پاکستانی چینلز کی بناکا گِیت مالا ہیڈ لائنز
پاکستان کے نیوز چینلز پر ہر گھنٹے بعد پیش کی جانے والی ہیڈلائنز اب ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہیں، جیسے سرخیاں نہ ہوئیں، بلکہ 90 کی دہائی میں ریلیز ہونے والی ہندوستانی بناکا گیت مالا البم ہوں۔ جس کے ٹائٹل پر ہیرو اور ہیروئن قدرے رومانوی انداز میں انتہائی قریب نظر آ رہے ہوتے تھے۔
نیوز بُلیٹن کے آغاز میں سجے سنورے اور مہنگے ترین ملبوسات میں ملبوس، ہیرو (مرد نیوز کاسٹر) اور ہیروئن (خاتون نیوز کاسٹر) اسکرین پر جلوہ گر ہو کر اپنا اور چینل کا نام بتاتے ہوئے بناکا گیت مالا ہیڈلائنز دکھانے کا پیغام دیتے ہیں۔
اس کے بعد میوزک کا تڑکا لگی پہلی ہیڈلائن انترے کے طور پر ہیروئن پیش کرتی ہے، جس کا ردیف اور قافیہ اردو شاعری کی ناجائز تشبیہ لگتا ہے۔
مثال کے طور پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 125 میں الیکشن ٹربیونل کے دوبارہ الیکشن کروانے کے فیصلے کو ہیڈلائنز میں کچھ یوں پیش کیا گیا:
آگیا الیکشن ٹربیونل کا بیان
خواجہ سعد اور میاں قیصر پشیمان
جلد ہوگا دوبارہ انتخاب
پرانا میدان مگر نیا امتحان
پہلی ہیڈلائن راگِ سنسنی میں مطلوبہ ٹھہراؤ اور وزن کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، جو کہ بظاہر تو دن کی سب سے بڑی خبر ہوتی ہے مگر انداز بیاں سے یوں لگتا ہے کہ جیسے صدی کی سب سے بڑی خبر ہے، جسے یہ با خبر جوڑا سب سے پہلے ایکسکلوژو مناظر کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔
پڑھیے: میڈیا کے چٹخارے
اگلی ہیڈلائن ہیرو میوزکی وقفے کے بعد ادا کرتا ہے، اور ہیڈ لائن کے مواد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اونچے اور نچلے سروں میں اپنی انتہائی غیر سُریلی آواز میں سناتا ہے۔
اس طرح ہیرو اور ہیروئین خبری خلاصوں (ہیڈ لائنز) کا یہ سلسلہ ایک کے بعد ایک ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ دورانِ ہیڈلائنز، خبر کی مناسبت سے میوزک کا تڑکا بھی لگایا جاتا ہے، جس کو یہ بناوٹی جوڑا اپنی انتہائی غیر مدھر آواز میں مزید سنسنی خیز بنا دیتا ہے۔
ہر گھنٹے بعد پیش کی جانے والی ہیڈلائنز کو سیاست، جرائم، کھیل، معیشت، بین الاقوامی، اور انٹرٹینمنٹ کی خبروں کا حسین گلدستہ بنایا جاتا ہے، جس کی خوشبو خبریں پڑھنے والے جوڑے کو دیکھ کر محسوس کی جاسکتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے مسکین مساکینوں کو صرف پی ٹی وی کا خبرنامہ دستیاب ہوتا تھا اور لوگ، خاص کر ادھیڑ عمر خبرنامے کو بطور نیند آور دوائی سمجھ کر دیکھتے تھے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ سارا دن رونما ہونے والے واقعات کا حال جان کر بسترِ نیند پر لیٹا کرتے تھے، اور خبرنامہ ختم ہوتے ہی ٹی وی سمیت تمام بتیاں گُل ہوجایا کرتی تھیں۔
نوّے کی دہائی میں پیش کیے جانے والے خبرنامے کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں خبروں کو خبر کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، نہ کہ ناظرین کے ذوق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں مصالحہ جات ڈالے جاتے تھے۔ خبر چاہے جس بھی قسم کی ہوتی تھی، اسے انتہائی شائستگی اور نفاست سے پڑھا جاتا تھا۔ خبروں کے درمیان ناظرین کے معدے کو دیکھتے ہوئے مطلوبہ ٹھراؤ اور وقفہ دیا جاتا تھا۔
مگر اس دہائی کا بلیٹن تو خبرنامہ کم اور انگریزی فلم کا چربہ زیادہ لگتا ہے، جس میں بعض اوقات تو کسی کسی ہیڈ لائن کا رِیڈر اتنا تفصیلی ہوتا ہے کہ وہ ہیڈ لائن کم اور کسی شاعر کی غزل محسوس ہونے لگتی ہے، جس کی ہر لائن ترنمی ہوتی ہے۔
دیکھنے والے کو سمجھ آنا بند ہوجاتی ہے کہ وہ ہیڈ لائن سن رہا ہے، یا کسی تھڑا چھاپ شاعر کی غزل۔ ہیڈ لائنز میں ردیف اور قافیے کو ملانے کے لیے اردو شاعری میں سے ایسے الفاظ پیش کیے جاتے ہیں، جنہیں سمجھنا تو دور، ان کی ادائیگی بھی مشکل ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: میڈیا میں اردو زبان کا غلط استعمال
دوسری جانب اگر علومِ ابلاغیات کی کتابیں ٹٹولی جائیں، تو ہر کتاب میں ہی ایسے الفاظ استعمال کرنے کی تلقین کی جاتی ہے جو عام فہم ہوں، پڑھنے میں آسان، اور سمجھنے میں باآسانی قابل ہضم ہوں۔ مگر موجودہ دور کی خبریں لکھنے والے تو شاید اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ جن کو سمجھنے کے لیے یا تو بندہ انتہائی فارغ ہو یا پھر اپنی سمجھ کو سائیڈ پر رکھ کر صرف مناظر دیکھنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔
ہیڈلائنز ختم ہونے پر ہیرو اور ہیرؤئین دیکھنے والوں کو ایسے سحر میں مبتلا کرجاتے ہیں کہ ناظرین دورانِ وقفہ اشتہارات کو بھی ایسی دلچسپی سے دیکھتے ہیں کہ کہیں ہیرو یا ہیروئن کی کوئی جھلک مِس نا ہوجائے۔
بناکا گیت مالا ہیڈلائنز کے بعد خبروں کی تفصیل بھی ایسے ڈرامائی انداز میں پیش کی جاتی ہیں کہ چھوٹی سے چھوٹی خبر بھی بریکنگ نیوز محسوس ہوتی ہیں۔ پہلے بلیٹن کا ہیرو یا ہیروئن دیکھنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اگلی خبر کا تعارف پیش کرتا ہے، جس کے بعد رپورٹر کی انتہائی غیر سریلی آواز میں انگریزی میوزک کی آمیزش کے ساتھ رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ رپورٹ کو تہلکہ خیز بنانے کے لیے میوزک کے ساتھ انتہائی تیز رفتار مناظر دکھائے جاتے ہیں۔
ٹیکنولاجی کا استعمال کرتے ہوئے آج کل کے برقی دور میں بذریعہ ڈی ایس این جی رپورٹر کو براہ راست موقع سے لیا جاتا ہے، جو کہ بعض اوقات مذکورہ سانحے کا سب سے بڑا شکار دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ تفصیلات جاننے کے لیے پوچھے گئے اینکر کے سوال پر رپورٹر واقعے کی تفصیلات بتانے کے بجائے وہاں پر موجود لوگوں کی ترجمانی کرنا شروع کردیتا ہے، اور یوں واقعے کی اصل تفصیلات ناظرین تک نہیں پہنچ پاتیں۔
نیوز پیکیج کے عین اصولوں کے مطابق رپورٹ مناظر، پسِ پردہ آواز، اور انٹرویوز کا مرکب ہوتی ہے، اور حسبِ ضرورت بہرے افراد کے لیے چند سطری گرافکس بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ آخر میں زندگی سے بیزار رپورٹر، رپورٹ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے اپنا اور اپنے کیمرہ مین کا نام بتا کر رخصت لیتا ہے۔ جس کے بعد بلیٹن کے ہیروئن اور ہیرو دوبارہ جلوہ گر ہو کر ناظرین کو حوصلہ دیتے ہیں کہ چینل تبدیل نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہی موجود ہیں اور پھر دوبارہ سے اگلی خبر کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: میڈیا کا آئی ٹیسٹ
جیسا کہ بناکا گیت مالا میں بھی کچھ افسردہ گانے شامل ہوا کرتے تھے، اسی طرح مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کے بارے میں بھی خبریں بلیٹن کا حصّہ ہوتی ہیں، جنہیں یہی ہیرو اور ہیروئن قدرے افسردہ آواز میں پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو اکثر اوقات بناکا گیت مالا بلیٹن کا آغاز ہی دکھ بھری خبروں سے ہوتا ہے۔ پھر معمولی ردوبدل کے ساتھ بناکا گیت مالا ہیڈ لائنز ایک گھنٹے بعد دوبارہ پیش کی جاتی ہیں۔
موجودہ دور میں ہر نیوز چینل دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے غرض سے اِن اوچھے ہتھکنڈوں کا سہارا لیتا ہے، اور کسی حد تک وہ صحیح بھی ہیں۔ چوبیس گھنٹے کے چینل کا پیٹ بھرنا آسان کام نہیں، خاص کر ایسے حالات میں جب مالکان کی جانب سے مسلسل زیادہ سے زیادہ ریٹنگز حاصل کرنے کے احکامات بذریعہ ڈائریکٹر نیوز روم میں موصول ہوتے ہوں۔
ایسے میں ہر نیوز چینل کا اسٹاف کوشش کرتا ہے کہ وہ ناظرین کو چینل کے ساتھ جڑا رکھنے کے لیے کوئی ایسا کارنامہ انجام دے، کہ دیکھنے والا ہر بار اس کا چینل ہی دیکھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہر چِکڑ چھولے بیچنے والا کسی بھی ایسے مصالحے کو ڈالنے سے گریز نہیں کرتا جو کہ کھانے والے کے لیے مضرِ صحت ہو۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔