوم جا۔

بچہ جمورا: گھوم گیا۔

استاد: جو پوچھوں گا بتلائے گا؟

بچہ جمورا: بلکل استاد، بلکہ نیوز چینلز کی طرح جو نہیں پوچھو گے وہ بھی بتلاؤں گا!

استاد: شاباش شاباش۔ (ڈگڈگی بجاتا ہے) بچہ کدھر گھوما؟

بچہ جمورا: لندن۔ ایجویئر شریف میں! الطاف بھائی کے ہاں!

استاد: شاباش، جو پوچھیں گے سچ سچ بتلائے گا؟

بچہ جمورا: ہاں استاد، بس ذرا ادب سے پوچھنا!

استاد: بچہ ہاتھ باندھ کر وضو بنا کر پوچھ رہا ہوں!

بچہ جمورا: استاد سر بھی جھکا لو!

استاد: چل سر بھی جھکا لیا۔ یہ بتلا بھائی کیا کر رہے ہیں؟

بچہ جمورا: بھائی پریشان ہیں استاد!

استاد: جلدی بتا بھائی کیوں پریشان ہیں؟

بچہ جمورا: نہیں بتا سکتا۔۔۔۔ بس بھائی بہت ٹینشن میں ہیں۔

استاد: بچہ تو نے تو میرے ساتھ پوری قوم کو انتظار کی ٹینشن میں ڈال دیا ہے۔ بتا بچہ بتا بھی دے اب۔ یہاں سارے چینل سب لوگ بھائی کی پریشانی کا سن کر لندن شریف کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نیوز چینلز پر الطاف بھائی کی پریشانی کے نیوز الرٹ چلنا شروع ہوگئے ہیں، بس فوراً بتا زیادہ ایئر ٹائم نہ کھا۔

بچہ جمورا: وہ الطاف بھائی کی... میچنگ ٹائی نہیں مل رہی، اس لیے پریشان ہیں!

استاد: اف! بچہ کھودی الماری اور نکلی ٹائی، لگتا ہے تجھ پر بھی بھائی کا اثر ہو گیا ہے بچہ پھر سے گھوم جا۔

بچہ جمورا: گھوم گیا۔

استاد: اب کہاں ہے بچہ؟

بچہ جمورا: اڈیالہ جنت نظیر

استاد: یہ اڈیالہ کب سے جنت نظیر ہو گیا بچہ؟

بچہ جمورا: جب سے ایک حسن کی دیوی ایان کا یہاں بسیرا ہے! استاد۔ اب تنگ نہ کرو دیکھنے دو!

استاد: بچہ جلدی سے بتا کیا چل رہا ہے؟ یہ بتا ایان میک اپ میں ہے؟

بچہ جمورا: استاد چھوڑو۔ دیکھنے دو۔ایان اس وقت نہ میک اپ میں ہے نہ لاک اپ میں!

استاد: بچہ ہم کو زیادہ نہ تڑپا، جلدی بتا کیا چل رہا ہے؟

بچہ جمورا: استاد ایان ایک کاکا سپاہی کو درس دے رہی ہے۔

استاد: درس وہ کس چیز کا بچہ؟

بچہ جمورا: صداقت کا، شرافت کا۔

استاد: اور کاکا سپاہی کیا کر رہا ہے؟

بچہ جمورا: وہ نیوز چینلز کے کیمرہ مین کی طرح آنکھیں پٹ پٹا کر دیکھے ہی جا رہا ہے!

استاد: بچہ کوئی اندر کا پٹاخہ پھوڑ یہ بتا ایان اگلی پیشی پر کس رنگ کا لباس اور کس رنگ کی چپل پہنے گی!

بچہ جمورا: استاد اگلی بار سنا ہے کسی غالب سے چار گرہ کپڑا منگوایا ہے تاکہ پوری قوم اس کپڑے کی قسمت پر رشک اور رنگ پر غور و فکر کر سکے!

استاد: چل بچہ اب واپس آ جا دونوں مل کر ملک و قوم کی قسمت اور نصیب پر سر دھنتے ہیں!


یہ ایک طنزیہ تحریر ہے، جس کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں۔

منصور مانی

منصور احمد خان صحافت کے شعبے سےتعلق رکھتے ہیں اور ڈان نیوز ٹی وی سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔