نقطہ نظر

میں ہوں شعیب اختر

ان کی ہمت کیسے ہوئی کہ ہندوستانی ٹی وی شو میں پاکستان کا مذاق اڑائیں؟

حال ہی میں شعیب اختر کامیڈی نائٹس وِد کپل نامی ہندوستانی ٹی وی شو میں پاکستانی ٹیم کا مذاق اڑانے پر شدید تنقید کی زد میں آئے۔

شو کی ایک چھوٹی ویڈیو کلپ، جس میں شعیب اختر کو کھلاڑیوں کی عمر، خراب انگریزی، اور آفیشلز کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا۔

شعیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر 'مصباح، یونس، اور آفریدی کی عمریں جمع کی جائیں، تو یہ ٹیم 150 سال کی ہوجائے گی' اور ان کے اس لطیفے پر لوگ ہنسنا شروع ہوگئے۔ انہوں نے شبیر احمد کی زبان پھسلنے کا واقعہ یاد دلایا جس کے بارے میں ہم سب ہی سن اور ہنس چکے ہیں۔ جب ہربھجن سنگھ نے انضمام الحق کو سست کہا تو شعیب اختر اس پر بھی ہنسے۔

ان کی باتوں پر بھلے ہی پوری دنیائے انٹرنیٹ میں ہلچل نہیں مچی، لیکن خود کو محبِ وطن کہلوانے والے لوگوں کو شدید تکلیف پہنچی۔ قومی فخر کے محافظ فخرِ عالم سے لے کر ہر چیز میں درست عمر شریف اور سوشل میڈیا پر ان کے ہم خیال لوگوں کی طرف سے شعیب اختر پر بے تحاشہ ملامت کی گئی۔

آخر ان کی ہمت کیسے ہوئی کہ ایک ہندوستانی شو میں پاکستان کی بے عزتی کریں؟

اس کا ایک جواب یہ ہے کہ: وہ ہم میں سے ایک ہیں!

جو لوگ شو کے بارے میں نہیں جانتے، یا اگر انہیں نہیں پتہ کہ پاکستان میں یہ کتنا مشہور ہے، تو وہ دیکھ لیں کہ کرینہ کپور اور عمران خان (کرکٹر نہیں، اداکار عمران خان) کی یہ ویڈیو کلپ 95,000 لوگ دیکھ چکے ہیں۔

جائیں دیکھ لیں! ہم میں سے زیادہ تر لوگ سستی تفریح پسند کرتے ہیں، بے تکے طنز، صنف کا مذاق اڑانا، یا کسی دوسرے کو مذاق کے نام پر شرمندہ کرنا پاکستانی اور ہندوستانی تفریح کا ایک اہم حصہ ہیں۔

اگر لوگوں کو شعیب اختر کی باتوں سے تکلیف پہنچی ہے، تو انہیں شیشے میں اپنے آپ کو دیکھ کر بھی تکلیف پہنچنی چاہیے کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ میرا کی انگلش کا، سیاستدانوں کی ظاہری وضع قطع کا، ناصر جمشید کے وزن کا، یا کچھ کرکٹ کھلاڑیوں کی جنسی ترجیحات کا مذاق اڑا چکے ہیں۔

یہ فہرست نہ ختم ہونے والی ہے، اور ہماری منافقت بھی نہ ختم ہونے والی ہے۔

ویسے دیکھا جائے تو عمر شریف نے شعیب اختر کو اپنا تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وہی شعیب اختر جنہوں نے ماضی میں عدنان سمیع خان کا ان کے وزن کی وجہ سے بے تحاشہ مذاق اڑایا ہے، جبکہ اپنے اسٹیج شوز کے دوران ایک معذور کردار کو بھی بالکل نہیں چھوڑا۔

ہاں، جسمانی ساخت یا خراب انگلش کا مذاق اڑا کر شعیب اختر کچھ زیادہ ہی آگے چلے گئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ کی نقل کرنا قابلِ مذمت ہے۔ لیکن انہوں نے جو بھی کیا ان میں سے کوئی گالی، مذاق، یا ذومعنی بات ایسی نہیں جو ہم خود بھی انٹرنیٹ پر نہیں کر چکے۔

افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ شعیب اختر ہمارے ہی معاشرے کی پیداوار ہیں۔ یہاں پر توجہ حاصل کرنے کے لیے عقل کے بجائے ذومعنی باتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ عام لوگ یہ ری ٹوئیٹ کے لیے کرتے ہیں، انہوں نے کچھ تالیوں کے لیے کیا۔

شاید انہوں نے ایسا پیسے کے لیے نہیں کیا۔ شاید وہ اس سے زیادہ جانتے بھی نہیں کیونکہ وہ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ایسا رویہ اب قابلِ قبول ہو چکا ہے، بلکہ اسے تفریح طبع کا ذریعہ بنا دیا گیا۔

مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ ہم سب لوگ خود بھی تو ایسے گھٹیا مذاق آپس میں کرتے ہیں، لوگوں کی ذاتیات پر حملہ کرنا، ان کی جسمانی ساخت یا کمزوریوں کا مذاق اڑانا پمارے پاس مکمل طور پر جائز سمجھا جاتا ہے، تو پھر شعیب اختر کی کیا غلطی ہے؟

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانی خود پر ہنسنے کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن شعیب اختر اپنی خامیاں تسلیم کرنے میں پیش پیش نظر آئے اور اپنے آدھے پورے آسٹریلوی لہجے کا خود ہی مذاق اڑایا۔

شعیب اختر! خود پر ہنسنے کی طاقت رکھنے کے لیے آپ کا شکریہ، آپ کے سستے لطیفوں کا شکریہ، اپنی خراب انگلش، اور ساتھی کرکٹرز کا مذاق اڑانے کے لیے آپ کا شکریہ۔

لیکن کیا ہم بھی یہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں؟

انگلش میں پڑھیں۔

عمر بن اجمل

عمر بن اجمل ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

وہ ٹوئٹر پر umerbinajmal@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔