غربت کوجرائم کی ماں کہا جاتا ہے اور بھوک اور افلاس کی بڑھتی ہوئی شرح کا ہی شاخسانہ ہے کہ وطن عزیز میں جرائم کی شرح کا گراف انتہائی بلندیوں کو چھونے لگا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے بلاشبہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اس کے اسباب بھی ڈھکے چھپے نہیں، لیکن اس پر قاپو پانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے منافقانہ کوششیں محض زبانی کلامی دعووں سے آگے نہیں بڑھ پاتی ہیں۔
دہشت گردی کا عفریت اپنی جگہ امن وامان کی صورتحال کو مخدوش بناکر معیشت کا پہیّہ جام نہیں تو سست تو کرہی چکا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی عصمت دری، راہ چلتے افراد سے گاڑیاں، موبائل ٹیلیفون اور نقدی چھین لینا، دن دہاڑے کم سن بچوں کا اغوا برائے تاوان، تاوان نہ ملنے کی صورت میں ان کا وحشیانہ قتل، اندھے قتل کی وارداتیں، منشیات کی سرعام فروخت، بہتر روزگار کی فراہمی کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ اور ان سے زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیانے کے واقعات، دن دہاڑے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں، پارکوں سے گاڑیوں کی چوری اور متعدد دوسرے جرائم میں بھی اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ شاید قیام پاکستان کےبعد تین چار عشروں میں تو نہیں مل سکیں گی۔
اس صورتحال سے عام شہریوں میں ناصرف جان و مال کے عدم تحفظ کے احساس میں زبردست اضافہ ہورہا ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کا اعتماد بھی متزلزل ہو کر رہ گیا ہے۔
عدم تحفظ اور لاقانونیت میں اضافے کے باعث ملک کے اندر بیرونی ہی نہیں اندرونی سرمایہ کاری میں نا صرف زبردست کمی آئی ہے بلکہ ملک سے سرمائے کا فرار بھی تیز تر ہوتا جارہا ہے، جس نے قومی معیشت پر سخت ناخوشگوار اثرات مرتب کرنے کے علاوہ عام آدمی کی مشکلات ومسائل میں بھی شدید اضافہ کردیا ہے۔
عام لوگوں کا سکون برباد ہو گیا ہے چنانچہ بیروزگاری، فاقہ کشی اور گرانی سے تنگ آئے ہوئے بعض افراد بیوی بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ کروڑوں پاکستانیوں کے معصوم اور کم سن بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی دستیاب نہیں ہے، جن کے بچے شدید گرمی اور سردی میں تن ڈھانپنے کے لیے دو گز کپڑوں کے لیے بھی ترستے ہیں۔ جو چھت اور چار دیواری سے بھی محروم ہیں۔ جو علاج معالجے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جن کے بچے حصولِ تعلیم کے خواب دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
وطنِ عزیز میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کا کوئی پرُسان حال نہیں ہے۔ جن کی حالت کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر ہے۔ تنگ وتاریک گلیوں ،کچی بستیوں اور جھونپڑیوں کے یہ مکین، کہنے سننے اور دیکھنے کی حد تک تو پاکستانی ہیں، لیکن کھلی اور وضح حقیقت تو یہی ہے کہ ان کا پاکستان کے وسائل اور پاکستان کی دولت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
انہیں دو وقت کی روٹی ،پینے کے صاف پانی اورعلاج معالجے جیسی بنیادی ضروریات کے لیے بھی دن میں کئی کئی مرتبہ خوار ہونا پڑتا ہے۔ ان کے مقدر میں اس طرح گْھٹ گْھٹ کر جینا اور سسک سسک کر مرنا ہرگز نہیں لکھا ہے، بلکہ یہ ہماری بے حس اشرافیہ کا بالواسطہ اور بلاواسطہ ظلم و ستم ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ انسانی سطح سے گری ہوئی اور ابتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
شدید گرمی اور حبس کے موسم میں چوبیس گھنٹوں میں محض آٹھ سے دس گھنٹے بجلی کی دستیابی لوگوں کی کثیر تعداد کو ڈپریشن کا مریض بنا چکی ہے۔ بازاروں، بسوں، دفاتر، گھروں میں لوگ معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے اُلجھ پڑتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر کوئی جائزہ مرتب کیا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ اس سے یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ لوڈشیڈنگ نے لوگوں کے اندر سے شائستگی کا خاتمہ اور اخلاقی قدروں کو ملیامیٹ کردیا ہے۔
لوگوں کی بڑی تعداد کبھی بڑے بڑے قدرتی حادثات یعنی سیلابوں، زلزلوں اور خشک سالی کے ہاتھوں زخموں سے چُور ہوتی ہے اور کبھی ان لوگوں کو بم دھماکے، ٹرین کے حادثات، چھتیں اور دیواریں گرنے کے واقعات ابدی نیند سلا دیتے ہیں یا پھر ایسے امراض میں مبتلا ہوکر زندگی کے غموں سے آزاد ہوجاتے ہیں، جو لاعلاج ہرگز نہیں ہیں، لیکن ان غریبوں کے پاس ان کے علاج کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں، جبکہ ریاست اور معاشرہ اپنی ذمہ داری اور ان غریبوں کے حقوق ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
ان غموں کے ماروں کا نہ تو اس ارض پاک کے بڑے بڑے عالیشان دفاتر، ہوٹلوں، بنگلوں ، کلبوں، ریستورانوں ،کھیل کے میدانوں ،بڑے بڑے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں میں کوئی حصہ ہے اور نہ ہی یہ لوگ بینکوں اور بڑے بڑے مالیاتی اداروں تک رسائی اور ان سے مستفید ہونے کا سوچ بھی سکتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت کی اس حالت کی ذمہ دار اُن پر مسلط بیرونی طاقتوں کی اطاعت گزار و لے پالک اشرافیہ ہے، اُسی کے لالچ اور حماقتوں کے سبب پاکستان کا وہ انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے جس کے فعال رہنے کی وجہ سے مڈل کلاس کی نشونما ہوتی ہے، ملک کی حالت بہترہونا شروع ہوجاتی ہے اور ملکی معاملات بہترانداز میں چلنے لگتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر سیاسی و معاشی طور پر اثر انداز ہونے والی عالمی قوتوں نے ایسی اشرافیہ کی بنیاد پاکستان کی تخلیق کے ساتھ ہی رکھ دی تھی، اگرچہ کچھ عرصہ تک سسٹم کی ضرورتوں کے تحت ملک میں مڈل کلاس کی افزائش ہونے دی گئی لیکن اس افزائش کے نتیجے میں خطے اور بین الاقوامی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل کی بناء پر ضروری سمجھا گیا کہ پاکستان میں ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے ذریعے ناصرف مڈل کلاس کی افزائش روکی جاے بلکہ جو لوگ قدرے غربت کی سطح سے اٹھ کرمڈل کلاس میں شامل ہوگئے ہیں انہیں دوبارہ خط غربت سے نیچے دھکیل دیا جائے۔
جنرل مشرف کے عہدِ مطلق العنانی کے دوران ظاہری طور پر یہ سمجھا گیا تھا اور حکومتی سطح سے بھی اس کا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ملک میں مڈل کلاس کی نشوونما کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ عوام کو موٹر سائیکل اور موبائل فون ملنا شروع ہوگئے اور ٹریکل ڈاؤن کی تھیوری کا نام لے کر یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ بہت جلد بالائی سطح پر ہونے والی معاشی تبدیلیوں کے اثرات عوام میں تقسیم ہونا شروع ہوجائیں گے، یوں گویا بہت جلد ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ لیکن واقفان حال اس وقت بھی جانتے تھے اور اب بھی جانتے ہیں کہ یہ وہ معاشی پالیسیاں تھیں، جن کی وجہ سے ملک کا بنیادی معاشی ڈھانچہ تباہ و برباد ہوجا تا ہے۔
مثال کے طور پر کراچی میں فلائی اوورز اور انڈرپاسز کا جال بچھا دیا گیا، لیکن پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو مزید تباہی کے کنارے پردھکیل دیا گیا، چنانچہ آج اس کاسموپولیٹن سٹی میں لاکھوں افراد اکیسویں صدی میں چنگ چی نامی سواری میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
اُسی دور میں قدرتی گیس کی نعمت کو سی این جی کی صورت میں گاڑیوں کے اندر استعمال کو فروغ دیا گیا، چنانچہ آج اس دور میں کشادہ کی گئی سڑکوں پر گاڑیوں کا ایک ہجوم امڈ آیا ہے جو روزانہ ٹریفک جام کا سبب بن رہا ہے۔ قدرتی گیس کی نعمت سے اس قدر بجلی بنائی جاتی کہ اس کی فراونی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت بھی کم ہوجاتی، پھر شہروں میں بجلی سے چلنے والی سرکلر ٹرینوں، ٹراموں اور ٹیوب ٹرینوں کا جال بچھا دیا جاتا، جس سے شہری زندگی میں ترقی کی ایک ایسی لہر اُبھرتی جو ملکی معیشت کو دوبارہ پٹری پر ڈال دیتی۔
لیکن ہماری لے پالک اشرافیہ چاہے وہ دائیں بازو کے نظریات کی پیروکار ہو یا خود کو بائیں بازو کے افکار کا حامل ظاہر کرتی ہو، دونوں ہی کی یہی کوشش رہی ہے کہ مڈل کلاس کے طور پر زندگی کرنے والے پاکستانیوں کو کسی طرح خطِ غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلے جا سکے۔