ایڈلجی ڈنشا اور نادر شاہ ڈنشا کے مجسموں کی تلاش
یہ ایک پارسی باپ بیٹے کی کہانی ہے، جنہوں نے کراچی کے شہریوں کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔ اس خاندان نے کراچی کی سماجی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ایڈلجی ڈنشا اور ان کے بیٹے نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا نے بھی اپنے والد کی روایات کو برقرار رکھا۔ دونوں باپ بیٹوں نے بغیر کسی معاشی وسیاسی مفاد کے شہر میں تعلیمی ادارے قائم کیے، ہسپتال بنائے اور رہائشی کالونیاں بنائیں۔
ایف۔کے دادا چالجی کے مطابق ان کی خدمات کے جواب میں کراچی کے باسیوں نے انہیں جو کچھ دیا وہ تھے ان کے دو یادگاری مجسمے جو کراچی کے مختلف مقامات پر نصب کیے گئے تھے۔ لیکن دادا نے اپنی کتاب میں یہ نہیں بتایا کہ یہ مجسمے کہاں تھے۔
تقسیم سے قبل کراچی کی خدمت کرنے والوں یا ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے قدآور سیاسی شخصیات کے جو مجسمے نصب کیے گئے، وہ اب ان مقامات پر موجود نہیں ہیں۔ ان میں گاندھی جی اور جواہر لال نہرو کے مجسمے بھی شامل ہیں۔ ایڈلجی ڈنشا اور نادر شاہ کے مجسمے کہاں تھے اور اب کہاں ہیں اس کا ذکر آگے چل کر کریں گے۔
130 برس قبل ایڈلجی ڈنشا کراچی کے وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے عوام کے لیے 12 ہسپتال تعمیر کروائے۔ 1885 میں Countess of Dufferine Vicereine of India نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں خواتین کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے لیے برطانوی راج کی جانب سے سندھ کے تمام باسیوں سے چندے کی درخواست کی گئی۔ اس درخواست کے جواب میں صوبہ بھر سے 10 ہزار روپے کی رقم حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ 5 ہزار روپے لیڈی ڈفرن فنڈ کی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے موصول ہوئے۔
لیکن یہ رقم کسی بھی ہسپتال کی تعمیر کے لیے کافی نہ تھی لہٰذا 6 برس تک ہسپتال کی تعمیر کا کام مکمل نہ ہوسکا۔ ایڈلجی ڈنشا نے ہسپتال کی تعمیر کو یقینی بنانے کے لیے 1894 میں 50 ہزار روپے کا چندہ دیا۔
Her Excellency The Countess of Elgin وائسرائے کے ہمراہ خصوصی طور پر کراچی تشریف لائیں اور عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ ہسپتال کی تعمیر کے دوران کچھ اضافوں اور تبدیلیوں کی وجہ سے مزید رقم کی ضرورت پڑی جو ہسپتال کی تعمیر کے لیے جمع ہونے والی رقم کا نصف تھا۔ یہ رقم بھی ایڈلجی ڈنشا نے خوش دلی سے فراہم کی۔
نہ صرف یہ بلکہ ہسپتال کے لیے دواؤں کی پہلی کھیپ بھی ان کی جانب سے دی گئی تھی۔ ان کے فرزند نادر شاہ نے ہسپتال کے 5 وارڈوں اور 5 کمروں کے لیے فرنیچر دیا۔ ہسپتال کے لیے عوام کی جانب سے دیے گئے 10 ہزار چندے کے مقابلے میں ڈنشا خاندان نے 85,000 روپے کا چندہ دیا۔
ایف۔کے دادا چالجی اپنی کتاب ”تقاریر و تحاریر بابت زرتشتی مذہب، ثقافت اور تہذیب“ میں لکھتے ہیں کہ 10 ہزار کے مقابلے میں 85,000 کی رقم فراہم کرنا ”کیا جگر تھا!“ اسے کہتے ہیں ”زرتشتی جگرا“۔ اس کے علاوہ کراچی میں چلنے والے دومشنری ہسپتال بھی ان کے چندے سے استفادہ کرتے تھے۔
تعلیم کے میدان میں بھی انہوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ نادار اور غریب طلباء کی مالی مدد کے لیے بمبئی یونیورسٹی کو لاکھوں روپے کے عطیات دیتے تھے۔ کراچی میں ماما پارسی اسکول اور پونا میں سردار دستور گرلز اسکول اس کی مثال ہیں، لیکن تعلیم کے میدان میں اس خاندان کا سب سے بڑا کارنامہ نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے جسے آج کل NED یونیورسٹی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے اکثر طلباء کو یہ نہیں معلوم کہ این ای ڈی کس کا مخفف ہے۔
اس یونیورسٹی کا شمار پاکستان کی سب سے قدیم انجینئرنگ یونیورسٹی کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ جیسے ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ایف۔کے دادا چالجی کے مطابق کراچی کے شہریوں نے جناب ایڈلجی ڈنشا اور ان کے فرزند نادر شاہ کی عظیم خدمات کے اعتراف میں ان کے دو مجسمے کراچی میں نصب کیے تھے۔ ہم نے بہت کوشش کی لیکن یہ مجسمے کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ آخر یہ مجسمے گئے تو کہاں گئے۔ ہمیں ان مجسموں کی تلاش تھی لیکن تلاش اب تک بے نتیجہ ہی رہی تھی۔
ہمارے دوست اختر سومرو نے ایک دن ہمیں بتایا کہ وہ پارسی انسٹیٹیوٹ میں ایک لیکچر اٹینڈ کرنے جارہے ہیں۔ ہماری بھی خواہش تھی کہ اس بہانے پارسی انسٹیٹیوٹ کا دورہ کیا جائے، شاید وہیں پر ہمیں ایڈلجی ڈنشا اور نادر شاہ کے مجسموں کا کوئی سراغ مل جائے۔ ہم نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا لیکن انہوں نے معذرت کر لی اور کہا کہ جن لوگوں کو دعوت دی گئی ہے صرف وہی جاسکتے ہیں۔
اگلے دن انہوں نے ہمیں لیکچر کا حال احوال سنایا۔ ہم نے پوچھا کہ لیکچر کے علاوہ اور کیا تھا، تو کہنے لگے انسٹیٹیوٹ کے سبزہ زار میں ایک مجسمہ نصب تھا۔ بات ختم ہو گئی۔
ہم گھر سے پریس کلب آنے کے لیے مزار قائد سے صدر کو جانے والی سڑک کوریڈور تھری استعمال کرتے ہیں۔ پارکنگ پلازہ سے قبل ٹریفک بری طرح جام تھا۔ ہم نے لائنز ایریا سے صدر جانے والا راستہ استعمال کیا۔ سڑک کے اختتام پر ہمیں پارسی انسٹیٹیوٹ کی تختی نظر آئی۔ ہم خاموشی سے اندر داخل ہوگئے۔ انسٹیٹیوٹ کی عمارت مختصر تھی لیکن عمارت کے اطراف میں ایک بڑا گراؤنڈ اور سبزہ زار تھا۔ سبزہ زار کے دائیں طرف ایک مجسمہ نصب تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو وہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ تھا۔ ابھی ہم مجسمے کو دیکھ ہی رہے تھے کہ دو افراد جو شکل سے گارڈ لگ رہے تھے، ہمارے قریب آئے اور پوچھنے لگے کہ ہم کس کی اجازت سے اندر آئے ہیں اور کیوں آئے ہیں۔
ہم نے جواباً بتایا کہ یہاں سے گذر رہے تھے ٹریفک بہت جام تھا تو سوچا کہ تھوڑی دیر سبزہ زار میں بیٹھ جائیں۔ دونوں نے بہت ”ادب“ سے بتایا کہ یہ پبلک پارک نہیں ہے۔ ہم نے معذرت کی اور انسٹیٹیوٹ سے باہر نکل آئے۔ کلب پہنچے تو اختر سومرو سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے انہیں بتایا کہ وہ مجسمہ ایڈلجی ڈنشا کا ہے۔ کہنے لگے کوئی مسئلہ نہیں ہے، میرا دوست کلیم جس نے اس انسٹی ٹیوٹ میں لیکچر رکھوایا تھا اس سے بات کر کے اجازت لے کر تصاویر بھی بنائیں گے۔
ایسے اجازت ناموں کا ہمیں بہ خوبی اندازہ تھا لہٰذا ہم مایوس ہوگئے۔ تقریباً ایک ہفتے بعد کوریڈور تھری پر پھر ٹریفک جام تھا۔ ہم نے پارسی انسٹیٹیوٹ کا راستہ اختیار کیا۔ انسٹی ٹیوٹ کے گیٹ پر بڑی رونق نظر آئی۔ ہم ایک بار پھر اندر داخل ہوگئے۔ اندر میلے کا سماں تھا، مختلف کیمرے لگے ہوئے تھے۔ ریکارڈنگ ہورہی تھی۔ ہم نے ایک صاحب سے معلوم کیا کہ کیا ہورہا ہے تو وہ بولے کہ شوٹنگ ہورہی ہے۔
ہم فوراً باہر نکلے، پریس کلب پہنچے، فوٹو جرنلسٹ اکبر بلوچ کو اپنے ہمراہ لیا، اور انسٹیٹیوٹ پہنچ گئے۔ میں نے ایڈلجی ڈنشا کے مجسمے کی تصاویر بنانا شروع کیں۔ اکبر بلوچ نے ہماری توجہ دوسری جانب مرکوز کروائی، وہاں ایک اور مجسمہ تھا۔ وہ نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ تھا۔ ہم نے اس کی بھی جلدی جلدی تصاویر بنائیں۔
اس دوران اکبر نے بتایا کہ مجسمے کے پاس بیٹھے دو نوجوان ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ یار ہمیں تو تصاویر بنانے نہیں دیں یہ لوگ کیسے بنارہے ہیں۔ ہم نے کیمرا فوراً جیب میں ڈالا۔ اتنی دیر میں ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور دریافت کیا کہ ہم کیوں آئے ہیں۔
ہم نے کہا کہ یہاں کے انچارج سے ملنے آئے ہیں۔ وہ ہمیں انچارج کے کمرے میں لے آئے۔ انچارج صاحب نے ہماری آمد کی وجہ دریافت کی۔
ہم: انسٹیٹیوٹ کی تصاویر بنانی ہیں۔
انچارج: (نفی میں سر ہلاتے ہوئے) اس کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کو پہلے عہدیداروں سے بات کرنی ہوگی۔
ہم: کسی کا فون نمبر ہی دے دیں۔
انچارج نے اس سے بھی انکار کردیا۔
ہم: وہ کب آتے ہیں؟
انچارج: مہینے میں ایک بار آتے ہیں۔
ہم: اب کب آئیں گے؟
انچارج: ایک میٹنگ تو کل ہوگئی، اگلی ایک ماہ بعد ہوگی، اور کس تاریخ کو ہوگی اس کا کوئی علم نہیں۔
ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور انسٹیٹیوٹ سے باہر نکل آئے۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کہ آخر یہ مجسمے انسٹیٹیوٹ کیسے پہنچے اور وہ بھی صیحح سلامت حالت میں۔ صحیح سلامت ہونے پر ہمیں حیرت اس لیے تھی کیونکہ ہم نے ہرچند رائے وشنداس اور ملکہ برطانیہ کا مجسمہ مہوٹہ پیلیس میں دیکھا تھا۔ ہرچند رائے کی گردن غائب تھی، اور ملکہ کے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تھے۔ ہاں یاد آیا ملکہ کی ناک بھی کٹی ہوئی تھی۔
بہرحال، مجسمے انسٹیٹیوٹ کیسے پہنچے، اس کے لیے کسی پارسی سے بات چیت ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کراچی میں پارسی کم ہوتے جا رہے ہیں اور جو ہیں وہ بات چیت کے لیے راضی نہیں ہوتے۔
ان مجسموں پر جو کچھ لکھا ہے وہ کچھ یوں ہے۔
ان مجسموں پر آویزاں تختیوں پر ان مقامات کا بھی ذکر ہے جہاں یہ نصب کیے گئے تھے۔ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ جس سڑک پر نصب تھا، وہ سڑک تقسیم ہند سے قبل وکٹوریہ روڈ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اب اس سڑک کا نام عبداللہ ہارون روڈ ہے۔ نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کا مجسمہ جہاں تھا، اس مقام پر ایک مینار ایستادہ ہے جس پر ایک گھڑیال نصب ہے۔
اس مقام پر پیلس تھیٹر کا کوئی وجود نہیں اور بونس روڈ تو کب کا فاطمہ جناح روڈ ہو گیا ہے۔ بتوں کی نمائش کا ویسے بھی کسی اسلامی معاشرے میں کوئی تصور نہیں لیکن کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان دونوں چوراہوں کا نام ان دو عظیم ہستیوں سے منسوب کردیا جائے اور ان کی خدمات تحریری طور پر وہاں نصب کردی جائیں۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟
— تمام تصاویر بشکریہ اختر بلوچ
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔