پاکستانی ہسپتال اور کتنی جانیں لیں گے؟
اگر پاکستان میں روزانہ مرنے والے لوگوں کی تعداد کا جائزہ لیا جائے، تو ڈاکٹروں کی غفلت اور غلط علاج کے باعث ہونے والی اموات طبعی وجوہات، بڑھاپے، اور تشدد کے واقعات کے سبب ہونے والی اموات سے بھی زیادہ ہوں گی۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عام لوگوں کی صحت ہمارے ان حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے جو آسانی سے علاج کے لیے بیرونِ ملک جا سکتے ہیں۔
پمز میں ڈاکٹر شاہد نواز کے ساتھ جو افسوسناک واقہ ہوا، اس کی تفصیلات انتہائی پریشان کن تھیں۔ مرحوم ماہرِ امراضِ قلب کو 14 فروری کو ہسپتال کے باہر ایک حملے میں سر میں گولی لگی۔ ڈاکٹر شاہد کے عزیز و اقارب انہیں تب سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے جب انہیں معلوم ہوا کہ پمز میں انتہائی بنیادی طبی امداد کی سہولت بھی موجود نہیں تھی۔
میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق پمز کا سی ٹی اسکینر اور ای ای جی مشینیں خراب پڑی تھیں۔
یہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے۔ بھلے ہی ڈاکٹر شاہد کی حالت اب ناقابلِ علاج ہو چکی تھی، لیکن پھر بھی ان کے عزیز و اقارب کو انہیں ایک اور ہسپتال میں صرف اس لیے منتقل کرنا پڑا تاکہ کم از کم اس بات کا اطمینان ضرور ہو کہ تمام ٹیسٹ وغیرہ عالمی معیارات کے مطابق کیے گئے۔
ہسپتالوں کی خراب حالت کا یہ صرف ایک واقعہ ہے۔
پڑھیے: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت
میڈیکل اسٹور بسا اوقات جان بچانے والی ادویات وقت پر فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں، یا پھر ایکسپائر ہوچکی دوائیں رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جعلی ڈاکٹر بڑی تعداد میں ہیں، اور دور دراز دیہاتوں اور قبائلی علاقوں میں تمام علاج انہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں عوام کی ریاست سے وابستہ فلاح کی تمام امیدیں ٹوٹ چکی ہیں۔
ایک طویل عرصے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ تمام مشکلات صرف غریب لوگوں کے لیے ہیں جو کراچی، لاہور، اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے نجی ہسپتالوں میں علاج کے لیے زیادہ پیسے نہیں دے سکتے۔ لیکن ایک حالیہ ذاتی تجربے نے مجھے غلط ثابت کر دیا۔ کچھ ایسی بنیادی ضروریات ہیں جو کہ دولتمند مریضوں کو بھی میسر نہیں ہو پاتیں۔
میرے بڑے بھائی اسحاق عادل کو سانس لینے میں تکلیف کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا گیا تو اگلے ہی دن دوپہر میں مجھے بتایا گیا کہ انہیں فوری طور پر وینٹیلیٹر والے بیڈ پر رکھنا ہوگا۔
میں نے اور میرے دوست نے پورے کراچی میں تقریباً دو سو کلومیٹر سفر کیا، تمام ہسپتال چھان مارے کہ شاید کہیں وینٹیلیٹر والا بیڈ دستیاب ہو، لیکن ہمیں ہر جگہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ ہر ہسپتال میں اس سہولت کے لیے مریضوں کی ایک بڑی تعداد انتظار کر رہی تھی۔
گھنٹوں کی تلاش اور علاج میں تاخیر کے بعد ہمیں کلفٹن کے ایک ہسپتال میں ایسا بیڈ مل گیا لیکن تب تک میرے بھائی کی حالت بہت زیادہ بگڑ چکی تھی۔ ہم نے انہیں بدھ کے روز منتقل کیا اور معائنے کے فوراً بعد ہی ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا نمونیا شدید ہو چکا ہے، انہیں Acute Respiratory Distress Syndrome یا (ARDS) ہے، اور اس بات کا خطرہ ہے کہ ان کا انفیکشن ان کے دل اور گردے تک پہنچ سکتا ہے۔
جب اسحاق کو وینٹیلیٹر پر رکھا گیا، تو کئی دیگر پیچیدگیاں سامنے اائیں جس کی وجہ سے جمعے کی رات ان کا ڈائلائسز ضروری قرار دیا گیا۔ اب اس مہنگے ترین پوش ہسپتال میں بھی اس کے لیے دوائی نہیں تھی اور ایک بار پھر گھر والے دوائی کی تلاش میں شہر بھر میں پریشان پھرتے رہے۔ جب تک نارتھ ناظم آباد میں ایک فارمیسی پر وہ دوائی دستیاب ہوئی، تب تک ہفتے کی رات کے تین بج چکے تھے۔
مزید پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں
میرے بھتیجے بھاگتے بھاگتے وہاں سے دوائی لائے، لیکن ڈاکٹر نے دوائی استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔
دوائی ایکسپائر تھی۔ فارمیسی نے زائد المیعاد دوائی بیچ دی تھی۔
اس ملک میں یہ سب کچھ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن کسی کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی۔ اس کہانی کا دردناک انجام یہ ہوا کہ ہفتہ 9 جنوری کی صبح 11:40 پر میرے بھائی انتقال کر گئے، اور اپنے گھر والوں کو صدمے میں چھوڑ گئے۔ ان کے گھر والوں نے ان کے علاج کے لیے جو بھاگ دوڑ کی تھی، وہ صحت کے ایک اچھے نظام کی صورت میں نہ کرنی پڑتی اور تمام دوائیں اور علاج فوراً ہی دستیاب ہوتا۔
میرے ایک دوست نے بتایا کہ بنگلور جیسا شہر جہاں کی آبادی صرف 85 لاکھ ہے، وہاں ایک بڑے ہسپتال میں وینٹیلیٹر والے 200 بیڈ موجود ہیں۔ لیکن کراچی جہاں کی آبادی 2 کروڑ سے 3 کروڑ کے درمیان ہے، وہاں میرے بھائی کی جان بچانے کے لیے ایک وینٹیلیٹر بھی دستیاب نہیں تھا۔
حکمرانوں کو شرم آنی چاہیے کہ انہوں نے صحت کو بھی پیسہ بنانے کے لیے ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک وقت تھا جب کراچی سے لے کر پشاور تک ہسپتالوں کے دروازے مریضوں کے لیے کھلے ہوئے ہوتے تھے۔ تب طبقاتی تفریق نہیں ہوا کرتی تھی۔ اب ہمارے پاس کاروباری ذہنیت رکھنے والے پیسے کے بھوکے اشرافیہ پرائیوٹ ہسپتالوں کے بورڈ میں بیٹھے ہیں، جہاں وہ علاج پر اٹھنے والے اخراجات کا اندازہ بتانے سے پہلے بھی ایک خطیر رقم جمع کروانے کے لیے کہتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ 80 کی دہائی کے اواخر میں پروفیسر ڈاکٹر ایس ایم کے واسطی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ملک کے غریب لوگوں کے لیے ایک ہسپتال کی تعمیر پر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت وہ پاکستان کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز ان کراچی کی تاریخ بھی مرتب کر رہے تھے۔
جانیے: ایک نیا تجربہ
انہوں نے بتایا تھا کہ وہ پاکستان کا نام تجویز کرنے والے ایک دوست چوہدری رحمت علی کے نام پر ہسپتال کا نام چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ ہسپتال رکھ رہے ہیں۔ لاہور ٹاؤن شپ میں موجود اس ہسپتال میں او پی ڈی کی سہولت بھی تھی جبکہ مریضوں کو صرف چار آنے کی علامتی فیس پر ہی داخل کر لیا جاتا تھا۔
آج خود کو سماجی بھلائی کا چیمپیئن کہلوانے لوگ بھی علاج کے لیے خطیر رقم بٹور رہے ہیں۔ جب تک ریاست صحت، تعلیم، خوراک، اور سر چھپانے کی جیسی بنیادی سہولیات کی بھی ذمہ داری نہیں لیتی، تب تک پر امید رہنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔
علی اشرف خان سیاسی تجزیہ کار اور محقق ہیں۔
وہ آج کل تجارتی باڈی PCETA کے چیئرمین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔