غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے تباہ کن اثرات
اس وقت ہمارے سماجی مسائل میں سے ایک بنیادی اور اہم مسئلہ ’’فرقہ واریت‘‘ ہے۔ اس کے اسباب زیادہ تر سیاسی و سماجی نوعیت کے ہیں تاہم کچھ علمی نوعیت کے بھی ہیں۔ فرقہ واریت کے سماجی اثرات پورے سماج کو گھیر لیتے ہیں اور انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ یہ زہریلے اثرات ذہنوں اور دلوں میں نفرت کی آگ بھڑکاتے ہوئے قتل و غارت اور خانہ جنگی تک پہنچ جاتے ہیں، ایسی صورت حال میں ہر طرف سے زندگی کے آثار معدوم ہونے لگتے ہیں اور ہر طرف موت، تباہی، بربادی، خوف، دہشت، خون، لاشیں، اور آگ ہی نظر آنے لگتی ہے جس کی تازہ مثالیں مشرقِ وسطیٰ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
فرقہ واریت کی آگ ایک دفعہ بھڑک جائے، تو اس پر قابو پانے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ سمجھ دار قوم وہی ہے جو آگ بھڑکنے کے بعد اس پر پانی ڈالنے کے بجائے ایسے اقدامات کرے جس سے آگ بھڑکے ہی نہیں۔ جبکہ بے وقوف قوم وہ ہے جو اپنے ہی گھر میں لگی آگ پر پانی کے بجائے تیل چھڑکے، اور بے وقوف ترین قوم وہ ہے جس کے گھر میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور وہ بھڑکتے شعلوں کا ہی انکار کر ڈالے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں پیش آنے والے فسادات کو بعض عناصر اور ذرائع ابلاغ اس انداز میں رپورٹ اور بیان کرتے ہیں جیسے کہ وہ پاکستان میں، بلکہ ہمارے ہی شہر میں پیش آئے ہوں۔ ان فسادت کے بارے میں جاننا، ان کے اسباب کا جائزہ لینا، حل کے لیے تجاویز سامنے لانا، اور ان فسادات میں ظلم و تشدد کے شکار ہونے والوں سے ہمدردی کرنا مستحسن عمل ہیں، تاہم ان فسادات کو اس انداز میں پیش کرنا کہ جیسے وہ ظلم ایک مکتبہ فکر کا دوسرے مکتبہ فکر پر ہو، انتہائی بری بات ہے۔
شام و عراق، یمن اور مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی کو ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر اس طرح بیان کیا جا رہا ہے کہ گویا وہاں مرنے والے سنی اور شیعہ مسلمانوں کو پاکستان کے سنی اور شیعہ مسلمانوں نے جا کر قتل کیا ہو۔
اسی طرح ایران اور سعودی عرب کی ریاستی پالیسی اور مختلف عسکریت پسند تنظیموں کے اقدامات اور ترجیحات کو اہل تشیع اور اہل سنت کا مذہب بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ان پالیسیوں اور ترجیحات کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے فسادات پر سارا غم و غصہ پاکستان میں نکالا جارہا ہے اور یہاں دونوں طرف سے تعصب کی آگ کو مزید بھڑکایا جا رہا ہے۔ اس نیک کام میں یہود و ہنود نہیں بلکہ ہمارے ہی ناداں دوست شامل ہیں۔
یہ عدل و انصاف اور عقل و شعور کے خلاف ہے کہ ظلم کرے کوئی اور اس کی سزا بھرے کوئی۔ اگر ہم نے پاکستان میں پر امن بقائے باہمی کی صورت حال کو بہتر بنانا ہے تو ہمیں کسی کی حمایت اور مفاد میں غلو کی حد تک نہیں جانا چاہیے اور اغیار کی مخالفت اور ردعمل میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے بے گناہ لوگوں کے قتل و غارت کی راہ ہموار ہو، ورنہ مذہبی تعصبات میں ملبوس سیاسی مفادات کی یہ پرائی جنگ ہمیں بھی لے ڈوبے گی۔
اگر ہم نے وہاں کی خانہ جنگی کی آگ پر پانی کے بجائے تیل پھینکا تو یہ آگ ہمیں بھی راکھ کر سکتی ہے۔ اس خانہ جنگی سے بچنے اور اس سے باہر نکالنے میں ہماری مدد کے لیے نہ ایران آئے گا اور نہ سعودی عرب، اور نہ ہی ہماری پسندیدہ تنظیمیں پہنچیں گی۔
یہ بھی یاد رکھ لیا جائے کہ دوسروں سے بلاوجہ نفرت، تعصب اور ان پر ظلم و زیادتی کا جواب اور حساب اللہ تعالیٰ کے حضور ہم نے انفرادی طور پر دینا ہے۔ وہاں نہ سفارش چلے گی، نہ پیسہ اور نہ ہی دباؤ۔ کسی بھی سیاسی اور مذہبی مفاد کا بہانہ بھی اس کے سامنے نہیں چلے گا۔
پیٹرول پمپ پر ماجس جلانے سے احتیاط کرنے والو!
پوری قوم کو جلانے والی آگ پر پیٹرول پھینکنے سے بھی اجتناب کرو!!!
مذہبی فسادات کو بیان کرنے، اس پر تبصرہ کرنے، اور اپنا ردعمل دکھانے میں احتیاط، انصاف اور سمجھ داری سے کام لیجیے!
مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی کو پاکستان میں در آمد کرنے سے احتیاط کیجیے اگر آپ پاکستان کے محب اور اپنے وطن کے محسن بننا چاہتے ہیں تو!
محمد حسین امن کے فروغ، تنازعات کے حل، اور مذہبی ہم آہنگی پر نصاب سازی کے ماہر اور پروفیشنل ٹرینر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔