نقطہ نظر

ہندو جم خانہ: 8 ایکڑ سے ایک ایکڑ تک

پچھلے سو سالوں میں کئی اداروں کو جم خانہ کی زمین الاٹ کی گئی جس سے اس کا رقبہ سکڑتا جارہا ہے۔

ہندو جم خانہ کے لیے 1921 میں 39,178 گز زمین لیز کی گئی۔ یہ زمین تقریباً 8 ایکڑ بنتی ہے۔ لیز کی مدت 100 سال تھی جو 2020 کو ختم ہو جائے گی۔ ہمارا اکثر تقریبات کے سلسلے میں ہندو جم خانہ جانا ہوتا ہے۔ ایک بار ہم اپنے دوست اشرف سولنگی کے ہمراہ جم خانہ گئے۔ ہمارے ذہن میں یہی سوال ابھر رہا تھا کہ اس کا رقبہ کسی بھی طرح آٹھ ایکڑ نہیں لگ رہا تھا۔

اشرف سولنگی، جن کا تعلق ایک زمین دار گھرانے سے ہے، نے ہمیں بتایا کہ ہندو جم خانہ کا موجودہ رقبہ کسی بھی طرح ایک ایکڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس بات کی تصدیق ہمارے مہربان دوست معروف موسیقار اور ستار نواز نفیس خان صاحب نے بھی کی جو ہندو جم خانہ کی عمارت میں قائم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میں موسیقی کی تربیت دیتے ہیں۔ ہم سوچ رہے تھے آخرکار باقی اراضی کہاں گئی۔ اس کا ذکر آگے کریں گے، فی الحال بات کرتے ہیں ہندو جم خانہ کی۔

ہندو جم خانہ کی تعمیر 1925 میں مکمل ہوئی اور اس کا نام سیٹھ رام گوپال گوردھن داس مہوٹہ ہندو جم خانہ رکھا گیا۔ کراچی میں بندر روڈ پر گوردھن داس مارکیٹ بھی ہے۔ ہندو جم خانہ کو ملک گیر شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب 2005 میں سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں جم خانہ کو ایک معاہدے کے تحت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس کے حوالے کیا گیا۔ ناپا کے قیام نے ہندو جم خانہ کی قسمت بدل دی۔

جم خانہ کے ویران کمروں میں نفیس خان کے ستار اور بشیر خان صاحب کے طبلے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ اس کے ساتھ ساتھ راحت کاظمی اور طلعت حسین بھی اپنی اداکاری کے جوہر نوجوانوں کو منتقل کرنے لگے اور پھر ضیاء محی الدین کی تو بات ہی کیا، وہ طلباء کا شین قاف درست کرنے کے علاوہ انہیں یہ گر بھی سکھاتے نظر آتے کہ تلفظ درست ہونے کے علاوہ جملوں کی ادائیگی بھی کتنی اہم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں عالمی میوزک کانفرنس بھی منعقد ہوتی رہی ہے۔

گو کہ ہندو جم خانہ فنون لطیفہ کا مرکز بن گیا، لیکن ان تمام تقاریب کی خاص بات یہ تھی کہ ہندوجم خانہ میں آنے والے 99 فی صد مسلمان ہوتے تھے، ہندو نہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رقص و موسیقی جو ہندو مذہب میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اس کی تربیت دینے والے تمام ماہرین بھی مسلمان ہیں، ہندو کوئی نہیں، اور یہی صورت حال ناپا میں تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں کی بھی ہے۔ 2005 میں ہندو جم خانہ میں قائم ہونے والا ناپا ایک مستحکم ادارے میں تبدیل ہوتا گیا۔ 2009 میں ہندو جم خانہ کے ناپا کو ایک بار پھر شہرت نصیب ہوئی، تاہم یہ شہرت ناپا کے منتظمین کے لیے تشویش ناک تھی۔

3 ستمبر 2008 کو ناپا کے چیئرمین ضیاء محی الدین کو سکریٹری محکمہ ثقافت سندھ کی جانب سے ایک نوٹس ارسال کیا گیا جس کے تحت انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ انہوں نے 23 ستمبر 2005 کو ہونے والے معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے ہندو جم خانہ میں تھیٹر یا آڈیٹوریم کی تعمیر شروع کی ہے جو غیر قانونی ہے۔ لیز کے مطابق یہ تعمیر سندھ کلچر ہیریٹیج پریزرویشن ایکٹ 1994 کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت وہ تین ماہ میں ہندو جم خانہ خالی کردیں۔

ناپا کے ایک ذمے دار اور معروف موسیقار ارشد محمود کے مطابق انہوں نے یا ان کی تنظیم نے معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ ہندو جم خانہ اپنی اصل شکل میں موجود ہے، اس لیے ناپا کو نوٹس جاری کرنا غیر قانونی ہے۔ چونکہ ہماری صحافت بھی ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہیں، اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا قومی نعرہ اب اتحاد، تنظیم، یقین محکم کے بجائے افواہ، افراتفری، اور اشتعال ہونا چاہیے۔ ادھر نوٹس جاری ہوا، اور ادھر میڈیا کو ایک نیا اشو مل گیا۔ اخبارات میں بڑی بڑی خبریں شائع ہوئیں۔ خبریں پڑھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ ناپا بس ایک آدھ ماہ کا مہمان ہے۔ آج مارچ 2015 ہے اور ناپا آج بھی ہندو جم خانہ میں موجود ہے اور اسی طرح سے کام کررہا ہے۔

ہمارے صحافی دوست ریاض سہیل نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جب ناپا کا تنازع شروع ہوا، تو اس وقت سندھ کی وزیر ثقافت سسی پلیجو نے فرمایا تھا کہ 'یہ عمارت ہندو برادری کی ملکیت ہے اور شہر میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں وہ اپنے تہوار منا سکیں۔ جنرل پرویز مشرف نے زبردستی وہاں سے سامان باہر پھنکوا کر اپنے رشتے داروں کے کہنے پر عمارت کو خالی کروا کر ناپا کے حوالے کیا۔ اس کی ابتداء ہی غلط تھی اور پیپلز پارٹی نے اپوزیشن میں اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس عمارت سے تاریخی نوعیت کے سامان کو بے دردی سے حیدرآباد کے میوزیم منتقل کیا گیا، جس کی بڑی اہمیت تھی۔' صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ 'پرویز مشرف کے تعلق کی وجہ سے انتقام لینے کی بات غلط ہے۔ پیپلز پارٹی انتقام پر یقین نہیں رکھتی۔ اس عمارت کو ہندو کمیونٹی کی سرگرمیوں کے لیے وقف کیا جائے گا۔'

جہاں تک حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے ہندو جم خانہ کی ناپا حوالگی کی مخالفت کا تعلق ہے تو اس کے لیے اس وقت کے اخبارات کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی کا ریکارڈ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا محترمہ نے ایسی کوئی تقریر کی تھی؟ یہ بہت دشوار اور وقت طلب کام ہے۔ آل پاکستان ہندو پنچائیت نے ناپا سے ہندو جم خانہ کی واگزاری کے لیے ٹھیک 11 سال بعد 17 فروری 2014 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کو ہندو برادری کے مسائل کے عنوان سے خط لکھا، جس میں ہندو جم خانہ کے حوالے سے ازخود کارروائی کی اپیل کی گئی۔

آل پاکستان ہندو پنچایت کی جانب سے یہ درخواست تو چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیج دی گئی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندو جم خانہ کی ہی واگذاری کی درخواست کیوں؟ ہندوؤں کے باقی مقامات کا کیا ہوگا؟ ہمارے دوست وسعت اللہ خان نے اپنے کالم میں ہندوؤں کے کراچی میں مقامات کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

”حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ ہندو جم خانہ کی تاریخی عمارت نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ سے خالی کروا کر اسے ہندو کمیونٹی کی تقریبات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یقیناً یہ ایک قابل قدر اقدام ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت سندھ اقلیتوں کی فلاح کا جذبہ برقرار رکھتے ہوئے یہ بھی معلوم کر لے کہ 1947 میں کراچی شہر میں چھوٹے بڑے ملا کر 420 مندر، متعدد گرودوارے اور ایک یہودی معبد ہوا کرتا تھا، ان کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ جو مندر باقی بچے ہیں ان میں سے نارائن مندر کے صحن کو قریشی دکاندار گودام کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ ناگ ناتھ مندر اب صابن کی فیکٹری ہے۔ پریڈی تھانے کے ساتھ لگے ہوئے مندر پر قبضہ گروپ کا تسلط ہے۔ دریا لال مندر ایک گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کا دفتر ہے۔ بھاگ ناری مندر پر ایک ٹرانسپورٹ اور کوریئر کمپنی کا قبضہ ہے اور پنجرہ پول مندر اس کے ٹرسٹیوں نے بیچ کھایا۔

وسعت اللہ جو لکھتے ہیں کمال لکھتے ہیں۔ ان کی تحریر کو رد کرنا ممکن نہیں۔ چلیں اب آگے بڑھتے ہیں۔ اگریہ مان لیا جائے کہ 1994 کے ایکٹ کے مطابق کسی بھی تاریخی ورثہ قرار دی جانے والی عمارت میں کوئی تعمیرات نہیں ہوسکتی، تو پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے بے شمار مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ معاملہ کفر و اسلام تک پہنچ جائے گا۔ ایسی عمارتوں کے انہدام کے لیے بڑا حوصلہ درکار ہوگا۔ سابقہ وکٹوریہ میوزیم اور حالیہ سپریم کورٹ کی عمارت میں ایک چھوٹی لیکن عالی شان مسجد کچھ عرصہ پہلے تعمیر کی گئی ہے۔

اسی طرح خالق دینا ہال کے پچھواڑے میں سرکاری دفاتر اور رہائشی کوارٹر موجود ہیں۔ اور تو اور سندھ اسمبلی بلڈنگ میں بھی ایک مسجد ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قدیم اسمبلی کے عقب میں خالی جگہ پر نئی اسمبلی بلڈنگ بن گئی ہے۔ NJV اسکول سابقہ سندھ اسمبلی بلڈنگ کے ایک حصے میں محکمہ تعلیم نے پارٹیشن بنا کر دفاتر قائم کر دیے ہیں۔ اب میں بولوں کہ نہ بولوں؟ سسی پلیجو صاحبہ اور قائم علی شاہ صاحب آپ دونوں نے بہت مشکل کام اپنے کاندھوں پر لے لیا ہے۔

آئیے اب بات کرتے ہیں ہندو جم خانہ کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق رقبے کی۔ جم خانہ کا پلاٹ نمبر RB1/5 ہے۔ اس کا مکمل رقبہ 39,178 گز ہے۔ 1978 میں 27,396 گز کا رقبہ مفت میں محکمہ پولیس کو دیا گیا۔ اور اسی سن میں 6700 گز فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور 4164 گز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دیا گیا، لیکن علی گڑھ یونی ورسٹی نے زمین کی قیمت ادا کی جو 1,73,050 روپے تھی۔ اسی طرح عبدالمجید خان نامی ایک شخص کو 416 گز کا رقبہ الاٹ کیا گیا۔ یعنی ہندو جم خانہ کا مکمل رقبہ 39,178 گز تھا۔ اس رقبے میں سے اگر دان کیا گیا رقبہ نکال دیا جائے تو بچنے والا رقبہ 4816 گز بنتا ہے۔ ہندو جم خانہ کے حصول کے لیے معروف وکیل مائیکل سلیم کے مطابق 17 کے قریب افراد و ہندو تنظیموں نے انفرادی اور اجتماعی صورت میں مختلف عدالتوں میں مقدمات دائر کیے ہوئے ہیں۔

ہندو جم خانہ کی واگزاری کے لیے جدوجہد کرنے والی ہندو تنظیموں، شخصیات اور محکمہ ثقافت کے ذمے داران اور ناپا کی مجلس عاملہ سے ہماری درخواست ہے کہ جب آپ اس کے لیے جدوجہد کر ہی رہے ہیں، تو صرف 4816 گز کی واگزاری کے لیے ہی کیوں؟ 39,178 گز رقبے کے واپس حصول کی جدوجہد کریں اور پھر دیکھیں کہ کیا واقعی کسی کو ہندوؤں کی تقریبات کی جگہ چھن جانے یا سندھ کی ہیریٹیج تباہ ہونے کی فکر ہے؟

— تصاویر اکبر بلوچ

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔