میونسپل اداروں پر اعتماد کیسے بحال ہو؟
بحریہ ٹاؤن ایسا کیا دے سکتا ہے جو راولپنڈی کینٹونمنٹ بورڈ کی پوری اسٹیبلشمنٹ فراہم نہیں کر سکتی؟
جواب ہے، سب کے لیے پانی!
اور صرف پانی ہی نہیں، بلکہ باقی میونسپل سہولیات جیسے کہ کچرا اٹھانا، صفائی، روشن سڑکیں، پلاننگ سے تعمیر شدہ رہائشی علاقے، اور سکیورٹی بھی شامل ہیں۔
راولپنڈی کینٹونمنٹ بورڈ (آر سی بی) کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام رہائشیوں کو پانی کی فراہمی یقینی بنائے، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ پانی سے محروم شہری پرائیوٹ ٹینکروں سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں جو 6000 لیٹر 800 سے 1200 روپے میں فراہم کرتے ہیں۔ 7 مرلے کے گھر میں رہنے والا 6 نفوس پر مشتمل گھرانہ آرام سے ایک ٹینکر ایک ہفتے میں استعمال کر سکتا ہے، اور اس طرح صرف پانی کی مد میں ماہانہ 4800 روپے خرچ ہوتے ہیں۔
سال کے آغاز میں راولپنڈی کینٹونمنٹ بورڈ میں کچھ ہفتے رہنے کے بعد میں سمجھ پایا کہ رہائشی (ٹیکس دہندگان) کی امیدوں اور تصور و تحرک سے عاری انتظامیہ کے درمیان کوئی تعلق کیوں نہیں ہے۔
اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق آر سی بی واٹر سروس چارجز کی مد میں 7 کروڑ روپے وصول کرتا ہے، لیکن فراہمی پر 21 کروڑ روپے خرچ کرتا ہے، جو کہ کئی رہائشیوں کے لیے ناکافی ہوتا ہے، یا ان تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔ آر سی بی انتظامیہ فراہمی پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے بل بڑھانا چاہتی ہے۔
1998 کی مردم شماری کے مطابق راولپنڈی کینٹونمنٹ میں پینے کے پانی کی فراہمی راولپنڈی میونسپل کارپوریشن کے زیرِ اہتمام علاقوں سے بھی خراب تھی۔
اقتصادی اعتبار سے دیکھا جائے تو فراہمی کے اخراجات صارفین کی تعداد میں اضافے کے ساتھ کم ہونے چاہیئں، اور اس حساب سے آر سی بی صارفین کو پائپ کے ذریعے پانی پرائیوٹ ٹینکروں سے کہیں کم نرخوں پر فراہم کر سکتا ہے۔
2012 میں آر سی بی نے واٹر سروس چارجز میں اضافے کی تجویز دی تھی تاکہ 7 مرلے کا ایک گھر ہر ماہ 300 روپے ادا کرے۔ ایسا کیوں ہے کہ صارفین ہر ماہ 4800 روپے خرچ کر کے نجی طور پر پانی حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ 300 روپے ماہانہ آر سی بی کو ادا کر کے آسانی سے پانی حاصل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے؟
لوگ زیادہ ادائیگی کرنے سے نہیں کتراتے۔ وہ زیادہ ادا کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں، تب ہی تو ٹینکروں کو ہزاروں روپے ادا کرتے ہیں۔ جواب عدم اعتماد میں پوشیدہ ہے۔ لوگوں کو یقین نہیں ہے کہ آر سی بی ان سے زیادہ پیسے لے کر بھی پانی کی فراہمی یقینی بنا پائے گا یا نہیں۔
ٹیکس دہندگان کا میونسپل اداروں پر عدم اعتماد، اور سروس چارجز کی مد میں ناکافی فنڈز کا اکٹھا ہونا ہی پاکستان میں میونسپل سہولیات کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔
آر سی بی بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ دوسری جانب راولپنڈی کے بحریہ ٹاؤن کے رہائشی لوڈ شیڈنگ، پانی، اور سکیورٹی کے لیے پریشان نہیں ہوتے۔
وہ بجلی اور پانی کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کو بلز میں بچت بھی ملتی ہے، اور وہ ایسا شہری لائف اسٹائل حاصل کر پاتے ہیں جس میں ٹینکروں کے پیچھے بھاگنے، شور، آلودگی، اور عدم تحفظ جیسے مسائل دور دور تک موجود نہیں ہوتے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کیوں ایک جگہ چیزیں درست کام کرتی ہیں اور دوسری جگہ نہیں؟
یہی شہری جب کینٹ یا کسی اور جگہ سے بحریہ ٹاؤن منتقل ہوجاتے ہیں، تو تمام خدمات کے لیے ادائیگی شروع کر دیتے ہیں، کچرہ نہیں پھیلاتے، اور ماحول کے تحفظ کے لیے فکرمند نظر آتے ہیں۔ وہی شہری جو شہر کے دوسرے علاقوں میں بجلی چوری کرتے ہیں، بحریہ ٹاؤن آ کر قانون پسند صارف بن جاتے ہیں؟
ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں رہتے ہوئے لوگ ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں کرتے لیکن دوسرے ممالک جا کر احتیاط سے گاڑی چلاتے ہیں؟
بحریہ ٹاؤن جیسی جگہوں پر ضوابط کا نفاذ اس کی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔ کچرہ پھیلانے والوں پر جرمانہ کیا جاتا ہے اور وہ کسی سے بات کر کے یا کسی کو ڈرا دھمکا کر جرمانہ ادا کرنے سے بچ نہیں سکتے۔ وہ بحریہ ٹاؤن کے یوٹیلٹی ورکرز کو رشوت دے کر بجلی کا میٹر سست کرنے پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی آلودگی پھیلائے یا کسی غیرقانونی کام میں ملوث ہو، تو پڑوسی حکام کو شکایت کردیتے ہیں کیونکہ وہ بہتر ماحول برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
صارف اور خدمات فراہم کرنے والوں کے درمیان اعتماد ہی وہ وجہ ہے کہ صارفین فوراً اپنے بقایا جات کی ادائیگی کرتے ہیں، اور اس کے بدلے میں انہیں خدمات کی فراہمی ضرور ہوتی ہے۔
کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جو لوگ بجلی چوری کرتے ہیں وہ کیوں بڑی آسانی سے پرائیوٹ اسکولوں کی بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں؟ صارفین اسکولوں پر اعتماد کرتے ہیں کہ فیس کے بدلے ان کے بچے کو تعلیم فراہم کی جائے گی۔ اور یہی اعتماد میونسپل حکام پر نہیں ہے۔
سرکاری ادارے ٹیکس دہندگان کا اعتماد جیتنے کے لیے کم ہی اقدامات کرتے ہیں۔ میونسپل خدمات فراہم کرنے والوں کی اجارہ داری ایسی ہے، کہ وہ اگر اپنے صارفین کو خدمات فراہم نہ بھی کریں تب بھی انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔
پانی کی شکایت لے کر سرکاری دفتر جائیں اور خود دیکھیں کہ پاکستان میں میونسپل گورننس کی حالت کس قدر بری ہے۔
صارفین بھی مکمل طور بے قصور نہیں ہیں۔
وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے آس پاس موجود تمام چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، لیکن وہ خدمات کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ان چارجز میں تھوڑے تھوڑے اضافے کو ادا کرنے سے انکار کر کے ہم نے میونسپل اداروں کی مالیات کو تباہی تک پہنچا دیا ہے۔
اس کی وجہ سے صارفین نہ صرف بنیادی سہولیات سے خود کو محروم کر لیا ہے بلکہ اب وہ بجلی کے بیک اپ سسٹمز اور پانی بیچنے والی مافیاؤں کے رحم و کرم پر آ چکے ہیں۔
اعتماد بحال کس طرح کیا جائے؟
ان حالات میں ذمہ داری آر سی بی اور دیگر میونسپل اداروں پر ہے، کہ وہ ٹیکس دہندگان کا اعتماد واپس حاصل کریں۔
پرنٹ اور نیوز میں اشتہاری مہم چلائی جائے تاکہ عوام کو آگاہ کیا جا سکے کہ کس طرح آر سی بی شہریوں کو ٹینکر مافیا کے ہوشربا نرخوں سے بچا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس دہندگان کے حقوق کا چارٹر بھی تیار کیا جانا چاہیے جس میں یہ لکھا ہو کہ زیادہ ریٹس کے بدلے انہیں پانی گارنٹی کے ساتھ فراہم کیا جائے گا۔
اعتماد کا یہ فقدان مقامی سطح پر لوگوں اور میونسپل حکام کے مابین مذاکرات کے ذریعے بھی حل کیا جاسکتا ہے۔
اگر کمیونٹی گروپس سرکاری اداروں میں اپنے مسائل لے کر جائیں، تو کلرک زیادہ جلدی سنیں گے بجائے اس کے کہ انفرادی طور پر شکایات درج کروائی جائیں۔
منظم کمیونیٹیز بہتر طور پر میونسپل حکام کے ساتھ بات چیت کرسکتی ہیں تاکہ خدمات کی فراہمی کے اخراجات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے، اور ریوینیو کلیکشن اور اس کے خرچ کو بھی شفاف بنایا جا سکے۔
یہ اہم کام سیاستدانوں پر نہیں چھوڑے جاسکتے کیونکہ انہیں عوامی بھلائی کے کسی کام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
آخری بار کب کسی سیاسی اور مذہبی جماعت نے شہریوں کے حقوق کے چارٹر کی بات کی تھی جس میں میونسپل خدمات کی فراہمی کی کم سے کم حد مقرر کی جائے؟
شہری پاکستان کی قسمت میں ایسے ہی سڑتے رہنا نہیں ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے پلان شدہ رہائشی علاقے دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں پرسکون اور سہولیات سے بھرپور رہائش ناممکن نہیں ہے۔
اس کام کے لیے کمیونٹیز کو خود کو منظم کرنا ہوگا، اور میونسپل اداروں کو ان عوام کا اعتماد واپس حاصل کرنا ہوگا جن کی خدمت کرنا ان کا مینڈیٹ ہے۔
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔