نقطہ نظر

چہ دلاور است

حیرت ہوتی ہے جب بڑے بڑے دانشور حضرات ہمارے بلاگ نقل کر کے اپنے نام سے پیش کرتے ہیں اور حوالہ دینے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔

ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے بلاگ کی زبان آسان ہو، لیکن کیا کریں ہمیں اپنے اس بلاگ کا عنوان فارسی میں رکھنا پڑا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو ہم لکھ رہے ہیں، اس کے لیے اس سے بہتر عنوان ہو ہی نہیں سکتا۔ ”چہ دلاور است دز دے کہ بہ کف چراغ دارد“۔ اس کے معنی آسان اردو میں یوں ہیں: ”کتنے دلیر ہیں، جو چوری کرتے ہوئے ہاتھوں میں چراغ رکھتے ہیں“۔ زمانہ نیا ہے، تو چلیں چراغ کو آپ ٹارچ بھی کہہ سکتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست نما استاد امجد قمر نے اسلام آباد سے فون کیا کہ ایک ٹی وی چینل کے ”نامور ڈاکٹر دانشور نما اینکر“ (یہ ڈاکٹر ایم بی بی ایس ہیں، پی ایچ ڈی نہیں، پی ٹی وی سمیت بے شمار نجی چینلز پر اپنی دانشوری کا سکہ جما چکے ہیں، اور لوگوں کو قیامت کی نشانیوں سے بھی آگاہ کرتے رہے ہیں) نے ہمارے یہودی مسجد پر لکھے گئے بلاگ پر ایک پورا پروگرام کر ڈالا، اور تمام کا تمام مواد ہمارے بلاگ کا تھا، حتیٰ کہ تصاویر بھی، لیکن کہیں بھی ہمارا حوالہ نہ تھا۔

انہوں نے پروگرام کا لنک بھی ہمیں بھیج دیا۔ میں نے اور ڈان اردو کے ایڈیٹر منظر الٰہی نے وہ پروگرام دیکھا اور بقول شاعر ”ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے، منظور تھا پردہ تیرا۔“ تقریباً ایک ہفتے بعد ہمارے اسلام آباد کے ایک دوست سہیل انور نے فون پر ہمیں بتایا کہ مذکورہ ڈاکٹر دانشور نے ہمارے ایک اور بلاگ ”قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا“ پر بھی پروگرام کر ڈالا ہے، اور حسبِ سابق نہ کوئی حوالہ نا کوئی نام۔ انہوں نے ہمیں لنک بھیجا، اور بات بالکل درست تھی۔

اس سے قبل ڈان نیوز کے بلاگز ایڈیٹر آزاد قلمدار، جو ہمارے بہت اچھے دوست بھی ہیں، کو ہم نے بتایا تھا کہ کراچی کے ایک مقامی اخبار نے بھی ہمارے بلاگ چھاپنے شروع کیے ہیں، لیکن اس اخبار کی اعلیٰ ظرفی یہ تھی کہ وہ نہ صرف ڈان کا حوالہ دیتے تھے، بلکہ ہمارا نام بھی چھاپتے تھے۔ کچھ دن پہلے بلوچستان کے ایک دوست کا فون آیا، اور انہیں اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ ہم بلوچستان کے اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔

ہم نے اس بات سے انکار کیا، تو انہوں نے اخبارات کی کاپیاں ہمیں بذریعہ ڈاک ارسال کر دیں، جن سے ان کی بات کی تصدیق ہوگئی۔ معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں۔ گذشتہ دنوں لاہور گئے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے ایک اردو اخبار کے لیے بھی ہم کالم لکھتے ہیں۔ ہم معاملہ سمجھ گئے۔ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ کہیں ڈان کا ذکر تھا، تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب لکھنے کی وجہ شاید صرف یہ ہے کہ ہم اپنے زورِ قلم سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم بلاگ اردو میں لکھتے ہیں جن کا انگریزی میں ترجمہ آدرش ایاز لغاری ڈان انگلش کے لیے کرتے ہیں اور پھر اس کا ترجمہ بعض سندھی رسائل میں ہمارے نام سے چھپتا ہے۔ ہمارے بلاگز کی اس مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟

اس حوالے سے ہمارے صحافی دوست عزیز سنگور کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ہمارے بلاگز میں دیے جانے والے مستند تاریخی حوالے ہیں، جو ان بلاگز کو ہمیشہ تر و تازہ رکھتے ہیں، اور یہ تاریخ کے طالب علموں کے لیے دل چسپی کا باعث ہیں۔ ہمارے ساتھی اختر سومرو سے جب اس ضمن میں بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم جس قسم کی معلومات اپنے بلاگ میں دیتے ہیں وہ صرف کتابی اور نقل در نقل نہیں ہوتیں، بلکہ اس میں تحقیق کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ اور صرف یہی نہیں، بلکہ تاریخی معلومات کا تقابلی جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ جس کا اب رواج نہیں رہا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کسی مقام کے بارے میں لکھنے سے پہلے اس کا دورہ کرنا اہم ہوتا ہے، جو عموماً لوگ نہیں کرتے۔ جہاں تک ہمارے تاریخی حوالے دینے کی بات ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اگر کسی دوست نے اس سلسلے میں رہنمائی کی ہو تو اس کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔

ہمارے دوست فوٹو جرنلسٹ اطہر بھائی نے ایک نجی محفل میں ہمیں کہا کہ بھائی کبھی ہم سے بھی پوچھ لیا کرو اور اگر پوچھ نہیں سکتے تو ساتھ ہی لے جایا کرو، اس بہانے ہمارا نام تو دے دو گے۔ اس بات پر محفل میں سبھی لوگ بے ساختہ ہنس پڑے۔

حوالوں کا یہ طریقہ ہم نے ڈان ڈاٹ کام کے مرحوم ایڈیٹر مصدق سانول سے سیکھا تھا۔ ہم نے ان کی اس بات کو گرہ سے باندھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ہمارے بلاگ نہ صرف پڑھتے ہیں، بلکہ ہم پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ ہمارے قارئین نہ صرف ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہیں، بلکہ معلومات کی تصحیح اور رہنمائی بھی کرتے ہیں، جو ایک خوش آئند بات ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج ہم مکمل طور پر خود ستائشی پر اترے ہوئے ہیں، اور انجمن ستائش باہمی کے مرکزی صدر لگتے ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ ہم پان کھانے کے بہت شوقین ہیں۔ گو کہ اب ہم نے پان کھانا بہت کم کر دیا ہے، لیکن کیا کریں "چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔" ایک دن ہم ایک پان کی دکان سے پان لے رہے تھے، کہ پاس کھڑے ایک نوجوان نے جو کہ کبھی کبھار وہاں نظر آتے تھے، ہمیں دیکھ کر کہا کہ آپ لکھتے بھی ہیں؟

مجھے ایسا لگا کہ وہ غالباً کہنا چاہ رہا تھا کہ لکھتے ہیں اور پان بھی کھاتے ہیں۔ خیر ہم نے کہا کہ بس لکھ لیتے ہیں۔ ہم سمجھے انہوں نے ڈان ڈاٹ کام پر ہمارا کوئی بلاگ پڑھ لیا ہوگا، یا ہماری کتاب ”تیسری جنس“ ان کی نظر سے گزری ہوگی۔ لیکن اگلے لمحے ہی اس نوجوان نے ہمیں چونکا دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی فاطمہ جناح پر کتاب بہت اچھی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے اس موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی۔

نوجوان نے اصرار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کتاب میں آپ کی تصویر بھی ہے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ کتاب کی کوئی کاپی اس کے پاس موجود ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں! میں نے پڑھ لی ہے۔ کیا آپ کو چاہیے؟ میں نے کہا بالکل چاہیے۔ انہوں نے اگلے دن ایک بجے کا وقت دیا۔ ہم نے وہ رات کیسے گزاری، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ اگلے دن ایک بجے پان کی دکان پر پہنچے اور اس نوجوان کے بارے میں پان والے سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہاں سے جا چکے ہیں۔ ہمارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور ہم مایوس ہوگئے۔

اچانک پان والا بولا کہ یہ کتاب وہ آپ کے لیے دے کر گیا ہے۔ یہ کتاب نہیں کتابچہ تھا۔ کتاب کے عنوان نے ہمیں حیران کر دیا، کہ یہ ہمارے ایک بلاگ کا عنوان تھا: ”قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا“۔ اتنا ہی کافی تھا ہمارے لیے۔ پان کی دکان سے پریس کلب تک 5 کلومیٹر کا فاصلہ کیسے طے ہوا، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ کلب پہنچ کر کتابچے کا بہ غور جائزہ لیا۔ چار رنگوں کا سرورق جس پر فاطمہ جناح کی خوب صورت تصویر اور پس ورق پر پاکستان کا نقشہ سبز ہلالی پرچم میں سمویا ہوا تھا، جس میں کشمیر شامل نہیں تھا۔ نقشے کے آخر میں مزار قائد کی تصویر اور سر ورق پر ”قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا“ کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے:

”پاکستان بنانے والوں کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا؟ ہم کتنے محسن کش ہیں جانیے۔“

کتابچے میں پہلا بلاگ قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کے عنوان سے ہے۔ دوسرے بلاگ کا عنوان ”فاطمہ جناح اور ریڈیو کے فرمان بردار ٹرانسمیٹر“ ہے۔ تیسرے بلاگ کا عنوان ”قائد اعظم کی زندگی کے گمشدہ اوراق“ ہے۔ یہ کتابچہ 36 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ تمام بلاگ آپ ڈان ڈاٹ کام اردو اور انگلش پر پڑھ چکے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ کتابچے پر شائع کرنے والے اور تقسیم کار کا نام موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ پرنٹر کا نام بھی نہیں ہے۔

جن صاحب نے یہ چھاپا ہے ان کی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں ہے۔ وہ یقیناً یہ چاہتے ہوں گے کہ جو لوگ اس معلومات سے محروم رہے ہیں، ان تک بھی یہ معلومات پہنچا دی جائیں۔ یہ ایک اچھا عمل ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس میں ڈان ڈاٹ کام کا حوالہ ہوتا۔ اور اگر ہمارا نام بھی چھاپ دیا جاتا تو کیا برائی تھی؟

ہمارے ساتھی محسن سومرو نے ہمیں بتایا کہ تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود کتابچے کے صفحہ نمبر 11 اور 12 پر دوبار ہمارا نام چھپ گیا ہے اور نہ صرف، یہ بلکہ صفحہ نمبر 33 پر شریف المجاہد کا انٹرویوکرتے ہوئے ہماری تصویر بھی چھپ گئی ہے۔

جناح صاحب یا ایسی دوسری شخصیات، تاریخی مقامات اور مذہبی عبادت گاہوں کے حوالوں سے ہمارے تمام بلاگ قابل اشاعت ہیں اور ہم ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی کرتے ہیں کیوں کہ ”ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔“

ہم قلم کے مزدور ہیں اور جن اداروں کے لیے لکھتے ہیں وہ ہمیں اس کی مزدوری بھی ادا کرتے ہیں۔ جو دوست ہمارا بلاگ چھاپتے ہیں اور حتیٰ کہ کتابی صورت میں بھی چھاپتے ہیں ان سب کو یہ مشورہ ہے کہ آئندہ اگر وہ اس طرح کی نیکی کا کام کریں تو ہم سے مشورہ ضرور کریں۔ لیکن یہ با معاوضہ ہوگی بلا معاوضہ نہیں۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔