آج کے فخرو
غیاث الدین بلبن کا شمار ان عظیم سلاطینِ دہلی میں ہوتا ہے جنہوں نے انفرادی طور پر اپنا لوہا منوایا اور نہ صرف خطے پر، بلکہ لوگوں کے دلوں پر بھی حکومت کی۔ اس کا دورِ حکومت 22 برسوں پر محیط ہے۔ 80 برس کی عمر میں انتقال ہوا اور آخری دم تک اس نے اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔
بلبن ایک باشعور، سمجھدار، ہوشیار اور صاحب وقار حکمران تھا، اور اس کے ہر حکم میں عقلمندی اور سنجیدگی کے آثار پائے جاتے تھے۔ وہ ہمیشہ سلطنت کے اہم امور قابل اور موزوں افراد کے سپرد کرتا تھا۔ نااہل لوگ اس کے پاس سے بھی نہ گزرتے تھے۔ اسے جب تک لوگوں کی قابلیت، ایمانداری، معقولیت، پرہیزگاری اور پختہ کاری کا تجربہ و اندازہ نہ ہوجاتا تھا، وہ اس وقت تک کوئی اہم کام ان کے سپرد نہ کرتا۔ کسی کو بھی عہدہ دیتے وقت جانچ پڑتال کرتا، اور اگر اس میں کوئی کمی بیشی رہ جاتی اور بعد میں اس عہدہ دار کی بددیانتی کا کوئی ثبوت مل جاتا تو وہ فوری طور پر اسے برخاست کر دیتا۔
غیاث الدین بلبن کے زمانے میں ایک رئیس تھا جس کانام فخرو بھائی تھا۔ یہ شخص بڑا صاحب اقتدار تھا اور اس نے ایک عرصے تک بلبن کی خدمت کی تھی۔ بلبن نے اپنی عادت کے مطابق فخرو سے کبھی بات چیت نہ کی تھی۔ فخرو نے درباریوں کے توسط سے بادشاہ کی خدمت میں یہ معروضہ پیش کیا کہ اگر بادشاہ اس سے گفتگو کرے تو فخرو اس کے معاوضے میں دولت اور جنس کی ایک بڑی مقدار نذرانے کے طور پر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرے گا۔
جب درباریوں نے فخرو کی درخواست بلبن کی خدمت میں پیش کی تو اس نے جواب دیا کہ فخرو اگرچہ بہت دولتمند ہے لیکن وہ ایک کاروباری شخص ہے اور بازاریوں ہی کا سردار ہے، ایسے شخص سے بادشاہ کا بات چیت کرنا بادشاہ کے رعب داب اور وقار کے منافی ہے اور ایسے شخص کا بادشاہ کے قریب ہونا رعایا کے دلوں سے بادشاہ کا سچا احترام ختم کر دیتا ہے۔
یہ تھا بادشاہ کا اصول، کہ صرف ایسے لوگوں کو ہی اپنے ساتھ رکھا جائے، جن کی عوام کی نظروں میں وقعت ہو تاکہ کہیں عوام بادشاہ کو بھی غیر سنجیدہ نہ سمجھنے لگیں۔ بلبن کے یہ الفاظ اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گے کہ حکمرانوں کا جاہ و جلال اس وقت بے اثر ہوجاتا ہے جب وہ اپنے ہی شہریوں کو تحفظ دینے سے قاصرہوجائیں۔ بلبن کے زمانے میں ہی میواتیوں کی ایک جماعت دہلی کے آس پاس کے علاقے کے جنگلوں میں چھپ چھپا کر قتل و غارت کیا کرتی تھی۔ ان کے خوف کی وجہ سے شہر کے دروازے مغرب کے وقت بند کر دیے جاتے تھے۔ نمازِ عصر کے بعد کسی شخص کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ وہ قبرستان تک جائے۔
بلبن کو جب اس لوٹ مار اور رعایا کی مصیبتوں کا حال معلوم ہوا تو اس نے اس مفسد گروہ کے قتل کو حکومت کے بقیہ تمام کاموں پر مقدم رکھا اور ان سفاکوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے دہلی سے روانہ ہوا۔ سلطانی افواج نے انہیں گھیر لیا اور تقریباً ایک لاکھ ظالموں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس کے بعد اس جنگل کو، جس میں یہ لٹیرے رہا کرتے تھے، بالکل صاف کروا دیا اور زمین کو زراعت پیشہ لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ بلبن نے اس مقام پر سپاہیوں کی چند چوکیاں بھی مقرر کیں اور ان چوکیوں کی حفاظت کے لیے اپنے کچھ معتبر سرداروں کو وہاں چھوڑ کر واپس دہلی آیا۔
بلبن آج اس لیے یاد آ رہا ہے کہ ایک طرف تو حکومت وقت کے درباروں میں بازاری قسم کے فخروؤں نے بادشاہ کا گھیراؤ کیا ہوا ہے جو ملک کی معاشی پالیسیوں سے لے کر بادشاہ کی شاہی پوشاک تک کا انتخاب کرتے ہیں اور دوسری طرف عوام غیر ریاستی عناصر کے رحم و کرم پر ہیں جو ٹماٹر پیاز کی قیمتوں سے لے کر زندگیوں تک کے فیصلے کرتے ہیں۔ کبھی طالبان سے مذاکرات اور کبھی مفاہمتی پالیسی میں عوام کو الجھا کر ابہام اور افراتفری پیدا کی جاتی ہے، تو کبھی آپریشن کو ہی واحد حل قرار دیا جاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ عام آدمی کس بات پر یقین کرے اور کس پر نہیں۔
آج کے پاکستان میں فخروؤں کی بھی کمی نہیں اور شر پسند بھی اپنے پورے قد اور زور کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنا کام کبھی ذخیرہ اندوزی، مہنگائی، کک بیکس کی صورت میں اور ساتھ ہی ساتھ خودکش حملوں، بم دھماکوں اور معاشرے میں عدم تحفظ کی شکل میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ منظر نامہ ریاست کی کمزوری کا شاخسانہ ہے۔ ریاستی و غیر ریاستی پیرا سائٹس اب اتنے توانا ہو چکے ہیں کہ بادشاہ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ کس کو ساتھ رکھے اور کس کو روانہ کرے۔
آج کے دور کے عجیب فخرو ہیں جو بادشاہ کو امریکہ تو لے جاتے ہیں مگر ساتھ ہی اوبامہ کے سامنے پرچیاں ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور وائٹ ہاؤس کی تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی بادشاہ امریکی صدر کو قیمے اور پراٹھے کی دعوت دینے کے لیے پرچیاں پڑھتا ہے اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کا بادشاہ ایک مذاق بن جاتا ہے جس کو دیکھ کر گھانا اور نائجیریا کے بادشاہ بھی اپنی ہنسی روکنے پر ناکام رہتے ہیں۔
غیاث الدین بلبن کے پاس تو ایک ”فخرو“ تھا جس سے ملنے سے اس نے انکار کیا تھا مگر یہاں تو ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ یہ فخروؤں کی فوج ہے جو عام حالات میں مٹی میں چھپے رہتے ہیں مگر جب بھی انہیں موقع ملتا ہے، یہ پھر دربار میں گھس آتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو جنرل ضیاء سے لے کر نواز شریف تک کے درباریوں کی فہرست دیکھ لیں۔ یہ ہر بادشاہ کے ساتھ ملیں گے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ بسا اوقات ایک ہی فخرو کئی درباروں کی وفاداری نبھاتا ہے، اور ہر نئے بادشاہ کی آمد پر اس کے قصیدے پڑھنے لگتا ہے۔ اور یہاں بادشاہ کی حکومت ڈگمگائی، اور وہاں فخرو نے اپنی کشتی تبدیل کی۔
ان کا کمال یہ بھی ہے کہ کبھی تو آمریت کا راگ الاپتے ہیں اورکبھی جمہوریت کا حسن ان کے چہروں اور بیانات سے عیاں ہوتا ہے۔ کاش ہمارے حکمران 800 سال پرانے اس حکمران سے ہی کچھ سیکھ لیں اور اپنے پاس سے خوشامدیوں کی چھٹی کروا دیں تاکہ انہیں عوام کے مسائل کا صحیح سے اندازہ ہو سکے۔ ورنہ تو یہ فخرو بادشاہ کے گرد 'سب اچھا ہے' کی اتنی موٹی دیوار تعمیر کر دیتے ہیں، کہ بادشاہ کو عوام اور عوامی مسائل نظر ہی نہ آسکیں، اور جب عوام تنگ آ کر بادشاہ کو ہٹا دیں، تو فخرو کا کام صرف اتنا ہے کہ قصیدے میں بادشاہ کا نام تبدیل کر دے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بادشاہ کا ذکر تاریخ کی کتب میں نہیں بلکہ نیب، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کی الماریوں میں دیمک لگی فائلوں کی صورت میں، عدالتوں میں مقدمات کی صورت میں، اور اخبارات کے مذمتی کالموں کی صورت میں ملتا ہے۔
شہباز علی خان انٹرنیشنل رلیشنز میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں، اور فری لانس رائٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔