کیا ہم صرف کرکٹ میں پیچھے ہیں؟
آج کل پاکستانی گھروں سے لے کر قومی میڈیا تک تمام مباحثوں میں صرف کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی مایوس ترین کارکردگی زیرِ بحث دکھائی دیتی ہے۔ ہر کوئی اپنی کرکٹی بصیرت کے مطابق باؤلنگ سے لے کر بیٹنگ آرڈر پر تبصرہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دونوں میچوں میں شکست کا ذمہ دار کوئی کپتان کو، کوئی سلیکشن کمیٹی کو اور کوئی پی سی بی مینجمنٹ کو ٹھراتا ہے۔ اور جس کی کرکٹی بصیرت آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے، وہ بھی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھتے ہوئے سارا ملبہ قسمت پر ڈال دیتا ہے۔
مزے کی بات یہ کہ پچھلے دونوں میچز میں بری ترین کارکردگی کے باوجود پاکستانی شائقین اگلے میچ کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں اور جب اگلا میچ زمبابوے کے خلاف ہو گا تو پھر سے کرکٹ کے شیدائی جذبات اور احساسات کی رو میں بہتے ہوئے اپنی نیند کی قربانی دیں گے اور سب کچھ چھوڑ کر اپنی ساری توجہ میچ پر مرکوز کر دیں گے۔
اگر پاکستان ویسٹ انڈیز سے شکست کھانے والی زمبابوے ٹیم سے میچ (اللہ کرے) جیت گیا تو یہ کرکٹ کے شیدائیوں کے زخموں پر مرہم کے برابر ہوگا۔ وگرنہ شاید اب کی بار زخم کبھی نہ بھر پائیں۔
پڑھیے: برساتی تجزیہ کار
اگر دیکھا جائے تو مختلف چینلز اور نجی مباحثوں میں ہونے والے مباحثے اچھے بھی ہیں کیونکہ پاکستان میں رہنے والی خوفزدہ عوام کے پاس دہشتگردی کے علاوہ کوئی اور ایسا موضوع ہوتا ہی نہیں جس پر وہ بحث کرسکیں۔ ملک میں جاری دہشتگردی کی بحث چلتے چلتے مذہب اور پھر مختلف فرقوں سے متعلق ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ بعض اوقات لڑائی یا پھر ناراضگی کی صورت میں نکلتا ہے۔
کرکٹ ورلڈ کپ کی بدولت کم از کم پاکستانی مذہبی مباحثوں میں الجھتے نہیں اور یہ بھی شکر ہے کہ تمام فرقوں یا مسالک کی مشترکہ کرکٹ ٹیم ہے۔ جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی کھلاڑی کو فلاں فرقے سے تعلق ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
جہاں تک ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کی بات ہے تو اس میں پشیمانی کیا؟ پاکستان کا کونسا ایسا شعبہ ہے جس میں پاکستان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہو؟
جیسے کبھی اسکواش میں پاکستان کا سکہ پوری دنیا میں چلتا تھا۔ ہر انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کا فائنل دونوں پاکستانی پلیئرز جہانگیر خان اور جان شیر خان کے مابین ہوتا تھا اور کسی بھی ایک کی فتح کی صورت میں ٹائٹل پاکستان ہی آتا تھا۔
پھر دونوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد اسکواش کا کوئی عالمی اعزاز تو دور کی بات، مقامی سطح پر بھی کوئی نمایاں کھلاڑی سامنے نہیں آیا۔ جہانگیر خان اور جان شیر خان کی فتوحات ماضی کا قصّہ بن گئیں۔ اسکواش پر ان ملکوں کا راج ہوگیا جن کے پلیئرز پاکستان کے خلاف کھیلتے ہوئے گھبراتے تھے۔
پاکستانی ہاکی ٹیم کی عالیشان فتوحات بھی زیادہ پرانی بات نہیں جب پوری قوم فخر سے اپنی ٹیم کو اگر پہلی نہیں تو دوسری یا تیسری پوزیشن پر ضرور دیکھتی تھی۔
مزید پڑھیے: ہو جائے ایک پوسٹ مارٹم؟
پاکستانی ہاکی ٹیم 1971 میں بارسلونا میں ہونے والے پہلے ورلڈ کپ میں ہی ٹرافی اپنے ملک لانے میں کامیاب رہی تھی۔ جس کے بعد 1978 میں اصلاح الدین کی کپتانی میں، اختر رسول کی کپتانی میں 1982 کا ورلڈ کپ اور پھر شہباز سینئر کی قیادت میں 1994 کا ورلڈ کپ بھی پاکستان نے ہی جیتا تھا۔ ہاکی کی تاریخ میں پاکستان واحد ایسا ملک ہے جو اب تک چار مرتبہ ورلڈ ٹائیٹل جیت چکا ہے۔
پاکستانی ہاکی ٹیم کے پلیئرز کو فلائنگ ہارس جیسے خطابات سے نوازا جاتا تھا۔ پاکستان کا میچ کسی بھی ٹیم سے ہوتا تو دیکھنے والے میچ شروع ہونے سے قبل ہی پاکستان کو فاتح سمجھتے تھے۔ کھیل کے میدانوں سے ریٹائر ہونے والے کھلاڑیوں کی ڈیمانڈ پوری دنیا میں ٹریننگ اور کوچنگ کے شعبوں میں ہوا کرتی تھی۔
پھر ایک وقت آیا جب 2013 میں پاکستان ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں ساؤتھ کوریا سے شکست کھا گیا اور چار مرتبہ ورلڈ چیمپیئن رہنے والا ملک 2014 کا ورلڈ کپ میں حصّہ بھی نہ لے سکا، جس کے نتیجے میں آسٹریلیا تیسری بار یہ اعزاز اپنے نام کروانے میں کامیاب رہا۔
شہباز سینئر، شہباز جونیئر، صلاح الدین، اختر رسول، اور قاسم ضیا جیسے اولمپیئنز کے بعد ایسے کھلاڑی سامنے آئے جن کا کسی کو آج نام بھی یاد نہیں۔ بس ایک چیز جو ہر انٹرنیشنل ہاکی ٹورنامنٹ کے بعد باقاعدہ طور پر سامنے آتی ہے وہ سابقہ کھلاڑیوں کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات ہوتے ہیں۔
ہاکی کے علاوہ پاکستان تاریخ میں اکلوتی بار 1994 میں سنوکر کا عالمی چیمپئین اور 1998 میں ایشیائی چیمپیئن بنا اور پوری قوم کو محمد یوسف جیسے سنوکر پلیئر کا پتہ چلا۔
جانیے: پاکستان کے خلاف زمبابوے کا خاص ہتھیار
مگر اس عظیم کھلاڑی کے بعد سنوکر کا نام لینے والا کوئی کھلاڑی سامنے نہیں آیا اور آج سنوکر محلے کی سطح پر صرف اور صرف نجی کلبوں میں جوے کی غرض سے کھیلی جاتی ہے۔
لہٰذا ایسے حالات میں اگر پاکستانی کرکٹ ٹیم کوارٹر فائنل تک پہنچ جاتی ہے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں موجودہ حالات ایسے ہیں کہ جیتنا تو دور کسی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں پاکستان کی شرکت کرنا ہی بہت ہے۔
پاکستانیوں کی سوچ کا اندازہ تو ان خیالات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ 1992 کی طرح اس بار بھی ملک میں نواز شریف کی حکومت ہے اور پاکستانی ٹیم کی قیادت بھی 1992 کے ورلڈ کپ کی طرح ایک نیازی ہی کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ 1992 میں بھی پاکستان پول میچز ہارا تھا اور پھر ورلڈ کپ جیت گیا تھا، اس لیے اس بار بھی جیت جائے گا۔
بہرحال پاکستانیوں کو امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ٹیم کی دو میچز میں پرفارمنس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی دعاؤں کا سلسلہ مزید شدّت سے جاری رکھنا چاہیے۔ اللہ نے چاہا تو اس بار بھی ورلڈ کپ پاکستان ہی جیتے گا۔ لیکن بس اتنا یاد رکھیں، کہ دعائیں چاہے کتنی ہی شدت سے کی جائیں، کپ وہی جیتے گا جو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا، پھر چاہے وہ بغیر دعاؤں کے ہی میدان میں اترے۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔